مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی مقبولیت برقرار : محمد ریاض
مسلمانوں کے لیے یہ سبق لینے والی بات ہے کہ یہ ’آئیڈنٹیٹی پالیٹکس‘ دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ یہ ’آئیڈنٹیٹی پالیٹکس‘ کی ہی دین ہے جو آج بی جے پی کا ہندوتوا اپنے عروج پر ہے اور ’بھائی جان‘ سیاسی میدان میں ہیں۔
افروز عالم ساحل
’ بنگال میں ممتا بنرجی لگا تار تیسری بار اقتدار پانے کے لیے ’کھیلا ہوبے‘ نعرے کے ساتھ اپنی قسمت آزما رہی ہیں، وہیں بی جے پی اس الیکشن میں ایک نئے ’کھلاڑی‘ کے طور پر میدان میں ہے۔ اور میدان میں اب تک ہوئے ’کھیل‘ کے رخ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ مقابلہ راست طور پر بی جے پی اور ٹی ایم سی کے درمیان ہے۔ اس ’کھیل‘ میں لیفٹ، کانگریس اور پیر زادہ عباس صدیقی عرف بھائی جان کافی دور ہیں۔‘
یہ باتیں مغربی بنگال کے سیاسی تجزیہ نگار محمد ریاض صاحب کی ہیں۔ واضح رہے کہ محمد ریاض عالیہ یونیورسٹی کولکاتا میں شعبہ ماس کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم کے اوفیسیٹنگ ہیڈ ہیں اور ملک کے متعدد اخباروں و ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ اس سے قبل دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کر کئی میڈیا تنظیموں میں کام کر چکے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت نے بنگال کی موجودہ الیکشن کے سلسلے میں ان سے خاص بات چیت کی۔
محمد ریاض مزید کہتے ہیں کہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی مقبولیت برقرار ہے بلکہ کچھ معنوں میں اس میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ممتا بنرجی اب بھی خواتین کے درمیان کافی مقبول ہیں۔ اگر آپ یہاں ٹی ایم سی پر تنقید کرنے والوں سے بھی ملیں گے تو وہ بھی بولیں گے ممتا بنرجی نے کام تو کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بی جے پی کے کارکن یہ الزام لگائیں گے کہ ممتا بنرجی مسلمانوں کی چاپلوسی میں مصروف ہیں۔ وہ مسلمانوں کو محرم کا اکھاڑہ تو نکالنے دیتی ہیں، لیکن ہمیں رام نومی کا جلوس نہیں نکالنے دیا جاتا ہے۔ وہیں گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں ممتا بنرجی اس الیکشن میں مسلمانوں کے تئیں کافی محتاط نظر آرہی ہیں۔ وہ مسلمانوں کی بات زیادہ نہیں کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ۶۹ تا ۷۰ فیصد مسلمان ممتا بنرجی کے ہی ساتھ ہیں۔
ایسی صورتحال میں عباس صدیقی کیا کریں گے کیا بنگال کا مسلمان ان کے ساتھ نہیں جائے گا؟ اس سوال پر محمد ریاض کہتے ہیں کہ ’بھائی جان‘ کی ریلی میں بھیڑ تو خوب لگ رہی ہے۔ لیکن یہ بھیڑ ووٹ میں کتنا تبدیل ہوگی یہ تو الیکشن کے نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ ’بھائی جان‘ نے اپنی پارٹی بنانے میں بہت دیر کر دی۔ ابھی تو ان کی پارٹی رجسٹرڈ بھی نہیں ہے۔ وہ بہار کے ’راشٹریہ سیکولر مجلس پارٹی‘ کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ویسے میری ذاتی رائے ہے کہ ’بھائی جان‘ کو اکیلے یا اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ میدان میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے باوجود وہ ساؤتھ بنگال کی کچھ سیٹوں پر جیت درج کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔
یہ پوچھنے پر کہ مغربی بنگال میں ہندوتوا کا جو عروج ہوا ہے، اس کے لیے آپ کس کو ذمہ دار مانتے ہیں؟ اس سوال پر محمد ریاض کہتے ہیں کہ بنگال میں ’ہندوتوا پالیٹکس‘ کی بنیاد تو برٹش انڈیا کے دور میں ہی رکھ دی گئی تھی۔ بھلے ہی آر ایس ایس ناگپور سے ابھر کر سامنے آئی، لیکن شیاما پرساد مکھرجی جیسے تمام لیڈر بنگال کے ہی تھے۔ بنگال کی زمین ’ہندوتوا پالیٹکس‘ کے لیے کافی زرخیز رہی ہے۔ لیکن یہ کانگریس اور لیفٹ کی کچھ پالیسیوں کی وجہ سے عروج پر نہیں جا سکی تھی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ سال ۱۹۹۸ میں ممتا بنرجی نے کانگریس سے الگ ہو کر ٹی ایم سی بنائی۔ پارٹی بنانے کے ساتھ ہی وہ بی جے پی کی حلیف بن گئیں۔ اس وقت دونوں ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے اور اس مدد کی وجہ سے بی جے پی کے ساتھ ساتھ تمام ہندوتواوادی تنظیمیں سرگرم ہوئیں۔ سال ۲۰۰۴ میں بنگال کا ’ڈائنامکس‘ بدل گیا۔ اس بار کے لوک سبھا الیکشن میں ممتا بنرجی کو چھوڑ کر ان کے تمام امیدوار الیکشن ہار گئے اور مرکز میں یو پی اے کی حکومت گئی، جس میں لیفٹ بھی شامل تھا۔ اسی درمیان سال ۲۰۰۶ میں نندی گرام کا واقعہ رونما ہوا۔ سنگور کا معاملہ بھی شروع ہوا اور سب سے اہم مرکز کی جانب سے سچر کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی۔ ممتا بنرجی نندی گرام موومنٹ میں کود پڑیں لیکن ساتھ ہی بی جے پی سے دوری بنائے رکھی اور دھیرے دھیرے مسلمان گروپس کو اپنے ساتھ لینا شروع کیا۔ مسلمان نے بھی اپنی حالت دیکھ کر کانگریس و لیفٹ سے دوری بنائی اور ٹی ایم سی کے ساتھ جانا پسند کیا۔ اس طرح سے اس سچر کمیٹی رپورٹ کا بنگال کی سیاست پر اثر پڑا اور یہاں پہلی بار ’آئیڈنٹیٹی پالیٹکس‘ کی شروعات ہوئی۔ مسلمانوں نے نمائندگی کی بات کرنا شروع کی۔ ممتا بنرجی کو اس ’آئیڈنٹیٹی پالیٹکس‘ کا خوب فائدہ ملا چنانچہ انہوں نے اسی ’آئیڈنٹیٹی پالیٹکس‘ کے سہارے حکومت بنائی۔ اس دور میں بھلے ہی بی جے پی الیکشن میں کچھ خاص نہیں کر پائی لیکن اس کی ذیلی تنظیمیں اپنا کام کرتی رہیں۔
محمد ریاض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے یہ سبق لینے والی بات ہے کہ یہ ’آئیڈنٹیٹی پالیٹکس‘ دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ یہ ’آئیڈنٹیٹی پالیٹکس‘ کی ہی دین ہے جو آج بی جے پی کا ہندوتوا اپنے عروج پر ہے اور ’بھائی جان‘ سیاسی میدان میں ہیں۔
محمد ریاض کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے لیڈر زمین پر گاؤں دیہاتوں میں اپنے کارکنوں کے ساتھ جڑے رہے۔ اگر ان کے کارکنوں کو کوئی پریشانی آئی تو ان لیڈروں نے اس کو ایشو بنایا اور اپنے کارکنوں کا ساتھ دیا۔ جبکہ دوسری پارٹیوں میں ایسا نہیں ہے۔ ۲۰۱۸ کے پنچایت الیکشن میں کافی خون خرابہ ہوا، زیادہ تر جگہوں پر اپوزیشن کی دیگر پارٹی کے لوگوں کو الیکشن ہی نہیں لڑنے دیا گیا، لیکن بی جے پی میدان میں اپنے کارکنوں کے ساتھ میدان میں موجود رہی۔ ایسے میں گاؤں دیہاتوں میں لوگ بی جے پی میں کافی تعداد میں شامل ہوئے۔ کچھ جگہوں پر مسلمان بھی اچھی خاصی تعداد میں بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی مغربی بنگال میں مضبوط ہوئی ہے۔
یہ پوچھنے پر کہ مسلمانوں کو اس الیکشن میں کیا کرنا چاہیے محمد ریاض کہتے ہیں کہ میں کسی پر اپنی رائے تھوپنا نہیں چاہتا اور ویسے بھی مرشدآباد اور چوبیس پرگنا کے مسلمانوں کا ایشو ایک نہیں ہو سکتا۔ ووٹر خود ہی سمجھدار ہے اسے جو بہتر لگے اسے وہی کرنا چاہیے۔