معاشی عدم مساوات

فی کس آمدنی دو ہزار ڈالر ہے تو پھر بھوکے ممالک کی فہرست میں ہمارا درجہ 107واں کیوں ہے؟

از: زعیم الدین احمد حیدرآباد

اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً چار کروڑ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار نوجوان ہیں، اس مطلب یہ ہوا کہ چار کروڑ خاندان روزگار نہ ملنے کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔ اسی طرح ملک کے 22 کروڑ عوام ایسے ہیں جن کی کل آمدنی 375 روپے سے بھی کم ہے، یعنی وہ روزآنہ چار ڈالر سے بھی کم کمائی کر پاتے ہیں، وہ غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اس کے برعکس ہمارے ملک کے ایک فیصد عوام ایسے ہیں جن کے پاس سارے ملک کا بیس فیصد سرمایہ پایا جاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار کئی ماہرین اقتصادیات نے پیش کیے ہیں لیکن انہیں اربن نکسل کہا گیا، غدار قرار دیا گیا، چین کا پٹھو کہا گیا، یہاں تک کہ ہندو مخالف بھی کہا گیا۔ لیکن اس بار یہ اعداد و شمار کسی ماہر اقتصادیات نے نہیں بلکہ سنگھی خاندان کے مکھیا آر ایس ایس کے معتمد عمومی دتاتریہ ہوس ابلے نے پیش کیے ہیں۔
برسر اقتدار جماعت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں حقیقت میں وہ ملک کی معاشی ترقی سے جلتے ہیں، انہیں کی آنکھوں میں ملک کی معاشی ترقی کھٹکتی ہے، ہمارا ملک اس وقت وشو گرو بننے کے قریب ہے، وہ اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے اور 2030 تک وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ ہمارا ملک ہی دنیا میں تیزی سے معاشی ترقی کرنے والا ملک ہے، اس کی معیشت پانچ کھرب ڈالر کی بن چکی ہے، معیشت میں اس نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، کیا یہ ساری باتیں حقائق پر مبنی نہیں ہیں؟ اعداد و شمار کے مطابق تو یہ باتیں صحیح ہیں، لیکن جب ہم کسی چیز کا پیمانہ طے کرتے ہیں تو اس کی دیگر چیزوں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارے ملک نے معیشت کے عددی نمبرات میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو اس کے دیگر پیمانے بھی ہمیں دیکھنے چاہئیں۔
آخر ہمارے ملک کی معاشی ترقی کی حقیقت کیا ہے؟ ملک کی حقیقی معاشی صورتحال کیا ہے؟ ہم اس کو جانے بغیر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک پر دو سو سال حکومت کرنے والے ملک برطانیہ کو ہم نے معیشت کے اعداد و شمار میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ برطانیہ کی معیشت کا حجم 3.2 کھرب ڈالر ہے یعنی 3 لاکھ 20 ہزار کروڑ ڈالر، جب کہ ہمارے ملک کی معیشت کا حجم 3.5 کھرب ڈالر ہے یعنی 3 لاکھ 50 ہزار کروڑ ڈالر۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، لیکن یہ صورت حال کا ایک پہلو ہے اس کے دوسرے پہلو بھی ہیں، وہ یہ کہ ہمارے ملک کی فی کس آمدنی کتنی ہے اور برطانیہ کی فی کس آمدنی کتنی ہے؟ اس پہلو سے جب ہم غور کریں گے تو صورت حال یکسر بدل جاتی ہے۔ ہمارے ملک کی فی کس آمدنی ایک ہزار نو سو ڈالر ہے جب کہ برطانیہ کی فی کس آمدنی 47 ہزار ڈالر ہے۔ یعنی ہمارے ملک کی فی کس آمدنی سے 20 گنا زیادہ برطانیہ کی فی کس آمدنی ہے۔ جب ہم ملک کو اکائی کے طور پر لیں گے تو یقیناً ہمارے ملک نے حجم کے اعتبار سے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، لیکن اگر ہم آبادی کے اعتبار سے دیکھیں گے تو صورت حال یکسر بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم حجم کے اعتبار سے برطانیہ سے ایک قدم آگے ہیں تو فی کس آمدنی میں برطانیہ سے بیس گنا پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک کی فی کس آمدنی کا حساب بھی صحیح نہیں لگایا جاتا۔ اس کا حساب اس طرح لگایا جاتا ہے کہ ایک غریب کی آمدنی اور ایک امیر ترین جیسے اڈانی کی آمدنی کو جمع کیا جاتا ہے اور اس جمع کو ہر ایک فرد پر تقسیم کیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں ہر فرد کی آمدنی دو ہزار ڈالر نہیں ہے، بلکہ جملہ آمدنی کو آبادی پر تقسیم کر کے اس کا فیصد نکالا جاتا ہے، اسی طریقے کار سے تناسب نکالا جاتا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ کار نہیں ہے۔
اگر ملک میں فی کس آمدنی دو ہزار ڈالر ہے تو پھر گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق بھوکے ممالک کی فہرست میں ہمارا درجہ 107واں کیوں ہے؟ درجہ بندی میں بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور پاکستان ہم سے بہتر کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس قدر بھکمری پائی جاتی ہے؟ جب کہ ہمارا ملک معاشی ترقی کر رہا ہے تو پھر یہ بھکمری کیوں؟ نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین اپنی ایک کتاب "پولیٹکل اکانومی آف ہنگر انڈیکس” میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک پوشیدہ بھکمری پائی جاتی ہے جو سر عام ہے لیکن نظر کسی کو نہیں آتی۔ لیکن سنگھیوں نے اس درجہ بندی کو غلط کہتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ ہمارے ملک کو بدنام کرنے کی سازش ہے، ہمارے ملک کی معاشی ترقی سے ان کے سینے چل رہے ہیں۔ اس دعوے کو ایک طرف رکھتے ہیں، کیا اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں ہمارا درجہ 132واں ہوگیا جو پچھلے سال 131ویں درجے پر تھا یعنی ایک درجہ اور نیچے کھسک گئے ہیں، کیا یہ بھی غلط ہے؟
ترقی صرف اقتصادی معاملات کے اعداد و شمار کے بڑھ جانے کو ہی نہیں کہتے، اچھی سڑکیں، اونچی عمارتیں تعمیر کرنے کو ہی ترقی نہیں کہتے، بلکہ ترقی میں انسانی ترقی کو دیکھا جاتا ہے، انسانی ترقی کیا ہے؟ فرد کی تعلیمی ترقی ہو، صحت کی سہولتیں فراہم ہوں، پینے کے لیے صاف پانی میسر ہو، جہاں وہ رہتا ہو وہاں کا ماحول صاف ستھرا ہو گندگی سے پاک ہو، اسے کھانے کے لیے اچھی اور صحت بخش غذائیں ملیں، ان ہی ساری چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ اپنی رپورٹ تیار کرتی ہے، ان سارے معاملات میں ہمارا ملک کوسوں دور کھڑا ہوا ہے۔ ایک اور ادارے بین الاقوامی بینک کی رپورٹ کو بھی دیکھتے ہیں، ‘ملٹی ڈیمنشنل پاؤرٹی انڈیکس’ رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً 23 کروڑ لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، یعنی ایسی غربت کہ ان کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی ٹھیک سے میسر نہیں ہے۔ ان ساری رپورٹوں پر سنگھی کہیں گے کہ یہ سارے ادارے غیر ملکی ہیں ان سے ہمارے ملک کی ترقی دیکھی نہیں جارہی ہے، یہ ہمارے کے دشمن ہیں، کوئی بھی محب وطن ان رپورٹوں کو صحیح نہیں مانتا۔ چلیں ان رپورٹوں کو الگ رکھ دیتے ہیں، ہمارے ملک کا سرکردہ ادارہ جسے وزیر اعظم کا اختراع کردہ ادارہ کہا جاتا ہے جس پر انہیں بھرپور اعتماد بھی ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں غربت کی سطح تاریخ کی سب سے زیادہ اونچائی پر پہنچ گئی ہے۔
ہمارا ملک دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے اور اسے سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کہا جانے لگا ہے، کیوں کہ اس کی ترقی کی شرح کا متوقع اندازہ 8 فیصد لگایا جا رہا ہے، امریکہ جیسا ملک اس کی معاشی ترقی کی شرح 1.7 فیصد ہونے کا اندازہ ہے، یورپین یونین جس میں 19 ممالک شامل ہیں ان کی معاشی ترقی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، چین اپنی معاشی ترقی کی شرح تین فیصد ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے، وہیں ہمارے ملک کی معاشی ترقی کی شرح آٹھ فیصد نہ بھی ہو تو چھ فیصد کا محتاط اندازہ ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ یہاں بھکمری زیادہ ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یہاں دیگر انسانی ترقی کے اشاروں میں اتنی گراوٹ پائی جاتی ہے، کیا وجہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ عدم غذائیت کا شکار ہے؟ یہ سب اعداد و شمار کی جادوگری ہے، یہ اعداد کا الٹ پھیر ہے۔ اس ترقی کے زمین پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں، انسانی آبادی نے اس ترقی سے کیا ثمرات حاصل کیے ہیں اس کا اندازہ تو ان رپورٹوں سے ہو ہی گیا ہے۔
اب ان اعداد وشمار کی جادوگری کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے حساب سے دو ضرب دو چار ہوئے، اگر کسی ماہر ریاضی داں سے پوچھیں تو کچھ پیچیدہ عشاریوں میں اس کا جواب دے گا، لیکن اگر یہی سوال آپ کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے پوچھیں گے تو وہ الٹا آپ ہی سے پوچھے گا کہ آپ کو کتنے ہندسہ کا جواب چاہیے، ہندسوں کا الٹ پھیر کرکے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ان سارے مسائل کی جڑ کوویڈ ہے، کوویڈ کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہوگئی ہے، دنیا کی معاشی بد حالی کے اثرات ہمارے ملک پر بھی شدید پڑے ہیں وغیرہ۔ لیکن اس عذر لنگ کی حقیقت کو بھی جانتے ہیں۔ کوویڈ سے قبل ہماری معاشی ترقی کی شرح یعنی سال 2016-17 میں 8.3 فیصد تھی جو سال 2017- 18 میں گر کر 6.9 پر آ گئی، پھر سال 2018-19 میں شرح ترقی 6.6 پر کھسک گئی، اور سال 2019-20 میں 4.8 فیصد پر گر گئی، مارچ 2020 کے آخر ہفتہ میں تالا بندی ہوئی تھی کیونکہ معاشی سال کا اختتام مارچ میں ہی ہوتا ہے اسی لیے اس کو کوویڈ کے سال میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی کے بعد سے ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مسلسل چار سال شرح نمو کم درج ہوئی ہو۔ آزادی کو 72 سال مکمل ہوئے ہیں لیکن ایسی معاشی صورتحال کا سامنا ملک کبھی نہیں کیا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ یوں ہی ہوا ہے؟ یہ کسی آفات سماوی کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی کوویڈ کی وجہ سے شرح نمو کم ہوئی ہو، بلکہ یہ خراب معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا یوں کہیے کہ یہ مودی جی کے عجیب و غریب کارناموں کا نتیجہ ہے۔
اس کی ایک وجہ سال 2016-17 میں بڑے نوٹوں کا چلن ختم کرنے کا فیصلہ ہے۔ بڑے متکبرانہ انداز میں مودی نے راتوں رات ٹی وی پر آ کر اعلان کیا کہ آج رات سے پانچ سو اور ایک ہزار روپے نوٹ نہیں چلیں گے، آج سے یہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا رہ جائیں گے۔ اس کے مقاصد بھی وقفہ وقفہ سے بدلتے رہے۔ کبھی کہا گیا کہ یہ کالا دھن ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے، کبھی کہا گیا کہ ٹیکس چوری کرکے جن لوگوں نے پیسے جمع کیے ہیں ان کو باہر نکالا جائے گا، تو کبھی کہا گیا کہ نقلی نوٹوں کو ختم کرنے کے لیے نوٹ بندی کی گئی۔ ایک اور مقصد بھی بیان کیا گیا کہ اس کے ذریعے نقد لین دین کو کم کرنا ہے۔ اندھ بھکتوں نے اس فیصلے کو صحیح سمجھا اور کہنے لگے یہ مودی جی کا ماسٹر اسٹروک ہے اس سے کالا دھن بینکوں میں جمع ہو جائے گا اور بازار میں روپے کا بہاؤ بڑے گا اور معیشت مضبوط ہوگی، لیکن پھر مودی جی کو کیا سوجھی کہ دو ہزار روپے کے نوٹ چھاپ دیے، اس سے غیر قانونی طور پر پیسے رکھنے والوں کو مزید سہولت ہو گئی چنانچہ انہوں نے دو ہزار روپے کے نوٹ جمع کرلیے۔ ہم نے دیکھا کہ اس بیچ بازار سے دو ہزار روپے کے نوٹ غائب ہو گئے۔ اے ٹی ایم مشینوں میں دو ہزار کے نوٹ نہیں نکل رہے ہیں لیکن ضمنی انتخابات میں دو ہزار روپے کے نوٹ ہی بانٹنے گئے۔ دو ہزار روپے کے نوٹ جاری کرتے وقت یہ کہا گیا تھا کہ بازار سے 75 فیصد کرنسی ختم ہو گئی ہے اس لیے اس کی بھرپائی کے لیے یہ نوٹ چھاپ رہے ہیں، جیسے ہی یہ بھرپائی ہو جائے گی دو ہزار روپے کے نوٹ بند کر دیے جائیں گے لیکن آج تک وہ بھرپائی نہیں ہو پائی ہے۔ دو ہزار روپے کے نوٹ اب بھی عوام کی دسترس سے باہر ہیں لیکن کالا دھن رکھنے والے کے پاس وافر مقدار موجود ہیں۔
معیشت کی تباہی میں نہ صرف نوٹ بندی کا ہاتھ ہے بلکہ جی ایس ٹی قانون اور اس کا ناقض نفاذ بھی اس میں مدد گار ہے۔ انہی عوامل کی وجہ سے سال 2019-20 میں جی ڈی پی کی شرح 4.8 فیصد پر پہنچ گئی، ستم بالائے ستم اسی سال کوویڈ کا پہلا دور شروع ہو گیا جس کی وجہ سے ترقی کی شرح منفی – 6.6 پر پہنچ گئی، اس سال یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ شرح نمو 8 فیصد ہوگی لیکن معیشت میں سدھار دیکھنے کہ باوجود جی ڈی پی کی شرح نمو آئی ایم ایف کے مطابق اس سال 6.5 ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، جب کہ بین الاقوامی بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، فیچ اور آر بی آئی شرح نمو 6 کے آس پاس ہونے کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ ایک طرف جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہو رہی ہے اور جو ترقی ہو رہی ہے وہ بھی کس کی ترقی ہو رہی ہے؟ کیوں کہ جی ڈی پی سارے ملک کی جملہ آمدنی ہوتی ہے، اس میں ایک فرد کی آمدنی ظاہر نہیں ہوتی، کس کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے یہ جی ڈی پی سے معلوم نہیں کیا جا سکتا۔
آکسفیم انڈیا کی ایک سے رپورٹ اس کو سمجھنے میں مدد ملے گی، "ورلڈ ان ایکوالیٹی رپورٹ” سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے 22 فیصد اثاثوں پر ایک فیصد مالداروں کا قبضہ ہے، اسی طرح ملک کے 57 فیصد اثاثوں پر 10 فیصد مالداروں کا قبضہ ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کی 50 فیصد آبادی کے پاس صرف 13 فیصد اثاثے ہیں، اتنی ہیبت ناک عدم مساوات شاید کسی اور ملک میں نہیں پائی جاتی ہو گی، اس طرح کی عدم مساوات کا ہونا نہ اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی اقتصادی طور پر۔ اقتصادی طور پر اس لیے کہ عوام کے پاس جتنی دولت ہوگی وہ اتنا ہی خرچ کریں گے اور جب خرچ کریں گے تو بازار میں روپے کی گردش بڑھے گی جس کی وجہ سے دولت مرکوز ہونے کے بجائے گردش کرتی رہے گی، جس سے مزید لوگوں کو کاروبار یا روزگار ملے گا اور معیشت میں اضافہ ہوگا یا معاشی ترقی کا ذریعہ بنے گا۔ عوام کے پاس آمدنی نہیں ہو گی، عوام کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے تو معاشی ترقی ممکن نہیں ہے، ملک کی معاشی ترقی کا راز یہی ہے کہ عوام کے پاس پیسے ہوں۔
معاشی عدم مساوات کی ایک اور مثال: این راک نامی ایک کمپنی جو تعمیرات کا کام کرتی ہے اس کے مطابق سستے گھروں کی فروخت میں کمی آ رہی ہے جب کہ مہنگے ترین گھر جن کی لاگت ایک کروڑ یا اس سے زیادہ کی ہے ان کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں کیفیات ایک ہی وقت میں ہو رہی ہیں۔ سیام "سوسائٹی فار انڈین آٹوموبائل مینی فیکچرز” کے مطابق ملک میں ایک کروڑ یا اس سے زیادہ قیمت والی کاروں کی خریداری میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ سستی کاروں کی خریداری میں بڑی تیزی سے کمی آئی ہے، یعنی بنیادی ماڈل کی کاروں کے خریدار کم ہیں، عوامی ضرورتوں کی چیزوں کی طلب میں کمی اور قیمتی اشیاء جسے صرف مالدار ہی خرید سکتے ہیں اس کی طلب میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں معاشی عدم مساوات خطرناک حد تک پھیلی ہوئی ہے، ایک مالدار کے ایک کروڑ روپے کی کار خریدنے سے معاشی بہتری نہیں ہو گی بلکہ ایک کروڑ عوام انڈے خرید کر کھانے سے معاشی بہتری ہو گی اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔
صرف پرتعیش اشیاء کی طلب میں ہی اضافہ ہوا ہے۔ 3367 فہرست شدہ کمپنیوں کی اس سال کی آمدنی 105 لاکھ کروڑ ہے، اگر اس کا تقابل گزشتہ مالی سال کیا جائے تو یہ 30 فیصد زیادہ ہے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ کوویڈ کے دوران جہاں لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے، چھوٹی اور متوسط کمپنیاں بند ہوگئیں، معاشی سرگرمیاں ٹھپ پڑگئیں، لیکن ایسی بدترین صورت حال میں بھی ہمارے ملک کے کارپوریٹس شعبہ نے بے تحاشا دولت کمائی، اتنی آمدنی انہیں تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟ یہی معاشی عدم مساوات ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس معاشی عدم مساوات کو کس طرح ختم کیا جائے؟
اس کو ختم کرنے میں حکومت کا سب سے اہم کردار ہونا چاہیے، اسے چاہیے کہ معاشی عدم مساوات کو روکے، اگر وہ یہ نہیں کر سکتی تو کم از کم اس کو بڑھاوا نہ دے، لیکن حکومت ہے کہ اس کو مزید بڑھاوا دے رہی ہے، وہ ایسے معاشی منصوبوں پر عمل پیرا ہے جس سے ان کے سرمایہ دار آقاؤں کی مدد ہو رہی ہے، ان کی تجوریاں بھر رہی ہیں۔ وہ اپنے سرمایہ دار آقاؤں کی مدد کیسے کر رہی ہے اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے، مالی سال 2019-20 میں جب جی ڈی پی مسلسل چوتھے سال گر کر چار فیصد تک آگئی تھی اس سال حکومت نے کارپوریٹ انکم ٹیکس کو 32 فیصد سے کم کرکے 22 فیصد کردیا، ملک کی تاریخ کیا کسی بھی ملک کی تاریخ میں شاید اتنے بڑے پیمانے پر کارپوریٹ انکم ٹیکس کم کیا گیا ہو گا۔ یکلخت 10 فیصد کارپوریٹ انکم ٹیکس کم کرنے سے حکومت کو کتنا نقصان ہوا یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی۔ پارلیمنٹری کمیٹی آن فائنانس جس میں زیادہ تر بی جے پی کے ارکان ہیں اس کےمطابق ایک لاکھ 84 ہزار کروڑ کا حکومت کو نقصان ہوا ہے، اس نقصان کی پابجائی کیسے کی گئی جانتے ہیں آپ؟ اسی سال حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا اس پر زائد ٹیکس وصول کیا گیا، نتیجے میں دو لاکھ 40 ہزار کروڑ روپے اس زائد ٹیکس سے حکومت نے ہم جیسے عام شہریوں سے وصول کیے۔ یہ ہے اصل معاشی عدم مساوات۔ ذاتی انکم ٹیکس کو کم کرنے کی باری آتی ہے تو زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں، دماغ سن ہو جاتے ہیں، قلم ٹوٹ جاتے ہیں۔
کارپوریٹس کے انکم ٹیکس معاف کرنے سے معاشی بہتری نہیں ہو گی، معاشی بہتری کے لیے عوام کے پاس پیسہ ہونا ضروری ہے۔ سب سے پہلے معاشی عدم مساوات کو ختم کرنا ہو گا تب ہی ملک اقتصادی طور پر مستحکم ہو گا۔
***

 

***

 حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کی 50 فیصد آبادی کے پاس صرف 13 فیصد اثاثے ہیں، اتنی ہیبت ناک عدم مساوات شاید کسی اور ملک میں نہیں پائی جاتی ہو گی، اس طرح کی عدم مساوات کا ہونا نہ اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی اقتصادی طور پر۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022