افروز عالم ساحل
یہ 1920کی بات ہے۔ مولانا محمود حسن پورے تین برس سات مہینے کے بعد مالٹا کی جیل سے رہا ہو کر 8 جون 1920کو بمبئی پہونچے۔ مولانا شوکت علی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور خلافت کمیٹی کے ذمہ داران سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے نعرہ تکبیر کی صدا سے ان کا پر جوش استقبال کیا۔ پوری فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی۔ ان کے استقبال کے لیے مسلمانان بمبئی کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ دلی، لکھنؤ، دیوبند اور ملک کے دیگر شہروں سے آئے تھے۔ کسی طرح ہجوم سے نکل کر مولانا محمود حسن کار میں بیٹھ سکے اور پھر یہاں سے خلافت ہاؤس پہونچے۔ یہیں ان کے قیام کا نظم تھا۔ یہاں بھی لوگوں کا تانتا لگا رہا۔ ان سے ملاقات کے لیے مہاتما گاندھی اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی بھی پہونچے اور دیر تک ملک کے مسائل حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس دو روزہ قیام کے دوران خلافت کمیٹی کی جانب سے کہتری مسجد میں مسلمانان بمبئی کا ایک جلسہ عام منعقد ہوا، جس میں خلافت کمیٹی اور اہل شہر کے جانب سے مولانا کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا گیا۔
بمبئی میں دو روز قیام کے بعد مولانا براہ دلی دیوبند کے لیے روانہ ہوئے۔ دلی سے دیوبند تک ہر ریلوے پلیٹ فارم پر لوگوں کی زبردست بھیڑ موجود تھی۔ عالم یہ تھا کہ لوگوں کو زیارت کرانے کے لیے مولانا کو سروں پر اٹھانا پڑ رہا تھا۔ دیوبند میں کچھ دنوں کے قیام کے بعد مولانا نے آس پاس کے کئی مقامات کا دورہ کیا۔ اپنی تقریر وتحریر اور خطوط کے ذریعے تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کی پرزور حمایت و وکالت کی۔ انہوں نے اس تحریک کی تائید میں فتویٰ دیا چنانچہ مولانا کے اس فتاویٰ کا خاطر خواہ اثر مسلمانان ہند پر پڑا۔ ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کی نوکری اور ان سے عطا کردہ وظائف، اعزازات، القاب اور خطابات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد نے سرکاری نوکریوں سے استعفیٰ دے دیا۔
دراصل مولانا کی 19 جولائی 1920 کی ایک تحریر جمعیت علماء ہند کے متفقہ فتویٰ کی حیثیت سے پانچ سو علما کے دستخط کے ساتھ شائع ہوئی اور یہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں تک پہونچائی گئی۔ اس کے علاوہ صوبہ آگرہ کی خلافت کمیٹی کے استفتا پر انہوں نے ترک موالات کے متعلق فتویٰ دیا تھا، جو خلافت کمیٹی کی جانب سے دوسرے علمائے کرام کے فتاویٰ کے ساتھ طبع ہو کر مشتہر ہوا۔ کلکتہ میں بھی خلافت کانفرنس میں شرکت کے لیے مولانا کو دعوت دی گئی لیکن علالت کی وجہ سے نہیں جا سکے، البتہ مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوری کے ذریعہ ایک پیغام بھیجا جو کانفرنس کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ مولانا کے لیے ’شیخ الہند‘ کا خطاب خلافت کمیٹی کی جانب سے ہی تجویز ہوا تھا جو اس قدر مشہور و مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ اس کے بغیر اب ان کا نام ادھورا معلوم ہوتا ہے۔
مولانا محمود حسن کی پیدائش 1851ء میں اتر پردیش کے بریلی میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام مولانا ذوالفقار علی تھا جن کا تعلق دیوبند سے تھا لیکن بریلی میں ملازمت کی خاطر مقیم تھے۔ مولانا کی ابتدائی تعلیم و تربیت دیوبند میں ہوئی۔ جب 1867 میں دارالعلوم کا افتتاح عمل میں آیا تو سب سے پہلے طالب علم مولانا محمود حسن تھے۔ 1873ء میں انہوں نے تعلیم سے فراغت حاصل کی۔ 9 جنوری 1874 کو مدرسہ کے جلسہ دستار بندی میں اس وقت کے اکابر علماء کی موجودگی میں دستار بندی ہوئی اور دارالعلوم دیوبند کا مدرس مقرر کیا گیا۔ 1888ء میں مولانا سید احمد دہلوی صدر مدرس دارالعلوم دیوبند کے مستعفی ہونے کے بعد مولانا محمود حسن کو دارالعلوم دیوبند کی منصب صدارت تفویض کی گئی اور پھر 1905 میں سربراہ مقرر کیے گئے۔ 1909میں ’جمیعت الانصار‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور مولانا عبیداللہ سندھی کو اس کی نگرانی سپرد کی۔ اٹلی اور ترکی کے درمیان جب جنگ طرابلس کا آغاز ہوا تو مولانا محمود حسن نے اساتذہ و طلبہ کی مدد سے ان دنوں ترکوں کی مدد کے لیے ایک لاکھ روپے جمع کرکے ترکی روانہ کیا۔ 1913 میں ’نظارة المعارف القرآنیہ‘ کے نام سے ایک ادارہ دہلی کے مسجد فتح پوری میں قائم کیا۔ اس کے سرپرستوں میں حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر مختار انصاری تھے۔ ان کی اس تحریک میں مولانا آزاد اور حسرت موہانی بھی شامل تھے۔
1914 میں جب پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو مولانا نے اسے انگریزوں کے خلاف 1857 میں شروع کی گئی تحریک آزادی کے مشن کو آگے بڑھانے اور متحد ہونے کا بہتر موقع سمجھا اور ہندوستان کے باہر بھی انگریزوں کے خلاف ماحول بنانے پر مولانا کی توجہ مبذول ہونے لگی۔ انہوں نے 1915 کے اوائل میں مولانا عبیداللہ سندھی کو افغانستان بھیج کر اپنے تحریک کا مرکز کابل کو بنایا۔ 15 اکتوبر 1915 کو مولانا عبیداللہ سندھی کابل پہنچے اور وہاں پہلے سے موجود حریت پسند ہندوستانیوں کی مدد سے ایک عبوری حکومت تشکیل دی۔ یہ کسی بھی غیر ملکی سر زمین پر قائم ہونے والی ہندوستان کی پہلی جلاوطن حکومت تھی۔ راجہ مہندر پرتاپ اس حکومت کے صدر منتخب ہوئے۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی وزیر اعظم بنائے گئے اور خود مولانا عبیداللہ سندھی وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔
مولانا محمود حسن کی یہی تحریک بعد میں ’ریشمی رومال تحریک‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ مولانا عسکری بنیادوں پر مسلمانوں کو منظم کر کے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہتے تھے، منصوبہ ترکی کی فوج کی مدد سے افغانستان کے راستے ہندوستان میں انگریزوں پر حملہ کر کے ملک کو آزاد کرانا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے خود مکہ پہنچ کر حجاز میں مقیم ترک گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی، انہیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیا اور آزادی ہند کے لیے اپنا منصوبہ ان کے سامنے رکھا۔ غالب پاشا نے شیخ الہند کے اس منصوبے کی حمایت کی۔ اسی دوران ترکی کے وزیر جنگ انور پاشا سے بھی مولانا محمود حسن کی ملاقات ہوئی، وہ بھی ان کے اس منصوبے کی تائید و حمایت میں تھے۔ لیکن اپنوں کی سازشوں سے انگریزوں کے خلاف یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ مولانا محمود حسن کو گرفتار کر مصر کے راستے مالٹا بھیج دیا گیا۔ لیکن ان کی اس گرفتاری نے ہندوستان کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔
تحریک خلافت کے پہلے مرحلے میں ہی جب طے ہوگیا تھا کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے الگ جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم کی جائے گی تب اس کے افتتاح کے لیے مولانا محمد علی جوہر کے دماغ میں پہلا نام شیخ الہند مولانا محمود حسن کا ہی آیا چنانچہ انہوں نے شیخ الہند کو دعوت دی۔ ان دنوں مولانا کی طبیعت بہت خراب ہونے کی وجہ سے تمام احباب نے ان کو علی گڑھ نہ جانے کا مشورہ دیا، لیکن انہوں نے کہا کہ اگر میرے جانے سے انگریز کو تکلیف پہنچتی ہے تو میں ضرور جاؤں گا۔اس طرح آج سے سو سال پہلے 29 اکتوبر 1920کو علی گڑھ مسجد میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کی تقریر کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاح کا اعلان ہوا اور انہی کے ہاتھوں رسم تاسیس ادا ہوئی۔ ان کی طبیعت اتنی خراب تھی کہ نقاہت کی وجہ سے اپنی تحریر کردہ تقریر بھی پڑھ نہیں سکتے تھے، اس لیے انہوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو پڑھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جامعہ کا مشہور خطبہ تاسیس مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھ کر سنایا۔
علی گڑھ سے دیوبند واپسی کے بعد شیخ الہند کی حالت بہت زیادہ تشویشناک ہوگئی۔ اس لیے ڈاکٹر انصاری کے شدید اصرار پر مولانا نے دہلی میں ڈاکٹر انصاری کے گھر پر قیام و علاج کی تجویز منظور کی۔ ان کا علاج دہلی میں حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری کر رہے تھے، لیکن اسی دوران 30 نومبر 1920 کو شیخ الہند مولانا محمود حسن ہمیشہ کے اس دنیا کو ولوداع کہہ گئے۔ کہنے کو یہ ایک فرد کا سانحہ ارتحال تھا لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سے پوری ایک تاریخ کا خاتمہ تھا۔ شیخ الہند کا جنازہ دہلی سے دیوبند لایا گیا۔ راستے میں متعدد مقامات کے ریلوے اسٹیشنوں پر بڑی بڑی جماعتوں نے نماز جنازہ پڑھی۔ جنازہ جب دیوبند کے ریلوے اسٹیشن پہنچا تو تقریباً وہی سماں تھا جو مالٹا سے واپسی کے وقت تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس وقت شدت مسرت سنبھلنے نہ دیتی تھی اور اس وقت شدت غم نے بے چین کر رکھا تھا۔ ازدحام کی وجہ سے جنازہ کافی دیر کے بعد مکان تک پہنچایا جا سکا۔ اگلے دن صبح کو دارالعلوم کے احاطہ میں نماز جنازہ ادا کر کے ہزار حسرت و افسوس و ہزار غم و الم کے ساتھ اس گنجینہ علم و عمل کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
***
مولانا محمود حسن کی یہی تحریک بعد میں ’ریشمی رومال تحریک‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ مولانا عسکری بنیادوں پر مسلمانوں کو منظم کر کے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہتے تھے، منصوبہ ترکی کی فوج کی مدد سے افغانستان کے راستے ہندوستان میں انگریزوں پر حملہ کر کے ملک کو آزاد کرانا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے خود مکہ پہنچ کر حجاز میں مقیم ترک گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی، انہیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیا اور آزادی ہند کے لیے اپنا منصوبہ ان کے سامنے رکھا۔ غالب پاشا نے شیخ الہند کے اس منصوبے کی حمایت کی۔ اسی دوران ترکی کے وزیر جنگ انور پاشا سے بھی مولانا محمود حسن کی ملاقات ہوئی، وہ بھی ان کے اس منصوبے کی تائید و حمایت میں تھے۔ لیکن اپنوں کی سازشوں سے انگریزوں کے خلاف یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ مولانا محمود حسن کو گرفتار کر مصر کے راستے مالٹا بھیج دیا گیا۔ لیکن ان کی اس گرفتاری نے ہندوستان کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020