ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے میں مرکز کی طرف سے تاخیر نہایت تشویش کی بات ہے: سپریم کورٹ

نئی دہلی، جنوری 7: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ یہ ’’نہایت تشویش کی بات‘‘ ہے کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کے لیے دس سفارشات حکومت کے پاس زیر التواء ہیں۔

جسٹس ایس کے کول نے کہا کہ دو سفارشات ستمبر کے آخر کی ہیں جب کہ آٹھ سفارشات نومبر کے آخر کی ہیں۔

جج نے کہا ’’سچ کہوں تو اس میں حکومت کا کردار بہت محدود ہے۔ انصاف کی انتظامیہ میں اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا تبادلہ ہونا چاہیے، تو کالجیم ایسا کرتا ہے۔ اسے زیر التواء رکھنا ایک بہت ہی غلط پیغام بھیجتا ہے کہ دوسرے عوامل کام میں آرہے ہیں، جو میں کہوں گا کہ کالجیم کے لیے ناقابل قبول ہے۔‘‘

اٹارنی جنرل آر وینکٹ رامانی نے کہا کہ انھوں نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور وہ بھی اس کے بارے میں ’’بہت سخت‘‘ محسوس کرتے ہیں۔

جسٹس کول اور جسٹس اے ایس اوکا پر مشتمل بنچ نے یہ بھی کہا کہ اعلی عدلیہ میں تقرری کے لیے کالجیم کی سفارشات پر عمل کرنے میں مرکزی حکومت کی طرف سے تاخیر کے نتیجے میں امیدواروں نے ججوں کے طور پر نامزد ہونے کی رضامندی واپس لے لی ہے۔

عدالت نے کہا ’’مرکزی حکومت کی طرف سے 22 نام واپس بھیجے گئے ہیں اور کچھ دہرائے گئے [ناموں] کو واپس بھیجا گیا ہے اور جن کو واپس بھیجا گیا ہے ان میں سے کچھ کو تیسری بار بھی دہرایا گیا ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کے بارے میں مرکز کو لگتا ہے کہ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے حالاں کہ ہم نے ان کی سفارش نہیں کی۔‘‘

جسٹس کول نے کہا کہ اس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو رہا ہے جس میں قابل لوگ جج کے طور پر تقرری کے لیے رضامندی دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

تاہم وینکٹ رامانی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت عدالتی تقرریوں کے لیے سپریم کورٹ کے مقرر کردہ ٹائم لائن پر عمل کرے گی۔ اپریل 2021 میں عدالت نے کہا تھا کہ اگر کالجیم متفقہ طور پر اپنی سفارشات کو دہرائے تو حکومت کو تین سے چار ہفتوں میں ججوں کی تقرری کرنی چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز کے طور پر تقرری کے لیے زیر التواء 104 سفارشات میں سے 44 پر ہفتے کے آخر تک کارروائی ہونے کا امکان ہے۔ عدالت اس معاملے کی دوبارہ سماعت 3 فروری کو کرے گی۔

مرکزی حکومت اور عدلیہ اس وقت ملک میں عدالتی تقرریوں کے عمل پر کشمکش میں ہیں۔ وزیر قانون کرن رجیجو نے بار بار تقرریوں کے موجودہ کالجیم نظام پر تنقید کی ہے۔

26 نومبر کو انھوں نے نیوز چینل ٹائمز ناؤ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کالجیم نظام آئین کے مطابق نہیں ہے۔

8 دسمبر کو سپریم کورٹ نے مرکز سے کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا کالجیم نظام بنیادی قانون ہے اور اس پر عمل کیا جانا چاہیے۔