سید خالد حسین، سنگاپور
موجودہ جنگ عام تحریک نہیں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کا اعلان جہاد ہے
فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم حماس کی غزہ میں اسرائیل کے خلاف فوجی مزاحمتی تحریک ایک عام تحریک نہیں ہے بلکہ مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کی جدوجہد بھی ہے جو اس وقت فلسطین کے دارالحکومت کے مشرقی علاقوں میں جاری ہے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد اسرائیل نے فلسطین کے ان علاقوں کے علاوہ مغربی کنارہ، غزہ پٹی اور صحرائے سینائی کے بیشتر حصوں پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد گزشتہ پچھتر سال سے جاری ہے۔ 1948 میں یوروپ میں موجود یہودیوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر فلسطین کی سرزمین کے ایک بڑے علاقے پر غیر قانونی قبضہ کرلیا تھا اور اسی سال، فلسطین کے ان مقبوضہ علاقوں پر اسرائیل کے نام سے ایک صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا جو آج تک قائم ہے۔ اس کے بعد 1967 میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان چھ روزہ مسلح تصادم اور فوجی حملے کے بعد بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے باوجود مشرقی یروشلم میں مقبوضہ مغربی کنارے پر 100 سے زیادہ عرب بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے بعد اسرائیل نے فلسطین اور پڑوسی عرب ممالک کے بیشتر علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے جہاں آج تقریباً سات لاکھ یہودی آباد ہیں۔
غزہ میں حماس کی طرف سے جاری فلسطینی مجاہدین کی مزاحمتی تحریک کا مقصد، اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے بے دخل کرنا ہی نہیں بلکہ مشرقی یروشلم میں مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد الاقصیٰ کو یہودیوں سے آزاد کرانا بھی ہے۔ مسلمانوں کے اس مقدس مقام پر جو فلسطین کے دارالحکومت یروشلم کے مشرقی حصے میں واقع ہے، جس پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، حماس کے مجاہدین ان علاقوں کو آزاد کروانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک امن معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود ملک شام کی گولان کی پہاڑیوں پر، مصر کے صحرائے سینا پر اور غزہ پٹی پر آج بھی اسرائیل کا قبضہ برقرار ہے۔
اگر فلسطین کا مسئلہ، دنیا میں کسی اور جگہ دیگر مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کا ہوتا تو مسلمانان عالم کو شاید اتنی فکر نہ ہوتی کیوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں فلسطین ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں پر اللہ تعالی نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک کئی نبیوں اور رسولوں کو بھیجا۔ بالفاظ دیگر فلسطین انبیائے کرام کی سرزمین ہے۔ یہاں قبلہ اول
مسجد الاقصیٰ کے علاوہ دیگر کئی اسلامی اہمیت کے حامل مقدس مقامات بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانان عالم کو اس سرزمین سے روحانی لگاؤہے۔ ان مقامات کی بے حرمتی اور انہیں ختم کرنے کی صیہونی کوششوں پر مسلمان سخت تشویش میں مبتلا ہیں، خصوصاً مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
1980 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن پی ایل او 2000 میں قائم کی گئی۔ انتفاضہ (بغاوت) تحریک کے مقابلے میں آج کی حماس اور اس کی فوجی تنظیم عزالدین القصام بریگیڈ، مسجد الاقصیٰ کو یہودیوں کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے جاری مسلح تحریک سب سے زیادہ مقبول ہے۔ چنانچہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی پر اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے خلاف آج حماس مسلح کارروائیوں میں بہت زیادہ سرگرم نظر آتی ہے۔
مسلمانان عالم کے لیے اسرائیلی حکومت اور صیہونی فوج کے خلاف حماس کی تمام مسلح کارروائیاں محض فلسطین کی آزادی تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کا اصلی مقصد مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے قبضے سے آزاد کروانا بھی ہے۔ بالفاظ دیگر، حماس کی یہ جد وجہد، القدس کی آزادی کے لیے جہاد کا اعلان ہے جو مسلمانوں پر ’فرض کفایہ‘ ہے یعنی ایک ایسا عمل جس میں اگر کسی علاقے کے چند افراد بھی شامل ہوجائیں تو اس علاقے کے دیگر افراد اس فرض سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔ ہاں! فلسطین سے باہر رہنے والے دیگر مسلمان، انسانی بنیادوں پر فلسطینی عوام تک خدمات انجام دینے والے اداروں کے ذریعے جو مجاہدین تک امداد پہنچا سکتے ہوں، اس میں ضرور حصہ لے سکتے ہے بلکہ حصہ لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ متمول خاندان اور مال دار طبقات کو ان مصیبت زدہ فلسطینی مجاہدین، بشمول خواتین، بچوں، بوڑھوں، معذوروں، بیماروں اور زخمیوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لیے خود آگے آنا چاہیے۔ صاحب اقتدار ممالک کے سربراہوں کو نہتے شہریوں پر جاری اس ظلم کے خلاف عالمی سطح پر موثر طور پر آواز اٹھانی چاہیے۔ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ علانیہ یگانگت کا اظہار کیا جانا چاہیے، نہتے عوام پر یہودی فوج کے غیر انسانی سلوک اور ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ دنیا کے مسلم حکم رانوں اور سربراہوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ سلگتا ہوا مسئلہ جلد سے جلد حل کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کو اس جنگ کی بنیادی وجوہات سے بھی آگاہ کیا جائے کہ یہ لڑائی صرف فلسطین پر ناجائز قبضے کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے قبلہ اول ’مسجد الاقصیٰ‘ کو یہودیوں کے ناجائز قبضے سے آزاد کروانا بھی ہے۔ اس جدوجہد میں تمام مسلمانوں اور خاص طور پر فلسطینی عوام، جہد کاروں، دانشوروں اور سپاہیوں کی کامیابی کے لیے اللہ تعالی سے دعاؤں کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے۔
مسجد الاقصیٰ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے روحانی اہمیت کی حامل ہے جسے سارے مسلمان بہت اہمیت دیتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے لفظی معنی دور کی مسجد کے ہوتےہیں۔ تاریخی اور مذہبی اہمیت کے اعتبار سے مسجد الاقصیٰ، مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے، مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے جس کی طرف رخ کرکے مسلمان نماز ادا کیا کرتے تھے۔ بعد میں اللہ تعالی نے مسجد الحرام مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم دیا چنانچہ اس کے بعد سے قیامت تک مسلمان مسجد الحرام کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہیں گے۔ سنہ 623/624 عیسوی میں پیغمبر اسلام کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے دوسرے سال اللہ کے حکم سے قبلہ کو کعبۃ اللہ کی طرف کر دیا گیا۔ مسجد الاقصیٰ کا تعلق نبی کریمؐ کے واقعہ معراج سے بھی ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ ’’پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو مسجد الحرام سے دور کی مسجد، مسجد الاقصیٰ لے گیا۔ اس مسجد کے اطراف ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اپنے نبی کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘ (بنی اسرائیل:1) معراج کے موقع پر رسول اللہ (ﷺ) کی امامت میں مسجد الاقصیٰ میں تمام انبیاء کی باجماعت نماز اداکی گئی۔ مسجد الاقصیٰ کے قدیم ہونے اور ان اس کے تقدس کی نشان دہی کے ضمن میں رسول اللہ (ﷺ) کی متعدد احادیث موجود ہیں۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا:
’’یارسول اللہ! اس زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’مسجد الحرام‘‘۔ میں نے پھر پوچھا ’’اس کے بعد کونسی؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’مسجد الاقصیٰ‘‘۔ میں نے پھر پوچھا ’’ان دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان کتنی مدت ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’چالیس سال‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا ’’تمام زمین تمہارے لیے مسجد ہے لہٰذا جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز ادا کرلو‘‘ اس کی تشریح اس طرح کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی گئی۔ قرآن کہتا ہے ’’لوگوں کے لیے مقرر کردہ پہلا گھر (سورہٗ آل عمران96) اور پھر اس کے بعد اس نے مسجد الاقصیٰ کی بنیاد رکھی‘‘۔ اللہ تعالی کے یہ دونوں گھر، ان کی اصلی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیے گئے، جن کی اصلی بنیادوں کی تصدیق اور نشان دہی اللہ کے نبی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت سلیمانؑ نے کی۔ رسول اللہ (ﷺ) اکثر اس بات کا ذکر کیا کرتے تھے کہ مسجد الاقصیٰ تین بڑی عبادت گاہوں میں سے ایک ہے‘‘۔
احضرت انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے والوں کو پچاس ہزار نمازوں کا اور مسجد الحرام میں نماز پڑھنے والوں کو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا۔ اگرچہ کہ مسجد الاقصیٰ، مقبوضہ یروشلم میں واقع ہے پھر بھی اس شہر کو مقدس شہر اور اس مسجد کو بیت المقدس یا القدس بھی کہا جاتا ہے۔ یروشلم میں ایک مقام ’’صخرہ‘‘ یا ایک مقدس چٹان یا چٹان نما گنبد بھی موجود ہے جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے نام سے مشہور تھی لیکن اب وہ چٹان یا گنبد باقی نہیں رہی۔ دیگر بے شمار تاریخی اور مذہبی روایات کی بنیاد پر مسلمانوں کی جانب سے یروشلم کی ہمیشہ تعظیم کی جاتی رہی ہے۔ خود اصحاب رسول بھی یروشلم سے جذباتی طور پر وابستہ تھے چنانچہ مسلمانوں نے عیسائیوں سے قبلہ اوّل کو آزاد کروانے کا عہد کیا تھا۔
638ء میں جنگ یرموک میں رومن فوج کو شکست دینے کے بعد مسلم فوج نے فلسطین اور اردن کی طرف پیش قدمی کی تھی اور یروشلم کا محاصرہ بھی کرلیا تھا۔ کافی جدوجہد کے بعد آخر کار یروشلم کو آزاد کرانے میں مسلمان کامیاب ہوئے تھے۔ یروشلم پر مسلمانوں کی فتح اور اس پر کنٹرول اخلاقی معیار کی معراج تھی۔ یروشلم کی فتح سے دراصل خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کی عظمت‘ سادگی، فہم و فراست اور عدل و انصاف کا اظہار ہوتا تھا۔ مغلوب فوج کا حکم رانوں اور عوام کے ساتھ حسن سلوک مثالی تھا۔ مسلمانوں نے جب اس مقدس شہر کا محاصرہ کیاتھا تو عیسائی حکم رانوں اور فوج نے فوراً امن کے قیام کی بنیاد پر مسلمانوں سے صلح پر رضا مندی کا اظہار کر دیا لیکن اس شرط پر یروشلم کو مسلمانوں کے حوالے کرنے سے اتفاق کیا کہ صلح کے اس معاہدے پر خلیفہ حضرت عمرؓ بذات خود دستخط کریں گے۔ حضرت عمرؓ اس وقت مدینہ منورہ میں تھے۔ جب خلیفہ کو اس معاہدے اور اس شرط کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے ان کی یہ شرط مان لی اور خلافت کی ساری ذمہ داریاں حضرت علیؓ کے حوالے کرکے ایک خادم کے ساتھ یروشلم کے لیے روانہ ہوگئے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے یروشلم تک کا 960 کیلومیٹر کا فاصلہ آپ نے اونٹ پر طے کیا۔
حضرت عمرؓ کی قیادت میں یروشلم پر مسلمانوں کے قبضے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک انگریز مورخ Steven Runciman نے جو 2000 میں 97 سال کی عمر میں فوت ہوا، اپنی کتاب A History of Crusades میں لکھتا ہے کہ ’خلیفہ عمر ایک سفید اونٹ پر سوار یروشلم میں داخل ہوئے اور سیدھے شاہی محل پہنچے۔ وہ انتہائی سادہ لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ عیسائی فوج کے ذمہ داروں نے خلیفہ کا استقبال کیا۔ عیسائی فوجیوں کا لباس کوئی قابل ذکر نہیں تھا لیکن ان کا ڈسپلن نہایت عمدہ اور معیاری تھا۔ خلیفہ کے بازو عیسائیوں کے سب سے بڑے قاضیPatriarch Sophronius Chief Magistrate بیٹھے تھے جنہوں نے بعد میں خلیفہ کے آگے فوج کی طرف سے ہتھیار ڈالے۔ یہاں سے فارغ ہو کر خلیفہ عمر سیدھے مسجد اقصیٰ میں اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں سے رسول اللہ معراج کے موقع پر آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔ اس کے بعد خلیفہ نے عیسائیوں کے مقدس مقامات دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ چیف مجسٹریٹ کے حکم پر خلیفہ کو Church of Sepulchre لے جایا گیا، انہیں وہاں پر موجود تمام چیزوں کا مشاہدہ کروایا گیا۔ خلیفہ ابھی گرجا گھر ہی میں تھے کہ نماز کا وقت آگیا۔ خلیفہ نے چیف مجسٹریٹ سے پوچھا کہ وہ نماز کس جگہ ادا کریں۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ وہ جہاں کھڑے ہیں اسی جگہ نماز ادا کرلیں۔ خلیفہ کو یہ جگہ مناسب نہیں لگی اور انہوں نے چرچ کے باہر برآمدے میں جا کر مسلمان سپاہیوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ یروشلم پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا لیکن عیسائیوں کی عبادت گاہ چرچ کو باقی رکھا۔ یہ تمام کارروائی عیسائی حکم راں کے ہتھیار ڈالنے کی شرائط کے عین مطابق انجام پائی۔ اللہ کے رسول نے حکم دیا تھا کہ عیسائیوں کو اپنی عبادت گاہوں کو برقرار رکھنے اور بغیر کسی رکاوٹ کے انہیں استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس سفر کی مزید تفصیلات گواہ ہیں کہ مدینہ منورہ سے یروشلم کے 960 کیلو میٹر طویل اور تھکا دینے والے سفر میں حضرت عمر کے ساتھ صرف ایک خادم اور سفر کا مختصر سامان تھا۔ جب وہ شہر یروشلم پہنچے تو وہ اونٹ کی نکیل پکڑے پیدل چل رہے تھے اور اونٹ پر ان کا خادم سوار تھا۔ سارا شہر حضرت عمر کو دیکھنے کے لیے امڈ پڑا تھا۔ چوں کہ ان کے ساتھ ایک ہی اونٹ تھا اور ایک وقت میں اس پر دو سوار نہیں بیٹھ سکتے تھے اس لیے مدینہ منورہ سے یروشلم تک کے سفر کے لیے حضرت عمرؓ نے طے کیا تھا کہ کچھ راستہ وہ اونٹ پر بیٹھیں گے اور خادم پیدل چلے گا۔ پھر خادم اونٹ پر بیٹھے گا اور خلیفہ پیدل چلیں گے۔ اس طرح باری باری وہ اونٹ پر سفر کرتے ہوئے وہ یروشلم میں داخل ہوئے تو پیدل چلنے کی باری خلیفہ کی تھی اور خادم اونٹ پر بیٹھا تھا۔ یہ وہ انسانی وقار، سلوک، رواداری، مساوات اور اخلاق کی اعلیٰ مثال تھی جسے یروشلم کے عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مغلوب قوم کے ساتھ مسلمانوں کے حسنِ سلوک کی ایسی مثال کوئی اور پیش نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ شکست خوردہ انسانوں کو مسلمانوں نے ان کے اپنے مذہب اور ضمیر کی اساس پر اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی پوری آزادی عطا کی۔ حضرت عمرؓ نے صلح نامے کا ایک معاہدہ شہر کے عیسائیوں کے حوالے کیا جس میں ان کی جان و مال کے تحفظ اور ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اسی معاہدے کی ایک شرط کے مطابق خلیفہ حضرت عمرؓ نے یروشلم سے یہودیوں کو نکال باہر کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے مسجد اقصی کی تعمیر جدید کا کام مکمل کیا۔ اس کے بعد یروشلم تقریباً 460 سال تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا لیکن 1097ء میں دوبارہ صلیبیوں کے قبضے میں چلا گیا، اس کے 90 سال بعد یعنی1187ء میں مصر اور شام کے سربراہ صلاح الدین یوسف ابن ایّوبی کی قیادت میں یروشلم دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا اور 56 سال پہلے تک مسلمانوں ہی کے قبضے میں تھا مگر عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد یروشلم مکمل طور پر یہودیوں کے قبضے میں جاچکا ہے۔
کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ مقدس شہر یروشلم میں نہ صرف اسلام کی تیسری مقدس مسجد موجود ہے بلکہ کئی دیگر اسلامی تاریخی یادگار مقامات بھی ہیں۔ آج صلاح الدین ایّوبی کے اسلامی جذبات اور حضرت عمر کی اسلامی روایات، عالم اسلام کو آواز دے رہی ہیں کہ ایک اور مقدس جد و جہد کے لیے اپنے اندر ہمت پیدا کرو، آگے بڑھو اور فلسطین کو یروشلم کے ساتھ آزاد کروانے کے لیے میدان میں اتر جاؤ، کیوں کہ آج میدان تیار ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کی جدوجہد کو کامیابی عطا کرے تاکہ مسجد اقصیٰ صیہونیوں کے قبضے سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جائے۔
ترجمہ : سلیم الہندی، حیدرآباد
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023