مقام ابراہیم :ابوالانبیا ء کے نقوش پا

اللہ نے اپنے خلیل کےقدموں کے نشانات تک محترم کر دیے

حمیراعلیم

اللہ تعالیٰ نے جب جب انسان کی آزمائش کی اسے کسی نہ کسی عہدے، بلند درجے اور انعام سے نوازا ہے۔ آدم علیہ السلام کو آزمایا تو انہیں بابائے انسانیت بنا دیا۔ موسی علیہ السلام کو آزمایا تو کلیم اللہ کا لقب دیا۔ ابراہیم علیہ السلام کو آزمایا تو خلیل اللہ بنا دیا اور ان کی فرمانبرداری اتنی پسند آئی کہ ان کے قدموں کے نشانات کو بھی مصلی بنا دیا اور قیامت تک کے لیے ایک محبوب جگہ بنا دیا۔ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش ہر رشتے سے کی۔ والدین نے چھوڑ دیا، بیوی اور بڑھاپے کی اولاد کو صحرا بیابان میں چھوڑنے کا حکم ہوا تو سوال نہیں کیا چھوڑ آئے۔ بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تو چھری چلا دی۔ پھر کہا گیا کہ کعبہ کی تعمیر کریں تو آپ نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر کی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر ڈھوتے تھے اور ابراہیم علیہ السلام انہیں اوپر تلے رکھ کر دیوار بناتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کو ان کی اطاعت کرنے کی ادا اتنی بھائی کہ انہیں دنیا کے تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے محترم بنا دیا۔ قرآن پاک میں سورہ البقرہ کی آیت 127 میں فرمایا ۔
’’ جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے۔‘‘
اور آیت 125 میں فرمایا۔
’’ اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے باربار لوٹ کر آنے کی اور امن کی جگہ بنایا اور تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناو۔‘‘
جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قد سے اونچی دیوار تعمیر کی تو ایک پتھر پر کھڑے ہوئے اور اس پتھر پر آپ کے قدموں کے نشان ثبت ہو گئے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔
’’ میں نے مقام ابراہیم دیکھا اس میں ابراہیم علیہ السلام کی انگلیوں اور ایڑیوں کے نشانات موجود تھے۔‘‘
ابن جریر نے قتادہ سے روایت کی ہے۔
’’ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنانے سے مراد اس کے قریب نماز پڑھنا ہے نہ کہ اسے چھوئیں یا مسح کریں۔ اس امت نے بھی پہلی امتوں والی تکلیف شروع کر دی۔ لوگ اس پتھر پر ہاتھ پھیرنے لگے جس سے یہ نشانات مٹ گئے۔‘‘
شیخ عثیمین کا کہنا ہے۔
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقام ابراہیم پرسے نشانات مٹ چکے ہیں ۔‘‘
یہ مقام کعبہ سے تقریباً سوا تیرہ میٹر مشرق کی جانب ہے۔1967 سے پہلے یہاں ایک کمرہ تھا مگر اب یہ ایک سونے کی جالی میں بند ہے۔امام کعبہ اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دو رکعت نفل پڑھنے کا حکم ہے۔ اس پتھر پر پیتل کا خول چڑھایا گیا پے۔
ترمذی، احمد، حاکم اور ابن حبان کی کتب حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ۔
’’ حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے دو یاقوت ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی مٹا دی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ مشرق و مغرب کو روشن کر دیتے۔‘‘
اگرچہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس کی تعظیم کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اسے بت بننے نہیں دیا اور کعبہ ، حجر اسود اور مقام ابراہیم کو امت محمدیہ کیلئے شرک کی آلودگی سے پاک رکھا۔
مختلف مسلم خلفاء اور سلاطین نے بھی اسکی تزین و آرائش کیلئے کام کیا۔ کسی نے اسے سیسے سے بنی پلیٹ کی کرسی پہ چسپاں کیا۔ خلیفہ منتصر باللہ نے 241 ھ میں چاندی کی پلیٹیں بنوائیں ۔اور ایک کمرہ بنوایا۔900 میں از سر نو تعمیر کی گئی۔ عثمانی سلطان عبدالعزیز نے گنبد کو ڈیڑھ میٹر اونچا کروایا ۔امیر سعود بن عبدالعزیز نے گنبد ختم کروا دیا تاکہ عوام ان نشانات کو دیکھ سکیں۔ جب حج عمرہ کے زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ کمرہ رکاوٹ بننے لگا تو شاہ فیصل نے اسے شیشے کے کیس میں رکھوا دیا۔ اس طرح جگہ بھی کشادہ ہو گئی اور عوام الناس کی غلط فہمی بھی ختم ہو گئی کہ اس جگہ ابراہیم علیہ السلام کی قبر ہے۔ اس کمرے کا رقبہ اٹھارہ میٹر تھا جبکہ یہ پتھر صرف ڈیڑھ میٹر ہے۔
18رجب 1387ھ کو اسے اعلی درجے کے کرسٹل کے شوکیس میں رکھا گیا جس سے حرم میں 5 مربع میٹر رقبہ خالی ہو گیا۔ کرسٹل کا قطر 80 سینٹی میٹر ، موٹائی 20 سینٹی میٹر اور اونچائی تقریبا ایک میٹر ہے۔یہ 75 سینٹی میٹر اونچے سنگ مرمر کے چبوترے پر رکھا ہوا ہے۔اس پتھر کا مجموعی وزن 1700 کلو گرام ہے اس میں 600 کلو گرام چبوترے کا وزن ہے۔
قیامت تک کے لیے اللہ کے خلیل کےقدموں کے نشانات بھی محترم کر دیے گئے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022