مولانا مودودیؒ کا تصور جہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ
فکرمودودی کی تفہیم اور غلط فہمیوں کے ازالے میں معاون ایک اہم کتاب
مصنّف : مراد علی
ناشر : شیبانی فاؤنڈیشن، اسلام آباد
صفحات: 276
مبصر: پیر زادہ عاشق حسین
مولانا مودودی کے حوالے سے مشرق و مغرب میں جن موضوعات کو زیادہ تر مشق سخن بنایا گیا ان میں ’’ جہاد‘‘ اور ’’ سیاسی اسلام‘‘ سر فہرست ہیں۔ مغرب سے تعلق رکھنے والے محققین نے کئی وجوہات کی بناء پر مولانا مودودی کو مکمل طور پر نہیں پڑھا کیونکہ آپ کی فکر سے متعلق چند بنیادی چیزیں ایسی ہیں کہ جن تک ان کی رسائی ممکن نہ تھی لہذا انہوں نے انتہائی علمی بد دیانتی سے کام لے کر اسلامی انتہا پسندی(Islamic Extremism)، اسلامی بنیاد پرستی(Islamic Fundamentalism) اور عسکریت پسندی کو مولانا مودودی اور ان کی فکر کے ساتھ نتھی کیا اور کہا گیا کہ مولانا مودودی ہی موجودہ زمانے میں دنیا سے کفر مٹانے کے اصل نظریہ ساز ہیں۔ عالمی سطح پر عسکریت پسندوں کو بنیادی غذا انہی کی فکر سے ملی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا کی جس کتاب کو ہدف تنقید بنایا گیا وہ ’’ الجہاد فی الاسلام‘‘ ہے۔ حالانکہ کسی بھی فکر پر تنقید کرنے یا اس پر تحقیق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس فکر کے ایک ایک جزو پر نظر ہو اور مجموعی موقف اختیار کرنے یا کسی کی طرف کوئی بات منسوب کرنے کے لیے ہر پہلو کو پیش نظر رکھنا لازمی ہے۔ مشرق کی طرف خاص طور پر اردو دان طبقے کی طرف نظر دوڑائیں تو ادھر بھی مولانا مودودی کے تصور جہاد پر تنقید کرنے والے اہل علم نے محدود لٹریچر کی بنیاد پر رائے قائم کرکے مولانا کی طرف کہیں تو ’’شوکت کفر‘‘ والی بات منسوب کی اور کہیں ان کے موقف کو ’’پریشان خیالی‘‘ سے تعبیر کیا۔
اس پورے پس منظر میں اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ مولانا مودودی کے تصور جہاد پر کوئی ایسا شخص قلم اٹھائے جس کی نہ صرف مولانا کے لٹریچر پر گہری اور دقیق نظر ہو بلکہ ساتھ ہی اس کے اندر یہ ملکہ/مہارت بھی ہو کہ وہ اس تصور جہاد پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ بھی لے سکتا ہو اور پھر اس کا موازنہ فقہی تراث سے بھی کرسکتا ہو۔ زیر نظر کتاب فاضل مصنف نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کماحقہ کوشش کی ہے اور وہ قرض جو کہ اہل علم کے ذمے تھا اسے بھر پور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاضل مصنف کی اس کتاب میں اسی موضوع سے متعلق مباحث کو تحقیق کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے مولانا کے نظام فکر کی بنیادی خصوصیات واضح کی ہیں، ان کے تصور جہاد کی تفصیلات کو بھی بیان کیا ہے، اس کی فقہی بنیادیں بھی واضح کی ہیں اور اس پر مبنی نظام فکر اور تصور جہاد پر کیے جانے والے اعتراضات کا محاکمہ بھی کیا ہے۔
فاضل مصنف اور نوجوان محقق برادرم مراد علی کا تعلق اپر دیر خیبر پختونخوا سے ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا ہے اور اب یہیں سے سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس کر رہے ہیں۔ آپ اقبال انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے تحقیقی منصوبوں کا حصہ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ملک کے مؤقر جرائد میں آپ کے کئی تحقیقی مقالات بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ستمبر2020 ء میں انہوں نے ’’شیبانی فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے ایک تحقیقی ادارے کی داغ بیل ڈالی اور دو سال کے مختصر عرصے میں انتہائی اعلی معیار پر مبنی چار تحقیقی کتب شائع کیں۔ اس کے علاؤہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام انہوں نے کئی اہم علمی موضوعات پر سیمینارز اور ویبینارز کا انعقاد کیا۔
برادرم مراد علی سے میرا تعلق چار ساڑھے چار سال پر محیط ہے۔ 2018 میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اکٹھے رہے۔ اکثر اوقات علمی موضوعات اور سلگتے مسائل پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ان کے علمی اور تحقیقی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا رہا ہوں اور سب سے بڑھ کر زیر بحث کتاب کی پروف خوانی کی ذمے داری راقم کے ذمے تھی جو کہ میرے لیے انتہائی فخر کی بات ہے۔ پروف ریڈنگ کے دوران میں نے کتاب ہذا کے لفظ لفظ کو پڑھا ہے اور کئی مقامات پر تو باقاعدہ ڈیرے ڈالے ہیں لہذا میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ فاضل مصنف نے اپنی اس تحقیق کے دوران انتہائی علمی دیانت داری سے کام لیا ہے۔ یہ کتاب چونکہ فاضل مصنف کی کم و بیش پانچ سالہ مطالعے اور غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اسے منظر عام پر لانے کے لیے فاضل مصنف نے جس محنت شاقہ اور لگن سے کام لیا ہے وہ انتہائی قابل رشک ہے کیونکہ میں خود اس کا گواہ ہوں۔ لہذا مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں ہے کہ بر صغیر میں فکر مودودی پر کام کرنے والے محققین میں فاضل مصنف کا نام صف اول میں شامل کیے جانے کے مستحق ہے۔
کتاب مجموعی طور پر معلومات سے بھر پور ہے۔ یوں تو اس کا ہر ایک باب ایک سے بڑھ کر ایک ہے لیکن میرے نزدیک سب سے اہم اس کے دو ابواب ہیں: باب دوم:’’ مولانا مودودی کی فکر کی تفہیم کے بنیادی اصول‘‘ اور سب سے اہم ترین باب نہم: ’’مولانا مودودی اور شدت پسندی‘‘ ہے۔
زیر نظر کتاب (9) نو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا عنوان ’’ الجہاد فی الاسلام کا تاریخی پس منظر‘‘ہے جس میں فاضل مصنف نے مولانا کی تصنیف الجہاد فی الاسلام کا تاریخی پس منظر بیان کیا ہے کہ برطانوی سامراج سے مرعوب مسلمان اہل علم جب معذرت خواہانہ لہجے میں اسلام کا دفاع کر رہے تھے تو کس طرح مولانا مودودی نے اپنے پیش روؤں کی طرح معذرت خواہانہ لہجہ اپنانے کے بجائے پورے اعتماد اور ایقان کے ساتھ اسلام کا تصور جہاد دنیا کے سامنے پیش کیا۔
کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ’’ مولانا مودودی کی فکر کی تفہیم کے بنیادی اصول‘‘ ہے۔ یہ باب نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے مولانا کی فکر جہاد کے مآخذ سے بحث کی ہے اور یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مولانا کی فکر جہاد کو سمجھنے کے صرف الجہاد فی الاسلام کا مطالعہ کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے مولانا کی دیگر تصانیف جن میں خاص طور پر تفہیم القرآن ، رسائل و مسائل، اسلامی ریاست ، تفہیمات ، سود کا ضمیمہ نمبر(3)، اور تصریحات وغیرہ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے اندر جگہ جگہ مولانا نے اس موضوع کو زیر بحث لایا ہے اور مختلف وضاحتیں دی ہیں۔ یہ بات اس لیے زور دیکر کہی گئی ہے کیونکہ مولانا کی فکر جہاد پر مشرق و مغرب میں جو بھی تنقید ہوئی ہے اس کے پیچھے بنیادی وجہ یہی ہے کہ مولانا کی فکر جہاد کو صرف الجہاد فی الاسلام سے لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتاب کے تیسرے باب کا عنوان ’’ اخلاقی و کلامی اور قانونی و فقہی فرق‘‘ ہے۔ اس باب کے اندر فاضل مصنف نے مولانا مودودی تصور جہاد کے حوالے سے جس انتہائی اہم پہلو کو سامنے لایا ہے وہ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جہاد کے حوالے سے دو(٢) پہلوؤں سے بحث کی ہے۔ ایک اخلاقی اور کلامی ہے اور دوسرا قانونی اور فقہی۔ اس کی وضاحت میں فاضل مصنف فرماتے ہیں کہ مولانا نے اپنی تصانیف الجہاد فی الاسلام ، خطبات ، دینیات وغیرہ میں جہاد کے اخلاقی اور کلامی پہلو کو اجاگر کیا ہے جبکہ تفہیم القرآن میں جابجا، اور بالخصوص سود کے ضمیمہ نمبر (٣) میں جہاد کے قانونی اور فقہی پہلو پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس طرح باب سوم میں فاضل مصنف نے زیادہ تر بحث جہاد کے اخلاقی اور کلامی پہلو پر کی ہے۔
جہاں تک جہاد کے قانونی اور فقہی پہلو کا تعلق ہے تو فاضل مصنف نے باب چہارم سے لے کر باب ہشتم تک مختلف عنوانات کے تحت اسی پہلو کو اجاگر کیا ہے اور تفصیل سے اس پر کلام کیا ہے اور تقریبا ایک سو کے قریب صفحات اس پر خرچ کیے ہیں۔
کتاب کے سب سے آخری اور اہم ترین باب کا عنوان ’’ مولانا مودودی اور شدت پسندی‘‘ ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے انتہا پسندی کو مولانا مودودی کی فکر کے ساتھ جوڑنے کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اور مختلف عنوانات کے تحت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ کیوں یہ نسبت غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف مولانا مودودی کی دستوری قانونی اور تحریکی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہیں اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ مولانا کی قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کی پوری کی پوری جدوجہد قانونی اور دستوری تقاضوں کے عین مطابق تھی۔ اور باب کے آخر پر نتائج بحث کو ان الفاظ میں سمیٹتے ہیں کہ:
’’ ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی اپنے مطلوبہ نظریہ کے نفاذ کے لیے خفیہ تحریک، فوجی انقلاب، مسلح جدوجہد، قتل و غارت اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ مولانا مودودی کو کئی بار جیل میں ڈالا گیا، پھانسی کی سزا سنائی گئی، آپ پر ہر دور میں ارباب اقتدار نے گھیرا تنگ کیا ، آپ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں، آپ کی جماعت کے مجلے اور اخبارات پر پابندیاں لگائی گئیں لیکن آپ نے کبھی اپنے اصول سے ذرا بھی انحراف نہیں کیا۔ دور ایوب مولانا مودودی کی زندگی کا دور ابتلاء(Ordeal)ہے۔ آپ پر ہر جانب سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی حملے کیے گئے، اجتماعات پر پابندی لگائی گئی، آپ کے کارکنوں کو شہید کردیا گیا لیکن آپ نے پھر بھی تشدد کا راستہ اختیار نہ کرنے اور قانون کو ہاتھ میں نہ لینے کی نصیحتیں بار بار دہرائیں‘‘۔
میں سمجھتا ہوں اس آخری باب کا مطالعہ نہ صرف مولانا مودودی کے ناقدین کے لیے ضروری ہے بلکہ مولانا کی فکر سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی اس باب کا بغور مطالعہ نہایت مفید اور ضروری ہے۔ جس کے نتیجے میں امید کی جاسکتی ہے کہ مولانا کی فکر سے متعلق بہت ساری غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور بہت سارے مفروضات غلط ثابت ہو جائیں گے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو برادرم مراد علی کا کام نہایت شاندار اور بر وقت ہے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ موضوع سے متعلق سارا مواد اس میں یکجا ہوگیا ہے جو کہ محققین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ نیز فاضل مصنف نے نہ صرف یہ کہ مولانا کی چھوٹی بڑی ساری تصانیف کو کھنگالا ہے بلکہ ان کی نشری تقاریر، ان کے خطوط حتی کہ ان کی تنقید میں لکھی گئی کم و بیش ہر قابل ذکر تحریر سے خوب استفادہ کیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ کوئی بھی بات بغیر دلیل اور حوالے کے نقل نہیں کی ہے۔فاضل مصنف برادرم مراد علی علمی اور تحقیقی حلقوں کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر ایک دینی اور فکری ضرورت کی تکمیل کی ہے۔ امید ہے کہ اس کاوش کو قدر و مقبولیت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اس سے خاطر خواہ استفادہ کیا جائے گا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی یہ کوشش اپنی بارگاہ میں قبول کرے، اسے ان کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابیوں کا ذریعہ بنائے اور انہیں مزید ایسی علمی اور تحقیقی کوششیں جاری و ساری رکھنے کی توفیق دیتا رہے۔
(تبصرہ نگار بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے شریعہ اینڈ لاء گریجویٹ ہیں)
[email protected]
***
***
کتاب کے سب سے آخری اور اہم ترین باب کا عنوان ’’ مولانا مودودی اور شدت پسندی‘‘ ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے انتہا پسندی کو مولانا مودودی کی فکر کے ساتھ جوڑنے کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اور مختلف عنوانات کے تحت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ کیوں یہ نسبت غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف مولانا مودودی کی دستوری قانونی اور تحریکی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہیں اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ مولانا کی قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کی پوری کی پوری جدوجہد قانونی اور دستوری تقاضوں کے عین مطابق تھی۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022