مولانا سید جلال الدین عمریؒ کی وفات علمی دنیا کا خسارہ

مولانا کی تصانیف سے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات نے فائدہ اٹھایا

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

سابق امیر جماعت اسلامی ہندمولانا سید جلال الدین عمری 26؍اگست 2022ء کو وفات پاگئے۔ان کی عمر 87 برس تھی۔پوری زندگی تحریک کے لیے وقف کردینے کے ساتھ موصوف کی علمی خدمات نے انہیں عالمی شہرت عطا کی تھی۔انہوں نے اسلام کی تفہیم وتشریح کے لیے گراںقدر لٹریچر فراہم کیا۔ اسلامی عقائد ، قرآنیات ، سیرت، انسانی حقوق، اسلامی معاشرت اورعصری مسائل پرآپ کی تصانیف سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان میں سے متعدد کا ترجمہ عربی، ترکی اور انگریزی کے علاوہ ملک کی مختلف زبانوں: ہندی ، تمل ، بنگالی،ملیالم،مراٹھی،تلگو، کنّٹر،بنگلہ اور گجراتی وغیرہ میںہوگیا تھا،چنانچہ بہت بڑے پیمانے پر ان سے استفادہ کیا گیا ۔
مولانا عمری کی ولادت 1935ء میں ریاست تامل ناڈو کے ضلع شمالی آرکاٹ کے ایک قصبے’پتّگرام‘ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میںحاصل کرنے کے بعد عربی تعلیم کے لیے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1954ء میں فضیلت کی۔ اسی دوران مدراس یونی ورسٹی کے امتحانات بھی دیے اور فارسی زبان وادب کی ڈگری ’منشی فاضل‘ حاصل کی۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی اے (اونلی انگلش) پرائیوٹ سے پاس کیا۔عمر آباد سے فراغت کے بعد ان کے استاد مولانا سید امین عمری نے جو، جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے ، انہیں اُس وقت کے مرکز ِ جماعت رام پور پہنچا دیا۔پھر مولانا وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ وہ 1956ء میں جماعت کے شعبۂ تصنیف سے وابستہ ہوگئے۔ یہ شعبہ 1970ء میں علی گڑھ منتقل کردیاگیا۔ ایک دہائی کے بعد اسے 1981ء میں ایک آزاد سوسائٹی ’ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے تحت کردیا گیا۔ مولانا شروع سے 2001 ء تک اس کے سکریٹری اور اس کے بعداپنی وفات تک اس کے صدررہے۔ ادارہ کے طرف سے 1982ء سے سہ ماہی مجلہ’تحقیقات اسلامی‘ کا اجرا ہوا، جو اب تک پابندی سے نکل رہا ہے، علمی حلقوں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی تحقیقات کواہمیت دی جاتی ہے۔مولانا اس کے بانی مدیر تھے۔
ملک کی متنوع دینی، ملی، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہی ہے۔وہ 1991ء سے ۲۰۰۷ء تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ، اس کے بعد مارچ ۲۰۱۹ء تک امیر رہے ہیں ۔اس کے بعد انہیں جماعت کی شریعہ کونسل کا چیرمین بنایا گیا تھا۔وہ طویل عرصے تک جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ اور اعلیٰ اختیاراتی باڈی مجلس نمائندگان کے رکن رہے ہیں۔اس کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کے شخصی قوانین کی حفاظت ومدافعت کے لیے قائم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر،کل ہند مسلم مجلس مشاورت کی سپریم کونسل کے چیرمین، شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعۃ الفلاح، بلریا گنج، اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ، سراج العلوم نسواں کالج، علی گڑھ مینیجنگ ڈائرکٹر رہے ہیں۔آپ نے جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی کی پانچ برس(۱۹۸۶تا ۱۹۹۰ء) تک ادارت کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔بیرون ملک کے مختلف دینی اداروں اور تنظیموں کی دعوت پر مولانا سعودی عرب، کویت، قطر،متحدہ عرب امارات، ایران، پاکستان اور نیپال وغیرہ کے سفر کرچکے ہیں۔
مولانا اپنی طالب علمی کے دور سے ہی مضمون نگاری اور تحریر کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ ’الانصاف ‘ الہ آباد اور ماہ نامہ ’تجلی‘ دیوبند میں شائع شدہ بعض مضامین اس دور کی یاد گار ہیں۔ عمر آباد سے فراغت کے بعد چند ماہ اپنے استاد مولانا ابوالبیان حماد عمری کے ساتھ مل کر بنگلورسے ایک ہفت روزہ اخبار ’پیغام‘ کے نام سے نکالا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ تصنیف وتالیف (موجودہ ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی) سے وابستہ ہوکر علمی وتصنیفی خدمات انجام دیں۔ مولانا نے اب تک مختلف موضوعات پر جو کچھ لکھا ہے وہ اسلامیات کے ذخیرہ میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ان میں سے بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیںاور کچھ منتظر طبع ہیں۔مولانا اپنی حیات کے آخری زمانے میں اپنے مضامین کو مرتب کرکے کتابی شکل دے رہے تھے اور چند کتابیںزیر ترتیب تھیں کہ وقت ِ موعود آپہنچا۔ اب تک شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد چار درجن کے قریب ہے۔
مولانا عمری نے یوں تو علوم اسلامیہ کے بہت سے گوشوں میں کام کیا ہے، لیکن خاص طور سے قرآنیات، سیرتِ نبوی ، دعوت، اسلامی معاشرت ، بنیادی حقوق اور عصری مسائل اہم ہیں۔مولانا کی تمام تحریروں میں قرآن اور حدیث کو اہم ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔انہوں نے قرآنی موضوعات پر بہت سے مقالات سپرد قلم فرمائے تھے۔ان کا مجموعہ ’تجلیات ِ قرآن‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔سیرتِ نبوی پر آپ کی تحریروں کو ’اوراق ِ سیرت‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔آپ کی کتاب’ خدا اور رسول کاتصور اسلامی تعلیمات میں‘ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت سے بحث کرتی ہے۔ اس میں خدا اور مذہب کے بارے میں دور جدید کے بعض نظریات کا تجزیہ کیا گیا ہے، پھر خدا کے وجود اور رسول کی ضرورت کے بارے میں بڑے عقلی اور سائنٹفک انداز میں بحث کی گئی ہے۔ اس موضوع پر ان کی ایک دوسری اہم کتاب ’انسان اور اس کے مسائل‘ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جن مسائل سے دوچار رہتا ہے ان میں سے عقائد کے متعلق مسائل بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسلام ان تمام مسائل کا کام یاب حل پیش کرتا ہے۔ رسالت کی حقیقت، امکان، ضرورت اور دیگر موضوعات پر مولانا کے متعدد مقالات بھی شائع ہوئے ہیں۔ عقائد کے موضوع پر ان تحریروں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں بڑاسائنٹفک اور عقل کو اپیل کرنے والا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ایک اور موضوع جس پر مولانا نے علمی انداز میں کام کیا ہے وہ اسلامی دعوت کی ضرورت ، اہمیت اور طریقۂ کار سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کتاب ’ معرو ف ومنکر‘ کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے فریضۂ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت واضح کی ہے۔ اسلام کی دعوت اور اس کی اشاعت کی کوشش کتنی ضروری ہے؟ اس کے لیے کیا وسائل وذرائع مطلوب ہیں؟ اور اس کے لیے کن حدود و آداب کی رعایت کرنا چاہیے؟ ان تمام پہلوئوں پر بڑی جامع اور مفصل بحث کی ہے۔ اس موضوع پر ان کی ایک دوسری اہم کتاب’اسلام کی دعوت‘ ہے ۔اس کتاب میں دعوت اسلامی کے اصول وآداب ، طریقۂ کار، میدان دعوت میں کام کرنے والوں کے ضروری اوصاف اور دعوت کے لیے تنظیم کی ضرورت پر عالمانہ بحث کی گئی ہے۔ان کتابوں کے علاوہ دعوتی افکار و تصورات پر ان کے دو درجن سے زائد علمی وتحقیقی مقالات مختلف مجلات میں شائع ہوئے ہیں۔مولانا کا سب سے مہتمم بالشان کام اسلامی معاشرت پر ہے۔ اس موضوع پر ان کی نو(۹) کتابیں شائع ہوئی ہیں: (۱)عورت اسلامی معاشرہ میں (۲)مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ(۳)عورت اور اسلام (۴) اسلام کا عائلی نظام (۵)مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں (۶) بچے اور اسلام (۷)قرآن کا نظامِ خاندان (۸)خاندان کی اصلاح اور اولاد کی تربیت (۹)مسلم پرسنل لا کے بعض مسائل۔ ان کتابوں میں اسلام میں عورت کی حیثیت ، اس کے حقوق اور دائرہ کار سے بحث کی گئی ہے۔ دوسری تہذیبوں میں اسے حاصل حقوق سے موازنہ کیا گیا ہے اور مخالفین اسلام کی جانب سے اس سلسلے میں کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔مولانا کے کام کا ایک پہلو عصری مسائل میں اسلامی نقطۂ نظر کی توضیح و تشریح ہے۔ مثلاً غیر مسلموں سے تعلقات کی کیا نوعیت ہونی چاہیے؟ ہندوستان کے تناظر میں دعوتی مقاصد سے یہ وقت کا ایک اہم موضوع ہے۔ مولانا کی کتاب ’غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘ میں اس پر بہت تفصیل سے اظہار ِ خیال کیا گیا ہے۔ آج کل رفاہی کاموں کو بڑی اہمیت دی جانے لگی ہے۔ مولانا نے اپنی کتاب’اسلام میں خدمت خلق کا تصور‘ میں اس پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی ہے۔ موجودہ دور میں کم زور طبقات کے لیے مساوی حقوق کی پرزور تحریکیں چلائی جارہی ہیں۔ ان کے مسائل اسلام نے کس طرح حل کیے ہیں؟ اس موضوع پر مولانا کی کتاب ’کم زور اور مظلوم اسلام کے سایے میں ‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ دورِ جدید میں صحت اور مرض کے مسائل نے عالمی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ لوگوں میں پریشانیوں اور تکالیف سے نجات پانے کے مقصد سے خود کشی کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے اور قتل بہ جذبۂ رحم کی بھی وکالت کی جانے لگی ہے۔ مولانا نے اپنی کتابوں’صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات‘ اور ’اسلام اور مشکلات حیات‘ میں ان مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی ہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئے کرپشن ، لاقانونیت، تشدد اور فرقہ واریت وغیرہ پر مولانا نے اپنی کتابوں’ یہ ملک کدھر جارہا ہے؟‘ اور ’ملک و ملت کے نازک مسائل اور ہماری ذمہ داریاں‘ میں تشویش کا اظہا رکیا ہے۔علوم اسلامیہ کے مختلف پہلوئوں پر مولانا سید جلال الدین عمری کے ہمہ جہت کام میں متعدد خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ان خصوصیات کی بنا پر یہ کام انتہائی قدرو قیمت کاحامل ہے۔ یہ خصوصیات درج ذیل ہیں:
۱۔قوتِ استدلال:مولانا کی تحریریں محض خیال آرائی اور جذباتیت پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں استدلال کی زبردست قوت پائی جاتی ہے۔ ایک عالم دین ہونے کے ناطے ان کی نظر قرآن وحدیث کے ساتھ تفاسیر، شروح حدیث اورفقہی مصادر پر بھی رہتی ہے۔ وہ کوئی بات کہتے ہیں تو اس کی تائید میں قدیم مفسرین ، محدثین اور فقہاء کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ اس طرح قاری کے سامنے یہ بات بالکل واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ مصنف اپنی بات بلادلیل نہیں کہہ رہا ہے، بلکہ اسے قرآن وحدیث کی تائید حاصل ہے اور سلف صالحین کی ایک بڑی جماعت اس کی ہم نوا ہے۔
۲۔عقلی اپیل:مولانا اپنی بحثوں میں صرف قدماء ہی کے اقوال وآثار سے استدلال نہیں کرتے، بلکہ قاری کی نفسیات اور اس کی عقل کو بھی اپیل کرتے ہیں۔ عقائد ومعاشرت کے مختلف پہلوئوں پر بحث کرتے ہوئے وہ عقلی دلائل کے ذریعے بھی اپنی باتوںکو مدلل کرتے ہیں۔ یہ تحریریں قاری کے دل میں گھر کر جاتی ہیں اور اس کی اپنی آواز معلوم ہونے لگتی ہیں۔
۳۔فقہی توسع:مولانا کے فکر میں فقہی توسع پایا جاتا ہے۔ وہ فقہی مباحث میں محض کسی مخصوص مسلک کی ترجمانی کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ عموما فقہ کے چاروں مکاتب کی آراء ذکر کرتے اور ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر کبھی کسی رائے کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس رائے کو ترجیح دیتے ہیں جو عصری ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
۴۔عصری مسائل سے تعرض:مولانا کی تحریریں تحقیقِ محض کا نمونہ نہیں ہیں اور وہ قدیم تاریخی نوعیت کے موضوعات کا احاطہ نہیں کرتیں ۔ بلکہ ان میں وقت کے زندہ مسائل سے تعرض کیا گیا ہے۔ ان مسائل کے مختلف حل پیش کیے جاتے ہیں۔ مولانا کی تحریروں میں ان مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہے۔ ان کا اسلامی حل پیش کیا گیا ہے۔ عصر حاضر میں یہ ایک اہم علمی خدمت ہے۔
۵۔ادب کی چاشنی:عموماً علمائے دین کی تحریروں میں ادب کی چاشنی مفقود ہوتی ہے۔ ان کے یہاں ادب اوردینیات کا اجتماع مشکل ہی سے ہوپاتا ہے۔ مولانا کی تحریریں اس اعتبار سے بھی ممتاز ہیں کہ وہ دقیق ، علمی اور خشک موضوعات پر مشتمل ہونے کے باوجود اپنے اندر ادبی حسن رکھتی ہیں اور ان کے مطالعہ سے اکتاہٹ کے بجائے انبساط کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔
۶۔اعلیٰ تحقیقی معیار:مولانا کی تحریروں میں موضوعات کا تنّوع پایا جاتا ہے۔ عقائد کا موضوع ہویا دعوت کا، اسلامی معاشرت کا کوئی پہلو زیربحث ہو یاکسی عصری مسئلہ کا اسلامی حل پیش کیا جارہا ہو۔ مولانا ہر موضوع پر پوری قدرت، گہرائی اور وسعتِ معلومات کے ساتھ قلم اٹھاتے ہیں اور اعلیٰ تحقیقی معیار کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان تحریروں میں ثانوی مراجع سے کام نہیں چلایا جاتا، بلکہ بنیادی مصادر ومراجع کے حوالے دیے جاتے ہے۔
مولاناعمری کی علمی خدمات کا فیض ان شاء اللہ جاری رہے گا اور ان کی تصنیفات ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوں گی۔
***

 

***

 مولانا نے اب تک مختلف موضوعات پر جو کچھ لکھا ہے وہ اسلامیات کے ذخیرہ میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ان میں سے بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیںاور کچھ منتظر طبع ہیں۔مولانا اپنی حیات کے آخری زمانے میں اپنے مضامین کو مرتب کرکے کتابی شکل دے رہے تھے اور چند کتابیںزیر ترتیب تھیں کہ وقت ِ موعود آپہنچا۔ اب تک شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد چار درجن کے قریب ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022