مولانا مودودی ؒاور سید قطب شہیدؒکے افکارو نظریات پر بے جا حملے
اسلاموفوبیا کے شکار افراد کا پی ایم مودی کے نام کھلا خط
سید خلیق احمد
ترجمہ: نورالدین، کلبرگی
کیا دستخط کرنے والے تمام افراد نے دونوں مصنفین کی کتابیں پڑھی ہیں ؟جانب دار میڈیا کاغیر اخلاقی رویہ کا مظاہرہ
نئی دلی : کیا کسی بھارتی مسلم رہنما نے 2047 تک تقسیم ہند کے بعد پورے ملک کو اسلامی حکومت کے زیر سایہ لانے کا اعلان کیا تھا؟ کیا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒنے جو کہ ایک بین الاقوامی اسلامی اسکالر تھے، جن کی تحریروں نے پچھلی صدی کے وسط سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو متاثر کیا ہے، کبھی ’’دنیا میں ہر جگہ غیر مسلموں کی نسل کشی‘‘ کی کھلی کال دی تھی؟
27 جولائی 2022 کو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے "اکیڈمکس کے ذریعہ پی ایم مودی کو لکھے کھلے خط” میں ان جیسے کئی الزامات لگائے گئے ہیں۔
خط پر دستخط کرنے والوں نے جن کی تعداد 25 ہے، زیادہ تر بھارت سے اور کچھ بیرون ملک سے ہیں، خط میں کہا ہے کہ خاص طور پر مولانا مودودی کے سیاسی افکار قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اس لیے انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسلامی مطالعاتی نصاب سے مولانا مودودی اور مصری اسلامی اسکالر سید قطب شہیدؒ کی تحریروں پر پابندی لگانے کے علاوہ ہندوستان میں ان کی کتابوں کی اشاعت اور نشریات پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس خط کے سوشل میڈیا پر گردش کرنے کے بعد جامعہ ہمدرد اور اے ایم یو نے مولانا مودودی اور سید قطب کی کتابوں کو فوراً اپنے نصاب سے ہٹا دیا ہے اور ان کی کتابیں اپنی لائبریریوں سے بھی ہٹا دیں۔
جانب دار میڈیا کی جانب سے سنسنی خیزی
اگرچہ کئی جانب دار نیوز چینلوں، معروف نیوز پورٹلوں اور ویب سائٹوں نے خط پر مبنی تفصیلی خبریں شائع کیں، لیکن ان میں سے کسی نے بھی خط پر دستخط کرنے والوں سے ان کے الزامات پر سوال کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔ پروفیشنلزم کا تقاضا تو یہ تھا کہ انہیں خط پر دستخط کرنے والوں کے الزامات کی تصدیق کرنی چاہیے تھی اور ان سے سوال کرنا چاہیے تھا کہ دستخط کرنے والوں کو مولانا مودودی اور سید قطب کی تحریروں کے بارے میں کیا علم ہے؟
صحافیوں کو دستخط کرنے والوں سے سوال کرنا چاہیے تھا کہ آیا انہوں نے مولانا مودودی یا سید قطب کی کوئی کتاب پڑھی بھی ہے یا نہیں؟ اور مولانا مودودی نے کس کتاب میں ہندوستان سمیت پوری دنیا میں غیر مسلموں کی نسل کشی کی دعوت دی ہے، اور وہ کون سے ممتاز مسلم رہنما ہیں جنہوں نے 2047 تک تقسیم ہند کے بعد کے تمام بھارت کو اسلامی بنانے کے اپنے عزم کا اعلان کیا ہے؟
نام نہاد نامہ نگاروں اور نیوز چینلوں نے خبر کی تحقیق کیے بغیر ہی اسے شائع کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ دستخط کنندگان سے اس کے مندرجات کی تصدیق کیے بغیر خط پر مبنی خبروں کو سنسنی خیز بنانے سے بلاشبہ اسلامی کورسز پڑھانے والی یونیورسٹیوں کو بہت نقصان پہنچا ہے اور بڑے پیمانے پر لوگوں میں غلط پیغام بھیجا گیا ہے تاہم، راقم الحروف نے خط پر دستخط کرنے والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جن کے فون نمبر اور ای میل ایڈریس انٹرنیٹ پر دستیاب تھے یا ان کے دفاتر نے دستیاب کرائے تھے۔
کیا کھلے خط پر دستخط کرنے والوں نے مولانا مودودی کی کتابیں پڑھی ہیں؟
25 دستخط کنندگان میں سے (ان میں سے تین بیرون ملک مقیم ہیں) یہ مصنف پانچ دستخط کنندگان سے فون پر بات کرنے کے قابل تھا۔ قارئین حیران ہوں گے کہ پانچوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انہوں نے مولانا مودودی کو بالکل نہیں پڑھا ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ خط کے مسودے میں ملوث تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر خط کا مسودہ کس نے تیار کیا اور کس طرح مصنفین اور دستخط کنندگان نے JIH کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے؟ ایک تنظیم نے ملک میں انصاف کے لیے جدوجہد کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کے لیے اس کی کوششوں کو فکری اور علمی حلقوں میں سراہا، اور مولانا مودودی کی شخصیت، جو ایک بین الاقوامی اسلامی اسکالر ہیں اور جو پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ جن دستخط کنندگان کے ساتھ اس مصنف نے ٹیلی فونک گفتگو کی ان کے جوابات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ خط کسی تھنک ٹینک کے کسی فرد نے تیار کیا ہے یا عالمی اسلاموفوبیا کے شکار کسی شخص نے تیار کیا ہے اور دستخط کنندگان نے محض نقطے دار خطوط پر دستخط کیے ہیں تاکہ ان بے بنیاد الزامات کو درست ثابت کیا جا سکے۔
( بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022