منی پور میں ہنگامہ آرائی ۔اکثریت نواز سیاست کا نتیجہ
منی پور میں گرچہ حالات عدالت کے ایک تبصرے کے بعد ہوئے ہیں تاہم سیاسی تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ سیاسی پیچیدگیوں اور قبائلیوں کی احساس محرومی بھی اس تشدد کے پیچھے کارفرما ہے
(دعوت نیوز بیورو، کولکاتہ)
منی پور آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ 35 سے 40 لاکھ کی آبادی پر مشتمل مرکزی زیر انتظام علاقے میں تاحال زائد از 60 افراد کی جانیں تلف ہوچکی ہیں، ہزاروں افراد زخمی ہیں اور دس ہزار کے قریب افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ شمالی مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کی خاصی دلچسپی رہی ہے، اس کی وجہ سے انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔ تاہم بی جے پی کی اکثریت نواز سیاست کی وجہ سے یہاں آباد کمیونیٹی کے درمیان اختلافات اور تنازعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے منی پور کے مختلف علاقوں سے جو تصویریں سامنے آئی ہیں وہ حیران کن ہیں۔ منی پور کے دارالحکومت امپھال سے چندر پور کے راستے میں جگہ جگہ تباہ و برباد مکانات کی تصویریں نظر آتی ہیں ۔کرفیو اور نیم فوجی عسکری کی تعیناتی کی وجہ سے گزشتہ دو دنوں سے حالات پرامن ہیں مگر مکینوں کے چہروں سے خوف اور مایوسی صاف جھلک رہی ہے۔ چندر پور کے مختلف گاوؤں میں لوگوں نے حملہ آوروں سے بچنے کے لیے اپنے اپنے مکانوں کی دیواروں پر اپنی برادری کے نام بھی لکھ دیے ہیں۔
منی پور کے تنازعات کو سمجھنے کے لیے یہاں کی آبادیاتی ساخت (ڈیموگرافی) کو سمجھنا ہوگا۔ منی پور میں نصف آبادی میتی برادری پر مشتمل ہے۔ یہ آبادی زیادہ تر امپھال میں آباد ہے، ان میں 10 فیصد مسلم طبقے سے ہے اور انہیں میتائی بنگلہ کہا جاتا ہے جب کہ میتائی، عقیدہ کے اعتبار سے ہندو ہیں، مگر ملک کے دیگر ہندوؤں کے مقابلے میں ان کے رہن سہن اور عبادت کا طریقہ قبائلیوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ منی پور کی سیاست میں یہ طبقہ حاوی ہے۔ اب تک 12 وزرئے اعلیٰ ہوئے ہیں جن میں سے 10 کا تعلق اس طبقے سے رہا ہے۔ سرکاری ملازمت، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہی طبقہ حاوی ہے۔ 60 ممبران اسمبلی میں سے 40 کا تعلق اسی میتائی برادری سے ہے۔کوکی آبادی کا 25 فیصد ہیں جب کہ ناگا کی آبادی 10 فیصد ہیں۔ ناگا اور کوکی عقیدہ کے اعتبار عیسائی ہیں۔منی پور کی جغرافیائی ساخت منفرد ہے۔ منی پور ایک فٹ بال اسٹیڈیم کی طرح ہے۔ اس میں وادی امپھال بالکل درمیان میں کھیل کا میدان ہے اور چاروں اطراف کے باقی پہاڑی علاقے ایک گیلری کی طرح ہیں۔ میتی کمیونٹی منی پور کی 10 فیصد زمین پر حاوی ہیں۔ یہ برادری وادی امپھال میں آباد ہیں۔ باقی 90 فیصد پہاڑی علاقوں میں ریاست کے تسلیم شدہ قبائل آباد ہیں۔
گزشتہ مہینے منی پور کی ہائی کورٹ نے گزشتہ دس سالوں سے زیر التو میتائی برادری کی عرضی پر سماعت کے دوران یہ تبصرہ کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ میتیوں کو درج فہرست قبائل (ایس ٹی) میں شامل کرنے کے لیے مرکز کو ایک تجویز بھیجے۔ دوسری جانب کوکی اور ناگا، میتیوں کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے خلاف ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ میتیوں کو ملازمتوں اور حکومت میں پہلے ہی بہتر نمائندگی حاصل ہے اور قبائلیوں سے بہتر معاشی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر انہیں قبائلی کا درجہ مل جاتا ہے تو ان کی حالت مزید بہتر ہوگی جبکہ ناگا اور کوکی کی حالت مزید خراب ہو جائے گی اور تعلیمی اداروں میں انہیں کوئی نمائندگی نہیں ملے گی۔دوسری جانب میتی طبقے کی دلیل ہے کہ انہیں غیر منصفانہ طور پر درج فہرست قبائل کی فہرست سے باہر رکھا گیا تھا۔ منی پور 1948 میں ہندوستان کا حصہ بننے سے پہلے حکومت، میتی کو قبائلی لوگوں کے طور پر مانتی تھی۔ لیکن انہیں عام زمرے میں رکھا گیا کیونکہ وہ صدیوں پہلے ہندو بن چکے تھے۔ میتی نے 1948 میں شکایت نہیں کی کیونکہ یہ دیکھنا باقی تھا کہ ایس ٹی کی حیثیت سے کیا فرق پڑے گا۔ منڈل کمیشن کے بعد، میتی کو او بی سی کا درجہ دیا گیا۔ کمیونٹی نے 2012 میں منی پور کی شیڈول ٹرائب ڈیمانڈ کمیٹی یعنی STDCM کے نام سے اپنی ایک کمیٹی بھی بنائی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ میتی کمیونٹی کو بیرونی لوگوں کے تجاوزات سے بچانے کے لیے آئینی ڈھال کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میتیوں کو پہاڑوں سے دھکیلا جارہا ہے۔ کوکی اور ناگا کو امپھال میں زمین خریدنے کی اجازت ہے مگر میتی امپھال کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں زمین نہیں خرید سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے اس تبصرے کے بعد سے ہی منی پور میں مخالفت شروع ہوگئی تھی اور 3 مئی کو منی پور کی قبائلی آبادی نے چندر پور میں ایک احتجاجی میٹنگ بلائی تھی جس میں بعد میں کسی نے حملہ کردیا اور اس کے بعد سے ہی حالات خراب ہو گئے۔ تاہم منی پور کے سیاسی احوال پر نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ اگرچہ حالات عدالت کے فیصلے کے بعد سے ہی خراب ہوئے ہیں مگر منی پور کی سیاسی پیچیدگیوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حالات بگڑے ہیں۔ منی پور میں ایک بڑا مسئلہ میانمار سے دراندازی ہے۔ میانمار میںفوجی بغاوت کے بعد سے ہی بڑی تعداد میں دراندازی ہو رہی ہیں اور یہ درانداز کوکی اور ناگا میں آسانی سے ضم ہوجاتے ہیں۔میتی طبقے کو ڈر ہے کہ اگر اسی طرح سے دراندازی ہوتی رہی تو منی پور کی آبادی کی آبادیاتی ہیئت تیزی سے تبدیل ہوجائے گی۔ وہ اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ غیر قانونی کوکی تارکین وطن کو منی پور کے پہاڑی اضلاع میں آباد ہونا آسان لگتا ہے کیونکہ وہ زبان، ثقافت اور ظاہری شکل و صورت میں مقامی کوکیوں کی طرح ہیں۔ نئے کوکی گاؤں محفوظ جنگلات کی زمینوں پر آتے ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں ایسے ہی ایک گاؤں کو سرکاری اراضی سے بے دخل کیا تھا، جس نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، احتجاج کرنے والے کوکیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ گاؤں صدیوں سے موجود ہے۔
منی پور تنازع نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بی جے پی حکومت تکثیری معاشرے والی آبادی کو سنبھالنے میں ناکام رہی ہے۔ آبادی کی پیچیدگیوں اور اس کے تقاضوں کو سمجھے بغیر حالات بہتر نہیں ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں شمال مشرقی ریاستوں میں بغاوت کی آوازیں خاموش ہوئی ہیں اور حالات پرامن ہوئے ہیں۔جنگجو مذاکرات پر آنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تکثیری معاشرے کی ضروریات اور سبھوں کے ساتھ یکساں سلوک اور مواقع فراہم کیے جائیں۔
***
***
منی پور میں ایک بڑا مسئلہ میانمار سے دراندازی ہے۔ میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہی بڑی تعداد میں دراندازی ہورہی ہیں اور یہ درانداز کوکی اور ناگا میں آسانی سے ضم ہوجاتے ہیں ۔میتی طبقے کو ڈر ہے کہ اگر اسی طرح سے دراندازی ہوتی رہی تو منی پور کی آبادی کی آبادیاتی ہیئت تیزی سے تبدیل ہوجائے گی۔ وہ اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023