منی پور کیوں جل رہا ہے؟
جنگلات کے تحفظ کا نیا قانون اور میتی طبقے کو قبائلی درجہ دینے سے متعلق ہائی کورٹ کی ہدایت اصل سبب
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
میری کوم جو عورتوں کے مکے بازی کے مقابلے میں ملک کا نام روش کرنے والی کھلاڑی ہیں، انہوں نے کہا کہ "میری ریاست جل رہی ہے” یہ الفاظ انہوں نے تقریباً دو ماہ قبل کہے تھے جب منی پور پوری طرح سے فسادات کی زد میں تھا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی ایک ریاست جل رہی ہے اور ہم ٹی وی پر بے کار مباحث، کھیل کے مقابلوں یا کسی فلم پر گفتگو میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ منی پور میں اس وقت بھی صورت حال مکمل طور پر معمول پر نہیں آئی ہے، خاموشی ایسی پھیلی ہوئی ہے جیسے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو۔ جیسے ہی انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر سے پابندی ہٹالی گئی ظلم و بربریت کے اور انسانیت کو شرم سار کرنے والے ویڈیوز کا سیلاب امڈ آیا، لوگوں کو گھروں سے نکال کر ان کے گھر جلائے گئے، بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو قتل کیا گیا، عورتوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا، عبادت گاہوں کو آگ لگادی گئی، لوگ اپنی جان بچانے کے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ ان ویڈیوز کو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی دو ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہو، انسانی جانوں اور املاک کی تباہی اس بڑے پیمانے پر ہوئی ہے کہ ان کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ منی پور کی صورت حال اتنی خطرناک اور دھماکو ہوگئی تھی کہ مرکزی حکومت کو دستور کی شق 355 کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کی سیکیورٹی کو اپنے ہاتھ میں لینا پڑا، اور فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کر دیا گیا، کرفیو نافذ کردیا گیا۔ آخر یہ صورت حال رونما کیوں ہوئی؟ کیا وجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے؟ آئیے منی پور کے اس مسئلہ کی پیچیدگی کو سمجھنے اور ریاستی و مرکزی حکومتوں کے رویوں پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ریاست منی پور دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک پہاڑی علاقہ اور دوسرا وادی اور سطح مرتفع یا زمینی علاقہ، پوری ریاست میں تقریباً نوے فیصد پہاڑی علاقہ ہے جس کو عام طور پر بیرون منی پور کہا جاتا ہے۔ زمینی علاقہ یا وادی اور سطح مرتفع دس فیصد پر مشتمل ہے جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے جس کو عام زبان میں اندورنی منی پور بھی کہا جاتا ہے۔ منی پور میں ویسے تو بہت سے طبقات پائے جاتے ہیں لیکن بنیادی طور پر دو بڑے سماجی طبقات ہیں، ایک ہے کوکی اور دوسرا ہے میتی۔ متیی بنیادی طور پر منی پور کے زمینی علاقوں میں بستے ہیں، ان کے علاوہ مسلمانوں کی بھی آبادی ان علاقوں میں پائی جاتی ہے جو اصلاً میتی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا تناسب بہت کم ہے۔ وہیں پہاڑی علاقوں میں بہت سے قبائل آباد ہیں جن میں دو بڑے قبائل کوکی اور ناگا مشہور ہیں۔ ان میں بیشتر کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے۔ ناگاوں اور کوکیوں کی طرح اور بھی بہت سے طبقوں کو حکومت نے بطور قبائل تسلیم کیا اور انہیں قبائلی فہرست شامل کیا ہے، بعض قبائل تو ایسے ہیں جو اس فہرست شامل نہیں ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ناگا اور کوکی جو کہ پہاڑی علاقوں میں آباد ہیں ان کی کل آبادی پینتیس فیصد ہے، یعنی نوے فیصد علاقے پر محض پینتیس فیصد آبادی بستی ہے، جبکہ منی پور کے دس فیصد حصے پر پینسٹھ فیصد آبادی بسی ہوئی ہے جس میں میتی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کی ساری کارکردگی اسی دس فیصد علاقے پر نظر آتی ہے، وسائل کی فراوانی اور ساری سہولتیں اسی علاقے میں میسر ہیں، اسکولس، کالجس، ہسپتال اور ہر طرح کی دیگر سہولتیں اس علاقے میں موجود ہے۔ پھر دوسری طرف حکومتی سطح پر بھی میتی با اثر ہیں، چونکہ میتی طبقے کی آبادی زیادہ ہے اس لیے حکومت میں بھی ان کا اثر و رسوخ زیادہ ہے، قانون ساز اسمبلی میں بھی ان کی تعداد زیادہ ہے۔ منی پور کی قانون ساز اسمبلی میں جملہ اراکین کی تعداد ساٹھ ہے ان میں سے چالیس ارکان اسمبلی میتی طبقے کے ہیں، وزیر اعلی خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے برعکس کوکی اور ناگا قبائل کے ارکان اسمبلی کی تعداد بیس ہے۔
منی پور کے عوام اپنی الگ الگ مذہبی شناختوں اور قبائلی حیثیتوں کے ساتھ کئی دہائیوں سے امن کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے، پھر اچانک یہ کیا ہوگیا کہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، ویسے ایک مفروضہ یہ ہے کہ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت رہی ہے وہاں وہاں اس نے عوام میں نفرت و دشمنی کے بیج بوئے ہیں جس کے نتیجے میں اضطراب و بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے لگتے ہیں، کیوں عوام امن و چین سے رہیں گے تو وہ حکومت کی کارکردگی جانچیں گے، ان کی حکومت کا پہلے والی حکومتوں سے تقابل کریں گے، تب ان کا پول کھل جائے گا پھر وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، چنانچہ بی جے پی کا یہ وطیرہ رہا کہ عوام کو مستقل اضطراب و بے چینی کی کیفیت میں مبتلا کر کے رکھا جائے، یہی ایک فارمولا ہے اس کے اقتدار میں باقی رہنے کا، ورنہ وہ کیا وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے ایک نسبتاً پر امن ریاست آتش فشاں میں تبدیل ہو گئی؟
اس کی پہلی وجہ تو یہی ہے کہ اس سال فروری میں بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد حکومت نے جنگلات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر اسمبلی میں ایک بل منظور کیا جس کے تحت حکومت نے مختلف مواضعات سے عوام کو ہٹانا شروع کردیا، اسی سلسلے میں ضلع چورا چندرپور کے ایک گاؤں سنجونگ کی بستیوں کو بھی اجاڑنا شروع کر دیا، اس گاؤں کی اکثریت کوکیوں کی ہے، گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں اس کارروائی کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی اور یکایک کارندوں کو لاکر ان گھروں کو مسمار کرنا شروع کر دیا گیا، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے یہ کارروائی جان بوجھ کر کی ہے، کیونکہ وہ ان کی قبائلی حیثیت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اصلاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت انہیں کسی مناسب اور محفوظ جگہ منتقل کرتی اور ان کی مدد کرتی لیکن چونکہ حکومت کی نیت خراب تھی اسی لیے بے دردی کے ساتھ ان کے گھروں کو مسمار کیا گیا، اس واقعہ نے پورے منی پور میں سخت احتجاج کی شکل اختیار کرلی۔ یہ احتجاج مکمل طور پر پر امن رہا۔ بی جے پی کی اتحادی کوکی پیپلز الائنس نے بھی اس کارروائی کی شدید مذمت کی، چونکہ یہ سرحدی علاقہ ہے اس لیے یہ سرخیوں میں نہیں رہتا اور خاص طور پر ہمارے ملک کے درباری میڈیا کے لیے تو اس میں دلچسپی کا کوئی سامان ہی نہیں ہے، اسے تو صرف ’’کاؤ بیلٹ‘‘ کی خبریں ہی پروسنا ہوتا ہے اسے نہ تو جنوبی ہندوستان کی خبروں سے دلچسپی ہے اور نہ ہی شمال مشرقی علاقوں کی خبروں سے، کیونکہ یہ علاقے نسبتاً پر امن رہتے ہیں۔ بہر کیف وہاں ہونے والا احتجاج میڈیا میں جگہ نہیں بنا سکا لہذا اس احتجاج کا ریاستی حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ بدستور اپنے کام لگی رہی، اس کارروائی کے خلاف حکومت میں موجود کوکی قبیلے کے ارکان اسمبلی نے بھی جو برسر اقتدار بی جے پی سے تعلق رکھتے تھے، احتجاج کیا لیکن ان کا احتجاج نقار خانے میں طوطی کی صدا بن کر رہ گیا۔ حکومت نے احتجاج کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا حکم صادر کر دیا، وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ قبائل غیر قانونی طور پر جنگل کی زمین پر قابض ہوگئے ہیں اور جنگل کو اپنے غیر قانونی منشیات کے کاروبار کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور میں ان منشیات کے اسمگلروں کے خلاف جنگ شروع کرنے والا ہوں، اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ منشیات کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ ہنستی کھیلتی آبادیوں کو ہی اجاڑ دیا جائے۔
اس کارروائی پر سارے قبائل نے اس ضلع میں آٹھ گھنٹے بند کا اعلان کر دیا، اسی دوران وزیر اعلیٰ نے اسی ضلع کے ایک مقام پر ایک خانگی ورزشی اکھاڑے (Gym) کا افتتاح کیا اور ایک عوام جلسے کو مخاطب کرنے کے لیے پہنچے تھے، ان کی آمد کی اطلاع پر قبائلیوں نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی، پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے حالات بے قابو ہو گئے، ادھر سے لوگ پتھراؤ کرنے لگے اور ادھر سے پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغنے شروع کر دیے، حالات کو بے قابو ہوتا دیکھ کر حکومت نے کرفیو نافذ کر دیا اور انٹرنیٹ و موبائل خدمات معطل کردی گئیں، یہ منی پور کے حالات بگڑنے کی پہلی وجہ تھی۔
کچھ دن بعد منی پور میں ’’آل ٹرائیبل اسٹوڈنٹس یونین منی پور‘‘ نے قبائلیوں سے اظہار یگانگت میں ایک عظیم الشان ریالی منعقد کی، اس ریالی کا مقصد یہ تھا کہ میتی طبقہ ایک عرصے سے یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ ان کو بھی قبائلی درجہ دیا جائے، اس سلسلے میں میتی طبقے کے لیڈروں نے منی پور کی عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ریاستی حکومت کو حکم دیا کہ مرکزی حکومت سے درخواست کرے کہ وہ میتی طبقے کو قبائلی درجہ دے۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس کے خلاف طلبہ تنظیموں نے اجتماعی طور پر احتجاج منظم کیا اور قبائلیوں سے یگانگت کا اظہار کیا۔ ناگا اور کوکی قبائل جو پہلے سے ہی حکومت کی متعصبانہ کارروائی سے خار کھائے ہوئے تھے، ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے ان کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا، انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف آواز بلند کی کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے میتیوں کو قبائلی درجہ ملے، اس کی وجہ یہ تھی کہ میتی پہلے ہی سے سرکاری وسائل پر قابض ہیں، حکومت میں وہی زیادہ تعداد میں ہیں، اگر ان کو قبائلی درجہ دیا جاتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ اب جو کچھ مراعات ان قبائل کو میسر ہیں وہ بھی ان سے چھین لیے جائیں گے۔
دوسری جانب میتی طبقہ قبائلی درجے کا مطالبہ 2013ء سے ہی کر رہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ مطالبہ ان کی تہذیب و ثقافت کو بنگلہ دیش اور میانمار سے آنے والے در اندازوں سے محفوظ کرنے کے لیے کر رہے ہیں، کیونکہ ان کی تہذیب و ثقافت کو دراندازوں سے خطرہ لاحق ہے اسی لیے ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں قبائلی درجہ دیا جائے۔ ناگا اور کوکی اور دیگر قبائلی طبقوں کا کہنا یہ ہے کہ میتی پہلے ہی سے تعلیم یافتہ، سرکاری ملازمتوں میں اور حکومتی اداروں میں قابض ہیں اور خود حکومت میں موجود ہیں، ایسی صورت میں اگر انہیں قبائلی درجہ دیا جاتا ہے تو ان کی سیاسی حیثیت اور معاشی حیثیت شدید متاثر ہو جائے گی، ان کے ساتھ دیگر جو حقیقی قبائل ہیں وہ بے موت مر جائیں گے، ان کے ساتھ دیگر قبائل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، اسی وجہ سے وہ اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میتی طبقے کی کچھ ذاتوں کو پہلے ہی سے ایس سی اور بی سی کا درجہ حاصل ہے، صرف اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کرنے کے نام پر اس طرح کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں معلوم ہوتا۔
یہی وہ دو بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے منی پور جل اٹھا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں، مثلا جنگلاتی تحفظ کے نام پر بستیوں کو کیوں اجاڑا گیا؟ ہندوستان مختلف علاقوں میں معدنی ذخائر ہیں تو کیا ان معدنی ذخائر کو حاصل کرنے کے لیے بستیوں کو اجاڑ دیا گیا؟ یا اس کارروائی کے پیچھے حکومت کا کوئی دوسرا ارادہ ہے؟ یہ شبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح چھتیس گڑھ کے قبائل کو اجاڑ کر وہاں کی معدنیات سے مالا مال زمینوں کو اپنے دوست سرمایہ داروں کے حوالے کی گیا کہیں اس کے پیچھے بھی یہی منصوبہ تو نہیں ہے؟ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ موجودہ حکومت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ عوام کو مستقل اضطراب و بے چینی میں مبتلا رکھ کر اپنا الّو سیدھا کرتی رہتی ہے، وہ اس قسم کی کارروائیوں کے ذریعے اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتی ہے، آپس میں ایک دوسرے سے لڑا کر اپنی حکومت برقرار رکھنا چاہتی ہے، وہ اکثریتی ووٹ بینک کی سیاست کرنا چاہتی ہے، اسے اقلیتوں کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے، وہ اپنے آقا آر ایس ایس کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہے، ان کے گرو بڑی بے شرمی سے یہ کہا کرتے تھے کہ بھارت کے سب سے بڑے مسائل مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ ہیں، بھارت کو ہندو راشٹر بننے میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، جب تک یہ ختم نہیں ہوں گے ملک ہندو راشٹر نہیں بن سکتا۔ یہ چاہتے ہیں کہ ملک سے ان طبقات کا خاتمہ ہو جائے تاکہ ملک ہندو راشٹر بن جائے۔ لیکن ان یہ خواب قیامت تک خواب ہی رہے گا، کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ منی پور میں رونما ہونے والے شرمناک واقعات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بی جے پی ایک فسطائی پارٹی ہے جو اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتی ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ منی پور دو ماہ تک جلتا رہا، نہتے عوام پر پولیس کی موجودگی میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ہوتا رہا، انٹرنیٹ و موبائل خدمات کو بند کر دیا گیا تاکہ یہ ننگا ناچ کوئی نہ دیکھ سکے۔ کیسی بد بختی ہے کہ ملک کے مکھیا کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ شرم سے پانی پانی کرنے والے واقعات پر بیان دے۔ کیا مکھیا کو اور شاہ کو ان واقعات کی خبر نہیں تھی؟ یقیناً تھی ہو گی لیکن اس قسم کے واقعات ان کے لیے نئے نہیں ہیں کیونکہ انہی سرپرستی میں گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا جو آج منی پور میں ہو رہا ہے، اس لیے ان کی حس مر چکی ہے، ان واقعات سے ان کی شقاوت قلبی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی، تبدیلی کے اثرات رونما ہونے شروع ہو چکے ہیں۔ مسلم رہنماوں کے لیے بھی یہ وقت ہے کہ وہ ملک کی دیگر اقلیتوں جیسے عیسائیوں سکھوں اور ایس سی، ایس ٹی طبقات کو ساتھ لے کر ایک مضبوط اتحاد قائم کریں تاکہ اس ملک کے باشندوں کو ظالموں سے نجات دلائی جاسکے۔
***
***
منی پور میں ویسے تو بہت سے طبقات پائے جاتے ہیں لیکن بنیادی طور پر دو بڑے سماجی طبقات ہیں، ایک ہے کوکی اور دوسرا ہے میتی۔ متیی بنیادی طور پر منی پور کے زمینی علاقوں میں بستے ہیں، ان کے علاوہ مسلمانوں کی بھی آبادی ان علاقوں میں پائی جاتی ہے جو اصلاً میتی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا تناسب بہت کم ہے۔ وہیں پہاڑی علاقوں میں بہت سے قبائل آباد ہیں جن میں دو بڑے قبائل کوکی اور ناگا مشہور ہیں۔ ان میں بیشتر کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023