منی پور کے فساد متاثرین حکومت پر اعتماد کھوچکے ہیں
کیا اپوزیشن اتحاد کے ارکان پارلیمنٹ کا دورہ قیام امن میں معاون ثابت ہوگا؟
منی پور (دعوت نیوز بیورو)
گزشتہ تین مہینوں سے منی پور شورش اور تشدد کا شکار ہے۔ پچھلے دنوں منی پور میں کوکی خواتین کی برہنہ پریڈ اور جنسی تشدد کے ویڈیو نے پوری دنیا میں ملک کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اسی دنوں کے بعد وزیر اعظم کو بھی اس واقعے نے خاموشی توڑنے پر مجبور کر دیا لیکن اس موقع پر بھی وہ سیاست کرنے سے نہیں چوکے۔ منی پور کے سوال پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کی کارروائی ٹھپ ہے۔ اپوزیشن ممبران اس مسئلے پر طویل بحث کا مطالبہ کرتے رہے اور حکومت راجستھان، چھتیس گڑھ اور ملک کے دیگر حصوں میں پیش آنے والے عصمت دری کے واقعات کا حوالہ دیتی رہی۔ وزیر داخلہ امت شاہ بھی عوام کو مطمئن نہیں کرسکے، اور جب وزیر اعظم مودی بھی کسی بھی صورت میں منی پور پر جواب دینے کے لیے تیار نظر نہیں آئے تو مجبوراً اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنا پڑا۔ اگر اگلے ہفتے اس پر بحث ہوگی تو ممکن ہے کہ وزیر اعظم روایات کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے جواب کے دوران منی پور معاملے میں اپنی بات رکھیں گے۔ اسی دوران ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ اپوزیشن جماعتوں کے ممبروں کا اکیس رکنی وفد منی پور کے دورے پر پہنچا جہاں اس نے مختلف طبقات سے ملاقات کی۔ اس وفد کا دورہ امن کے قیام میں معاون ثابت ہوگا یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تین مہینے سے جاری خلفشار اور شورش زدہ علاقے میں امن کا قیام اتنا آسان نہیں ہے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنا ہمیشہ مشکل کام رہا ہے۔ ان تین مہینوں میں صرف میتیوں اور کوکیوں کے درمیان دشمنی اور عدم اعتماد کا ماحول نہیں ہے بلکہ شمال مشرقی ریاستوں میں آباد دیگر قبائلیوں کے درمیان بھی تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ ناگا اور میزو کمیونٹیوں میں بھی خوف کا عالم ہے۔ اس خوف کی وجہ یہ بھی ہے کہ منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ میتی کمیونیٹی کے نمائندے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کوکیوں اور دیگر قبائلیوں کا ان پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ ہندوتوا اور دائیں بازوں کی جماعتیں بھی میتیوں کی برتری کو ہندوتوا کی برتری کے طور پر پیش کر رہی ہیں جبکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ میتیوں اور ہندوتوا کے حامیوں کے درمیان فکری اور نظریاتی اعتبار سے کافی اختلافات ہیں مگر ان اختلافات کا فائدہ دائیں بازوں کی جماعتیں اٹھا رہی ہیں۔
انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس (انڈیا) کی اکیس جماعتوں پر مشتمل وفد نے فسادات سے متاثرہ منی پور میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے دو روزہ دورہ کیا ہے۔ اس سے قبل راہل گاندھی نے منی پور کے عوام تک پہنچنے کی کوشش کی تھی مگر انہیں روک دیا گیا۔ دیر سے ہی سہی لیکن یہ دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔اس دورے سے منی پور کے عوام کو یہ پیغام پہنچے گا کہ ملک کی سیاسی قیادت ان کے درد اور تکلیف کو سمجھتی ہے۔ یہ صورت حال اپنے آپ میں شرمسار کرنے والی ہے کہ ملک کا ایک حصہ گزشتہ تین مہینوں سے جل رہا ہے، خواتین کی عصمتیں لوٹی جا رہی ہیں، بچے کیمپوں میں خراب حالت میں ہیں، تعلیمی سلسلہ رک گیا ہے مگر وزیر اعظم اس صورت حال پر کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں منی پور کے فسادات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں تک اس کا ذکر آیا ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم منہ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
وفد میں شامل کانگریس کے سینئر لیڈر ادھیر رنجن چودھری اور گورو گوگوئی نے مختلف کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیمپوں میں مقیم ہر ایک چہرے سے مایوسی اور خوف نظر آ رہا ہے۔ دورے کے دوسرے دن انہوں نے گورنر سے ملاقات کی اور بتایا کہ وفد نے چوراچند پور، مویرانگ اور امپھال میں ریلیف کیمپوں کا دورہ کیا اور دونوں طرف سے ہونے والے تشدد سے متاثر ہونے والے افراد کی پریشانیوں، غیر یقینی صورتحال اور درد و غم کی کہانیاں سن کر ہم سب صدمے میں ہیں۔ میمورنڈم سونپتے ہوئے وفد نے گورنر سے درخواست کی کہ ریاست میں امن اور ہم آہنگی کی بحالی کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔
وفد نے بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر منی پور میں لوگوں کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہونے کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران ایک سو چالیس سے زائد افراد ہلاک اور پانچ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جب کہ تقریباً پانچ ہزار مکانات جل کر خاکستر ہو گئے اور ساٹھ ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ گوگوئی نے بتایا کہ کیمپوں کی حالت قابل رحم ہے۔ ترجیحی بنیادوں پر بچوں کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے تین ماہ سے مسلسل انٹرنیٹ پر پابندی سے غیر مصدقہ اطلاعات اور افواہیں پھیل رہی ہیں جس سے کمیونٹیوں کے درمیان بد اعتمادی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔
ڈی ایم کے لیڈر کنی موزئی نے بتایا کہ منی پور کے عوام کا حکومت پر سے اعتماد مکمل طور سے ختم ہو چکا ہے۔ کل بھی جب ہم وشنو پور میں تھے تو فائرنگ ہو رہی تھی اور آپ ریاست کے مختلف حصوں میں خواتین کو دھرنے پر بیٹھے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ وہ پریشان ہیں اور کیمپوں میں خوفناک حالت میں ہیں۔ وہاں امن نہیں ہے، ریاست کے کئی حصوں میں تشدد جاری ہے اور لوگوں کا حکومت پر سے اعتماد مکمل طور سے ختم ہو چکا ہے۔
وفد میں کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری گورو گوگوئی، کوڈی کنل سریش اور پھولو دیوی نیتم، ترنمول کانگریس کی سشمیتا دیو، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی مہوا ماجی، ڈی ایم کے کے کنی موزئی اور ڈی روی کمار، نیشنل کانگریس پارٹی کے روی کمار، راشٹریہ جنتا دل کے منوج کمار جھا، این ریوولیوشنری سوشلسٹ پارٹی کے پریما چندرن، تامل ناڈو کے ودوتھلائی چروتھائیگل کچی کے ٹی تھرومالاوان، جنتا دل (یونائیٹڈ) کے سربراہ راجیو رنجن (للن) سنگھ اور ان کی پارٹی کے رہنما انیل پرساد ہیگڑے، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پی سنتوش کمار، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے اے اے رحیم، سماج وادی پارٹی کے جاوید علی خان، انڈیا یونین مسلم لیگ کے ای ٹی۔ شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) سے محمد بشیر اور عام آدمی پارٹی کے سشیل گپتا اور اروند ساونت شامل تھے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023