مغربی ایشیاء کی ممکنہ علاقائی جنگ سے معیشت پر اثرات
امریکہ اور مغربی ممالک کو اپنے مفاد کے خاطر ساری دنیا میں اپنی غنڈہ گردی اور اسرائیلی نسل کشی کو بند کرانا ہوگا
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ایران نے کبھی بھی غاصب اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ملعون صیہونی حکومت کو امریکہ اور یوروپ نے جارحانہ طور پر اپنے بل چھل کے ذریعہ وہاں کے قدیم فلسطینی باشندوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے میں مدد کی۔ فلسطینیوں کی زمین پر ظلم و جور کے ذریعہ قتل غارت گری کا بازار گرم کیا گیا۔ وہاں کے جائز باشندوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا گیا اور ملعون اسرائیلی نو آبادکار وہاں کے باشندوں کو اب بھی نکال رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ لوگ مقامی خواتین، پولیس اور فوج کی مدد سے زرعی زمین بھی ہتھیا رہے ہیں۔ لیکن آج نہیں تو کل فلسطینیوں کو ان کا ملک واپس ضرور ملے گا کیوں کہ فلسطینیوں کی مزاحمتی قوت نے ان کے اندر سرفروشی کی تمنا پیدا کی ہے۔ ایران، اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں کے جائز حقوق کے نام نہاد عرب ممالک کے علی الرغم دامے درمے، سخنے حمایت کرتا رہا ہے۔ چھ ماہ سے زائد عرصے تک اسرائیلی درندوں نے غزہ پٹی اور خان یونس پر بمباری کرکے وہاں کی یونیورسٹی، مساجد، گرجاوں و ہاسپٹلوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ بمباری میں خاص طور سے انسان نما بھیڑیوں نے بچوں اور عورتوں کو نشانہ لگا کر قتل کیا ہے۔ نتیجے میں 35 ہزار سے زائد لوگ قتل ہوئے ہیں اور 65 ہزار سے زائد لوگ معذور ہوگئے ہیں۔ غزہ کے فلسطینیوں کی نسل کشی میں شیطان اسرائیل ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ بڑا شیطان امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور فرانس بھی ہتھیار سپلائی کر رہے ہیں اور دیگر لاجسٹک امداد بھی کر رہے ہیں۔ امریکہ ہی نہیں بلکہ 200 کروڑ عیسائیوں کی رگ جان پنجہ یہود میں ہے۔ آج یوروپی ممالک اور امریکہ کو اپی علمی و سائنسی ترقی کے ساتھ جمہوریت بقائے باہم، نام نہاد آزادی اظہار رائے، انسانیت نوازی، تحفظ انسانیت، انسانی وقار، عزت و احترام اور اکرام پر کافی ناز ہے مگر خدا بے زار علم نے انہیں منافقت درندگی اور سفاکیت ہی سکھائی ہے۔
یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو اور دیتے ہیں تعلیم مساوات
ابھی تک ایران اپنے حمایتیوں کی جماعت (Resistance force) حماس، حزب اللہ، انصار اللہ، پاپولر موبلائزیشن وغیرہ کے ذریعہ نشانہ بناتا رہا ہے اور اکثر وہ براہ راست اسرائیل کے ساتھ جنگ سے پہلو تہی کرتا رہا ہے مگر اسرائیل نے اپنی روایتی اسلام دشمنی اور ایران دشمنی کو کبھی چھپا کر نہیں رکھا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسلام دشمن اور انسانیت دشمن مغربی ممالک اس کی حمایت میں کودتے رہیں گے۔ مگر ایران نے اسرائیلی جارحیت جس کے ذریعے وہ یکم اپریل کو انسانی چارٹر کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دمشق میں واقع ایرانی سفارت خانہ پر حملہ کر کے ایران کے بڑے بڑے فوجی جنرلوں کو شہید کر دیا۔ اس کے جواب میں 13؍ اپریل کو ایران نے ایک متعین ہدف کے ساتھ اسرائیل کے حلیفوں کو پیشگی خبردار کرتے ہوئے ساڑھے تین سو میزائلوں اور ڈرونس کے ساتھ حملہ کیا۔ اس کے بعد ایران نے کہا کہ اس کا وعدہ پورا ہوگیا۔ ایران نے جو کچھ کیا وہ ایک فطری فیصلہ تھا۔ حملہ بھی ایسا تھا جس سے اسرائیل اپنا دفاع کر سکتا تھا۔ اس لیے کہ اسرائیل کو اپنی دفاعی تیاری کا پورا موقع ملا۔ دوسری طرف ایران سے میزائیل اور ڈرونس کو ایک ہزار سے زائد فاصلہ کی دوری تک پہنچنے میں بھی تاخیر ہوئی۔ اس سے بھی اسے اپنے دفاع میں مدد ملی۔ امریکہ اور مغربی ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین بھی اسرائیل کی مدد کر رہے تھے۔ اسرائیل کے پاس کتنی دفاعی قوت ہے دنیا کو معلوم ہے۔ اگر ایران چاہتا تو وہ حزب اللہ سے حملہ کراوسکتا تھا اور جو نقصان ایران کے حملہ سے ہوا اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا تھا۔ اس کے علاوہ عراقی ملیشیا سے بھی حملہ کرواسکتا تھا یا بیلیسٹک میزائلوں سے بڑے پیمانے پر بمباری بھی کرسکتا تھا۔ مگر ایران کا منشا واضح تھا کہ انسانی جانوں کا ضیاع کم سے کم ہو۔ کیونکہ ایران مسلم ملک ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل کی طرح ابلیسی قوت کے زیر اثر نہیں ہے۔ ایران کا مقصد اسرائیلی دفاعی نظام کو نقصان پہنچانا تھا جس میں وہ مکمل طور پر کامیاب رہا۔ اس لیے اب اسرئیل ہوش کے ناخن لے، نہیں تو ایران پر اسرائیل کا جوابی حملہ کا مطلب جنگ کی طوالت ہو سکتا ہے کہ اس کا ناجائز وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ دوسرے یہ کہ ہتھیاروں کے بل پر کوئی جنگ جیتی نہیں جاسکتی ہے۔ اسرائیلی درندہ چھ ماہ کے طویل جنگ میں جمہور کے خاتمہ کی جلن لیے کمزور ہوچکا ہے۔ اس لیے اب اسرائیل حملہ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وہ اپنا دفاع امریکہ، جرمنی اور برطانیہ کے بل بوتے پر کرے تو بڑی بات ہوگی۔ اس لیے اپنی ساکھ بچانے کے لیے ایران پر حملہ کرنے کی بے وقوفی نہیں کرے گا اگر اس نے ایسی حماقت کی تو علاقائی جنگ کی حالت بدتر ہوجائے گی۔ اسرائیل تو یہ جنگ لڑنا چاہتا ہے مگر امریکی موجودگی میں۔ امریکہ نے بھی واضح کردیا ہے کہ صیہونی نتن یاہو اگر ایسے حملہ کے لیے اقدام کرے گا تو امریکہ اس میں شامل نہیں ہوگا۔ امریکہ کی اب کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کو ہر طرح کی شیطانی حرکت سے روکے۔ اس کی وجہ ہے کہ افغانستان جنگ کو لے کر بائیڈن جلاد کی بہت تنقید ہوچکی ہے۔ اس لیے مغربی ایشیا میں جنگ بائیڈن کے لیے بہت نقصان دہ ہوسکتی ہے ۔ امریکی مسلمان اور نوجوانوں کی بڑی اکثریت اسرائیل کی درندگی کی آنکھ موند کر بائیڈن کی حمایت سے کافی ناراض ہیں کیونکہ اسی کے سپلائی کردہ گولہ بارود کی وجہ سے اسرائیلی فوج غزہ کے بچوں اور خواتین کی نسل کشی کر رہی ہے۔
اسرئیل کی دھمکیوں، امریکہ اور مغربی ممالک کی اسلحہ ساز لابیوں کی کوشش ہوگی کہ مشرق وسطیٰ میں غیر یقینی اور تناو بنا رہے۔ انسانیت تباہ ہو تو ہو مگر یہ خونخوار مغربی درندے اسے ضرور ہوا دیں گے۔ باقی دنیا پر اس کے منفی معاشی اثرات پڑیں گے۔ ایسے میں بھارت پر بھی بہت زیادہ دباو ہوگا کیونکہ وہ امریکہ کے زیر اثر ہے۔ بھارت کے سنگھی بھی جنگ کی حمایت میں اسرائیل کے ساتھ اچھلتے کودتے نظر آرہے ہیں اور درباری میڈیا بھی۔ تغیر پذیر حالات کے تحت ہمارے ملک کو تجارتی خسارہ اٹھانا پڑے گا۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخیرہ میں کمی ہوگی اور کرنسی پر دباو بڑھے گا۔ ایران کے حملہ کے ساتھ ہی روپے کی قدر کم ہوکر 83.54 روپے فی ڈالر ہوگئی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے سے مالی خسارہ میں اضافہ ہوگا ۔ گزشتہ سال کی چوتھی سہ ماہی (جنوری تا مارچ 2024) کے شرح نمو میں کمی آئے گی۔ اس کا زیادہ ہی اندیشہ ہے۔ جنگی حالات میں بدتری آنے سے برآمدات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ بحیرہ احمر میں حوثی ملیشیا کے حملوں کی وجہ سے تجارت مہنگی ہوئی ہے۔ خردہ خسارہ کا شعبہ بھی اچھی حالت میں نہیں ہے اور تیل کی بڑھتی قیمت اسے مزید پریشان کر سکتی ہے۔ اس لیے آر بی آئی نے شرح سود میں کسی طرح کی کمی نہیں کی ہے۔ جس سے رہائشی تعمیراتی اور نقل و حمل کے مزدوروں کو راحت مل سکتی ہے۔ حالیہ شائع شدہ محنت کش تنظیم (آئی ایل او) اور انسٹیٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ کے مشترکہ رپورٹ میں نوجوانوں میں بے روزگاری و ہنر مندری کا فقدان اور خواتین کی لیبر فورس میں کم ترین شراکت کی تصویر پیش کی ہے۔ بھارتی خواتین کو 2005سے ہی مردوں کے مقابلے کم اجرت دی جا رہی ہے جبکہ دنیا کے مختلف حصوں میں نا برابری کی خلیج کم ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک میں سماجی اور معاشی نا برابری بہت زیادہ ہے۔ اس لیے روزگار کے شعبے میں بڑی اصلاح کی ضرورت ہے جو نجی شعبہ میں ہی ممکن ہے۔ جنگ کی وجہ سے خارجی سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔ واضح رہے کہ چین اور روس دونوں سلامتی کونسل کے ارکان ہیں۔ دونوں میں سے کسی نے بھی ایرانی حملے کی مذمت نہیں کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے ذریعہ کی جانے والی نسل کشی پر آنے والے قراردادوں کو امریکہ نے کئی بار ویٹو کیا ہے۔ اب ممکنہ جنگ کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک ایمرجنسی میٹنگ بلائی ہے۔ اگر یہ جنگ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو اس سے کسی کو سر دست فائدہ تو نہیں ہوگا لیکن عالمی توانائی کی سپلائی متاثر ہوگی۔ یوروپ، چین اور روس کو اس جنگی مصیبت کو رفع کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ ڈیڑھ دو سالوں سے روس-یوکرین جنگ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے۔ اگر ایران-اسرائیل جنگ طویل ہوئی تو بحر احمر، خلیج فارس اور نہر سوئز وغیرہ تمام اہم راستے مسدود ہوجائیں گے۔ ایسے وقت میں محض تیل ہی نہیں سبھی اشیا کی قیمتیں بے تحاشا بڑھیں گی۔ ضرورت ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کو اپنے مفادات کے لیے ساری دنیا میں کی جانے والی غنڈہ گردی اور اسرائیلی نسل کشی کو بند کرانا ہوگا ورنہ جنگ سب کو تباہ کردے گی۔ اس لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ جنگ تو جنگ ہے ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔
***
***
اگر یہ جنگ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے تو اس سے کسی کو سر دست فائدہ تو نہیں ہوگا لیکن عالمی توانائی کی سپلائی متاثر ہوگی۔ یوروپ، چین اور روس کو اس جنگی مصیبت کو رفع کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ ڈیڑھ دو سالوں سے روس-یوکرین جنگ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے۔ اگر ایران-اسرائیل جنگ طویل ہوئی تو بحر احمر، خلیج فارس اور نہر سوئز وغیرہ تمام اہم راستے مسدود ہوجائیں گے۔ ایسے وقت میں محض تیل ہی نہیں سبھی اشیا کی قیمتیں بے تحاشا بڑھیں گی۔ ضرورت ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کو اپنے مفادات کے لیے ساری دنیا میں کی جانے والی غنڈہ گردی اور اسرائیلی نسل کشی کو بند کرانا ہوگا ورنہ جنگ سب کو تباہ کردے گی۔ اس لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ جنگ تو جنگ ہے ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024