مدھیہ پردیش: پر تشدد ہجوم نے ایک مسلم خاندان کو مبینہ طور پر زد و کوب کیا اور گھر چھوڑنے کے لیے کہا
نئی دہلی، اکتوبر 11: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اتوار کو مدھیہ پردیش کے اندور شہر کے قریب ایک گاؤں میں ایک مسلمان خاندان کو مبینہ طور پر ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
خاندان کے ارکان نے الزام لگایا کہ ایک گروپ کی دھمکیوں کے بعد کمپل گرام پنچایت میں اپنا گھر خالی نہ کرنے کے سبب ان پر حملہ کیا گیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ہجوم نے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ہفتہ کی رات ان کے گھر پر حملہ کیا اور انھیں راڈ سے مارا۔
شاہ رخ غیاث الدین نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’انھوں نے میرے والد کو بار بار مارنا شروع کیا اور جب میرے چچا نے مداخلت کی تو انھوں نے انھیں بھی یہ کہتے ہوئے مارا کہ ہم نے تم سے کہا تھا گھر خالی کردو ورنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
دی وائر کے مطابق اس شخص کے والد فرخ غیاث الدین نے کہا کہ حملہ آور ہندوتوا گروہوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اخبار کے مطابق متاثرہ خاندان پیسہ کمانے کے لیے زرعی آلات بناتا ہے۔
غیاث الدین کی بہن فوزیہ نے الزام لگایا کہ حملہ آوروں نے خاندان پر حملہ کرنے کے لیے انھیں آلات کا استعمال کیا۔ انھوں نے ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا ’’انھوں نے میرے چچا کو پتھر مارا۔ اس کے سر پر ٹانکے لگانے پڑے۔ میرے والد ذیابیطس کے مریض ہیں۔ ان پر لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا گیا۔‘‘
خاتون نے مزید کہا کہ حملہ آوروں نے اس کا فون توڑ دیا جب وہ اس واقعے کی ویڈیو ریکارڈ کر رہی تھی۔
دی وائر کے مطابق جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں ہندو برادری کا غلبہ ہے۔
غیاث الدین کا خاندان دو سال پہلے وہاں منتقل ہوا تھا۔ انھوں نے پہلے ایک مکان کرائے پر لیا اور اپنا گھر بنانے کے لیے قریب میں کچھ زمین خریدنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
شاہ رخ غیاث الدین نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’یہی لوگ پچھلے مہینے آئے تھے اور ہمیں گھر چھوڑنے کے لیے کہا تھا، یہ جانتے تھے کہ ہم اپنے گھر کے قریب ایک پلاٹ خریدنے والے ہیں۔ انھیں یہ پسند نہیں آیا اور انھوں نے ہمیں سے کہا ہم اپنی طرح کے زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں آکر آباد کردیں گے۔‘‘
شاہ رخ غیاث الدین نے کہا کہ ان کی فیملی نے ان کی دھمکیوں کی وجہ سے پلاٹ کی خریداری کو آگے نہیں بڑھایا۔ انھوں نے مزید کہا ’’لیکن سرپنچ نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ صرف جوان خون ہیں اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، اس لیے ہم نے گھر خالی نہیں کیا۔‘‘
غیاث الدین کے پولیس سے رجوع کرنے کے بعد، پولیس نے نو افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کی ہے۔ تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
اس کے فورا بعد ہی وکاس سنگھ نامی شخص نے متاثرہ خاندان کے خلاف ہی شکایت درج کروا دی ہے اور الزام لگایا کہ وہ اسے ٹریکٹر ٹرالی دینے میں ناکام رہے تھے جس کے لیے اس نے انھیں 75 ہزار روپے ادا کیے تھے۔ اس شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’پیسے پر تنازعہ ہی اس تشدد کا باعث بنا۔‘‘
سنگھ کی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے متاثرہ مسلم خاندان کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
جس کے بعد انڈین ایکسپریس کے مطابق سب انسپکٹر وشوجیت تومر نے کہا کہ پہلی نظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیاث الدین کے خاندان کو دوسرے گروہ نے ٹرالی بنانے کے لیے کچھ رقم دی تھی لیکن نہ تو انھوں نے ٹرالی بنائی اور نہ ہی وہ پیسے واپس کیے جس کے سبب یہ واقعہ پیش آیا اور دونوں گروپ میں تصادم ہوا۔