لوک سبھا نے کریمنل پروسیجر بل پاس کیا
نئی دہلی، اپریل 5: لوک سبھا نے پیر کو کریمنل پروسیجر (شناخت) بل 2022 کو منظوری دے دی، جس میں پولیس کو گرفتار یا سزا یافتہ قیدیوں کی بایو میٹرک نشانیاں جمع کرنے کے قابل بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
بایو میٹرک نشانیوں میں جسمانی اور حیاتیاتی نمونے، آئیرس اور ریٹینا اسکین، قیدیوں کے دستخط اور ہینڈ رائٹنگ کا ذخیرہ کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا شامل ہے۔ اس کا اطلاق احتیاطی حراستی قوانین کے تحت زیر حراست افراد پر بھی ہوگا۔
اس بل کا مقصد 102 سال پرانے آئیڈنٹیفیکیشن آف پریزنرز ایکٹ 1920 کو تبدیل کرنا ہے اور اسے ایوان میں صوتی ووٹ کے ذریعے منظور کیا گیا۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق حزب اختلاف کے کئی اراکین نے اس کی مخالفت کی، جنھوں نے بل کو تفصیلی بحث اور بہتری کے لیے پارلیمانی اسٹینڈنگ یا سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق تاہم مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ بل کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ پولیس اور تفتیش کار مجرموں سے دو قدم آگے ہوں۔
شاہ نے بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا بل کی دفعات کا غلط استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کا مقصد ہماری پولیس کو مجرموں سے آگے رکھنا ہے۔ اگلی نسل کے جرائم پرانی تکنیکوں سے نہیں نمٹ سکتے… ہمیں اس کو اگلے دور تک لے جانے کی کوشش کرنی ہوگی۔‘‘
شاہ نے کہا کہ یہ بل ملک میں سزا کی شرح کو بڑھانے کے مقصد سے لایا گیا ہے۔ شاہ نے کہا ’’میرا ماننا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ قانون کی حکمرانی اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب مجرموں کو فوری سزا دی جائے۔‘‘
امت شاہ نے یہ بھی کہا کہ اس قانون کے تحت جمع کیے گئے ڈیٹا کی حفاظت کے لیے بہترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔
اس سے قبل بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس لیڈر منیش تیواری نے کہا کہ یہ بل ہندوستان کے لیے نگرانی والی ریاست بننے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق تیواری نے کہا ’’یہ [بل] وسیع پیمانے پر قبول کیے جانے والے اس اصول کے بھی خلاف ہے کہ ہر کسی کو بے قصور سمجھا جانا چاہیے جب تک کہ وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے۔ بل کی دفعات بہت وسیع اور مبہم ہیں اور ریاست اور پولیس ان کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
ڈی ایم کے لیڈر دیاندھی مرن نے کہا کہ یہ قانون ’’دہشت ناک‘‘ ہے۔
مرن نے کہا ’’کیا جلدی ہے؟ میں وزیر داخلہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جلدی نہ کریں۔ آپ کی حکومت اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے جانی جاتی ہے۔ آپ جو بھی قانون لاتے ہیں وہ سب سے پہلے اقلیتوں کو نشانہ بناتا ہے۔‘‘
دی ہندو کے مطابق ترنمول کانگریس لیڈر مہوا موئترا نے کہا کہ اگرچہ بل میں 102 سال پرانے نوآبادیاتی قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس میں انگریزوں کے نافذ کردہ قانون سے کم تحفظات ہیں۔
موئترا نے کہا ’’یہ قانون ڈیٹا پروٹیکشن قانون کی عدم موجودگی میں تجویز کیا جا رہا ہے، جس کی ہندوستان کو آج اشد ضرورت ہے۔‘‘