دہلی فسادات: عدالت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم میران حیدر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی

نئی دہلی، اپریل 5: دہلی کی ایک عدالت نے آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم میران حیدر کی فروری 2020 میں شہر میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق ایک کیس میں ضمانت کی درخواست خارج کر دی۔

بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے یہ حکم سنایا۔ تفصیلی فیصلہ جلد منظر عام پر آنے کی امید ہے۔

میران حیدر، راشٹریہ جنتا دل یوتھ ونگ لیڈر، کو فسادات بھڑکانے کی مبینہ سازش سے متعلق کیس میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت چارج شیٹ میں نامزد کیا گیا ہے۔

اس کیس کے دیگر ملزمین میں کارکن عمر خالد، شرجیل امام اور خالد سیفی، سابق کانگریس کونسلر عشرت جہاں، عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہر حسین، پنجرہ توڑ کی کارکن نتاشا نروال اور دیونگنا کلیتا، طالب علم کارکنان گلفشاں فاطمہ اور صفورا زرگر اور تعلیمی کنسلٹنٹ تسلیم احمد شامل ہیں۔

16 مارچ کو دہلی کی ایک عدالت نے گلفشاں فاطمہ اور تسلیم احمد کی ضمانت کی درخواستیں بھی مسترد کر دی تھیں۔ 24 مارچ کو جج راوت نے اس کیس میں عمر خالد کو بھی ضمانت دینے سے انکار کر دیا، یہ مشاہدہ کرتے ہوئے کہ چارج شیٹ میں ان کے خلاف لگائے گئے الزامات پہلی نظر میں سچ نظر آتے ہیں۔

شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔ اس تشدد میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مظاہرین کے علاحدگی پسندانہ مقاصد تھے اور وہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ’’سول نافرمانی‘‘ کر رہے تھے۔