لیکن شاید قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔۔

تحریکی زندگی کے تجربات و مشاہدات پر ایک کتاب کی تصنیف کا خواب پورا نہ ہوسکا

ابوالاعلی سید سبحانی

مولانا جلال الدین عمریؒ تحریک اسلامی ہند کی نئی قیادت اور مستقبل کے تعلق سے پرامید تھے
مولانا سید جلال الدین عمری مرحوم سے پہلی ملاقات کب ہوئی یہ یاد نہیں۔ لیکن والد محترم مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی حفظہ اللہ کے ساتھ بچپن میں جماعت کے جن بزرگوں سے بار بار ملاقاتیں ہوتی تھیں ان میں مولانا سراج الحسن صاحب مرحوم، مولانا شفیع مونس صاحب مرحوم، ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی حفظہ اللہ، مولانا محمد فاروق خان حفظہ اللہ، مولانا محمد اشفاق صاحب مرحوم اور مولانا سید جلال الدین عمری صاحب مرحوم سے ہوئی ملاقاتیں ابھی بھی ذہن پر نقش ہیں۔ کچھ اپنے مزاج کی وجہ سے، اور کچھ ان بزرگوں کی شفقت ومحبت کے نتیجہ میں، ان بزرگوں کے حد درجہ احترام کے ساتھ ساتھ ان سے ایک عجیب وغریب قسم کی بے تکلفی اور قربت کا رشتہ رہا۔
مولانا سید جلال الدین عمری صاحب سے ہمارے خانوادہ کا تعلق دادا مرحوم اور نانا مرحوم کے زمانے سے تھا، مولانا کے ساتھ بیٹھتا تو ہمارے خاندان کے بزرگوں سے متعلق بہت سی انوکھی اور نئی باتیں سننے کو مل جاتیں۔ مولانا کی یہ تمام یادیں رام پور قیام کے زمانے سے وابستہ تھیں، یہ وہ زمانہ تھا کہ ہمارے نانیہال اور دادیہال دونوں کا بڑا حصہ رام پور میں مقیم تھا۔ دادا مرحوم حافظ ہدایت اللہ صاحب بھی رام پور میں بہت ہی متحرک اور فعال لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور نانا مرحوم ڈاکٹر مرزا حامد بیگ صاحب بھی رام پور میں تحریک اسلامی کے نمایاں ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ مولانا سید جلال الدین عمری صاحب مرحوم کے ہمارے پھوپھا مولانا اسلام اللہ پریمی صاحب سے گہرے روابط تھے۔ اسلام اللہ پریمی صاحب ماہنامہ زندگی نو میں لکھا کرتے تھے، وہ ایک اچھے مربّی تھے،اور درسگاہ اسلامی رام پور سے وابستہ تھے، مولانا عمری صاحب مرحوم سے اپنے تعلق کا تذکرہ بہت اہتمام کے ساتھ کرتے تھے۔
مولانا سید جلال الدین عمری مرحوم کی کتاب ’’معروف ومنکر‘‘ کا مطالعہ میں نے بہت کم عمری میں کیا تھا۔ میرا بچپن اباجان کے روم (جامعۃ الفلاح میں مودودی ہاسٹل کے کمرہ نمبر دس) میں یعنی کتابوں کے درمیان گزرا ہے۔ اباجان کا بیشتر وقت وہیں پڑھنے پڑھانے میں گزرتا تھا، اور میرا بیشتر وقت اباجان کے پیچھے لگے رہنے میں گزرتا تھا۔ اباجان کے کمرہ میں اردو کتابیں کم تھیں، عربی زبان کا بڑا ذخیرہ تھا، اردو ذخیرہ میں معروف ومنکر بھی موجود تھی، میں نے اس کا مطالعہ کیا اور جب معلوم ہوا کہ انہی مولانا عمری صاحب کی یہ کتاب ہے جو فلاح کی میٹنگوں میں آیا کرتے ہیں، تو پھر کیا تھا، مولانا سے ایک عقیدت کے ساتھ ملنے، ملاقات کرنے اور پھر استفادہ کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو تادم زیست جاری رہا۔
مولانا مرحوم کی دو کتابوں کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی، ایک معروف ومنکر اور دوسری اسلام کی دعوت۔ پہلی کتاب کا تذکرہ اوپر آیا، دوسری کتاب ایک زمانے میں ایس آئی او آف انڈیا کے ممبرشپ نصاب کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ اس کتاب کا میں نے نہ صرف مطالعہ کیا، بلکہ اس کے اوپر متعدد بار لکچرس دینے کا بھی موقع ملا۔ مولانا نے اس کے علاوہ خواتین سے متعلق لکھا اور خوب لکھا۔ مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے خواتین کی آزادی، اختیارات اور ان کے اجتماعی رول سے متعلق جو موقف اختیار کیا تھا، مولانا نے اسی لائن پر کام کیا اور خوب کام کیا۔
مولانا عمری صاحب مرحوم نے مختلف اہم علمی وفکری موضوعات پر کتابچوں کی تیاری کا کام بھی خوب کیا۔ تحریکی قیادت کے دوران، پہلے نائب امیر جماعت کی حیثیت میں اور بعد میں تین میقات امیر جماعت کی حیثیت میں انہوں نے وابستگان تحریک کی علمی وفکری رہنمائی کے لیے مختلف اہم موضوعات پر کتابچے تیار کیے۔ ان میں بیشتر کتابچے مولانا کے خطابات پر مشتمل ہیں۔ مولانا ان خطابات کے تحریر میں آجانے کے بعد بہت اہتمام سے ان پر کام کرتے تھے، اور ان کو خطابت کے اسلوب سے نکال کر تحریر کے اسلوب میں لے آتے تھے۔ ان تمام کتابچوں کو جمع کرکے ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کردینا چاہیے تاکہ ان سے استفادہ آسان ہوسکے اور وہ زمانے کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔
مولانا اپنی تحریروں کے سلسلہ میں بہت حساس واقع ہوئے تھے۔ میں نے آخری عمر تک دیکھا ہے کہ مولانا اپنی کتابوں کے نئے ایڈیشن کی اشاعت سے قبل بہت باریکی کے ساتھ ان کو دیکھتے تھے اور ان میں کافی ترمیم اور حذف واضافہ کرتے تھے۔ یہ اہتمام کم ہی مصنفین کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ محترمی ومکرمی ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب حفظہ اللہ مولانا کے تلمیذ رشید اور مولانا کے معتمد خاص رہے۔ مولانا اپنی تحریروں کے سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب پر نہ صرف بھرپور اعتماد کرتے تھے، بلکہ آپ کو اپنا علمی جانشین اور اپنے علمی پروجیکٹس کا سب سے بڑا امین بھی سمجھتے تھے۔ ادارہ تحقیق وتصنیف اور پھر مرکز جماعت میں، یعنی کئی دہائیوں تک مولانا مرحوم اور ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کی قابل رشک رفاقت رہی، ڈاکٹر صاحب محترم کا یہ جملہ کہ ’’رضی الاسلام کو مولانا رضی الاسلام بنانے والا چلا گیا‘‘ اپنے اندر پوری ایک تاریخ رکھتا ہے۔
مولانا مرحوم کی امارت کے زمانے میں بیشتر وقت مجھے دلی میں ہی رہنے کا موقع ملا، اور حسن اتفاق یہ کہ اس پورے عرصے میں میرا قیام مرکز میں ہی رہا۔ اس دوران مولانا مرحوم سے خوب خوب استفادہ کرنے کا موقع ملا۔
بیک وقت، مولانا جماعت اسلامی ہند کے امیر بھی تھے اور جامعۃ الفلاح کے شیخ الجامعہ بھی تھے۔ تحریک اسلامی میرے لیے اوڑھنا بچھونا کل بھی تھی اور آج بھی ہے، جبکہ جامعۃ الفلاح میں میں نے شعور کی آنکھ کھولی اور عمر کا ابتدائی حصہ وہیں گزرا، اس لیے فلاح سے بھی یک گونہ تعلق ہے۔
مولانا سے میری ملاقاتوں کا موضوع اکثر تحریک اور فلاح ہی ہوا کرتے تھے۔ تحریک کے اہداف اور مسائل سے متعلق بات ہوتی تو مولانا پورا پورا وقت دیتے اور ہر ممکن طریقے سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔ تحریک ملت کے درمیان اپنا مقام کیوں نہیں بنا پارہی ہے، یہ میری دلچسپی کا موضوع تھا، اس پر مولانا کے ساتھ خوب خوب گفتگوئیں رہیں، مولانا مانتے تھے کہ علماء اور جیّد علماء کو تحریک کا حصہ بنائے بغیر ملت کے درمیان اپنی جگہ بنا پانا آسان نہیں ہے۔ چنانچہ مولانا مرحوم ہم لوگوں سے بھی بار بار کہتے تھے کہ وضع قطع پر خاص دھیان دیں، اس کے بغیر آپ کی عالمانہ شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے۔جامعۃ الفلاح سے متعلق مولانا مرحوم کو کبھی میں نے مطمئن نہیں دیکھا۔ وہاں کی صورتحال سے مولانا مطمئن نہیں تھے، مولانا چاہتے تھے کہ فلاح کے لیے کچھ وقت نکالیں، انجمن طلبہ قدیم کی صدارت سنبھالنے کے بعد میں نے مولانا سے اس سلسلہ میں کئی ملاقاتیں بھی کیں، وہ کہتے تھے کہ فلاح جانا ہے اور وہاں کچھ وقت بھی گزارنا ہے، لیکن مولانا کی صحت اور مصروفیات مانع رہیں۔ ہماری خواہش تھی اور اس خواہش کا اظہار مولانا سے بار بار کیا کہ مولانا کے وہاں پر کچھ کچھ دن قیام کرنے سے وہاں کے عمومی ماحول، طلبہ کی ذہنی سطح اور ادارے کے علمی وقار میں اضافہ ہوگا، لیکن وقت گزر گیا اور ہمارا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
مولانا عمری صاحب مرحوم اور مولانا یوسف اصلاحی مرحوم دونوں بزرگوں کے یہاں ایک خاص بات کا میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ کیا کہ وہ تحریک کے مستقبل کے سلسلہ میں بہت پرامید نظر آتے تھے۔ مولانا عمری صاحب مرحوم موجودہ تحریکی قیادت کا نہ صرف احترام کرتے تھے بلکہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے، یہی حال مولانا یوسف اصلاحی مرحوم کا تھا۔ وہ نئی قیادت کے حوالے سے کہتے تھے کہ ان لوگوں کے آنے کے بعد اب اطمینان ہوتا ہے کہ ہم لوگ سکون اور اطمینان کے ساتھ اس دنیا کو الوداع کہہ سکتے ہیں۔ مولانا عمری صاحب مرحوم کا بھی یہی انداز تھا۔ اللہ ہمارے تمام بزرگوں کو کروٹ کروٹ جنت دے اور ان کی حسنات کو قبول فرمائے۔
مولانا عمری صاحب مرحوم کے ساتھ مجھے متعدد بار سفر کرنے کا موقع ملا۔ سب سے یادگار سفر مولانا محمد سالم قاسمی سیمینار میں شرکت کے لیے دارالعلوم دیوبند کا سفر تھا۔ اس سفر میں مولانا عمری صاحب مرحوم کے علاوہ مولانا رفیق قاسمی صاحب مرحوم، برادر محترم ومکرم ڈاکٹر محی الدین غازی اور مجھے لے کر چار افراد کا قافلہ تھا۔ یہ سفر بہت ہی یادگار تھا۔ میں اس سیمینار کا سب سے کم عمر مقالہ نگار تھا۔ مولانا مرحوم نے اس موقع پر میری کافی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس سفر کی ایک بہت ہی شاندار روداد برادر محترم ڈاکٹر محی الدین غازی نے لکھی تھی جو سہ روزہ دعوت اور مختلف جگہوں پر شائع ہوئی تھی اور کافی پسند کی گئی تھی۔
یادوں کا پورا ایک سلسلہ ہے، گزشتہ دنوں مولانا کے ساتھ ایک خاص موضوع پر گفتگو ہوئی۔ میری خواہش تھی کہ مولانا سید جلال الدین عمری صاحب کے ساتھ تفصیلی انٹرویوز پر مبنی میاں طفیل محمد کی ’’مشاہدات‘‘کے طرز پر ایک کتاب تیار کی جائے، جو جماعت کی ایک معتبر تاریخ، مولانا کی زندگی اور تجربات کا ایک اہم دستاویز اور تحریکی لٹریچر کے مطالعہ کے دوران اٹھنے والے بہت سے اہم سوالات کا جواب ہو۔ مولانا نے میرا یہ مشورہ نہ صرف قبول کیا، بلکہ یہ بات بھی تقریباً طے ہوگئی تھی کہ ستمبر کے مہینے سے اس پر کام بھی شروع کردینا ہے، لیکن شاید قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔۔۔

 

***

 مولانا سے میری ملاقاتوں کا موضوع اکثر تحریک اور فلاح ہی ہوا کرتے تھے۔ تحریک کے اہداف اور مسائل سے متعلق بات ہوتی تو مولانا پورا پورا وقت دیتے اور ہر ممکن طریقے سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔ تحریک ملت کے درمیان اپنا مقام کیوں نہیں بنا پارہی ہے، یہ میری دلچسپی کا موضوع تھا، اس پر مولانا کے ساتھ خوب خوب گفتگوئیں رہیں، مولانا مانتے تھے کہ علماء اور جیّد علماء کو تحریک کا حصہ بنائے بغیر ملت کے درمیان اپنی جگہ بنا پانا آسان نہیں ہے۔ چنانچہ مولانا مرحوم ہم لوگوں سے بھی بار بار کہتے تھے کہ وضع قطع پر خاص دھیان دیں، اس کے بغیر آپ کی عالمانہ شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022