لکھنؤ کے اکبر نگر میں بابا کا بلڈوزر
ککریل نالے پر ریور فرنٹ بنانے کے نام پر غریبوں کے آشیانے تباہ کردیے گئے
لکھنؤ (دعوت نیوز نیٹ ورک)
اکثریتی آبادی کو خوش کرنے کی سیاست میں نام نہاد سیکولر جماعتوں کاصرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا
اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں بابا کا بلڈوزر ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ اس مرتبہ ککریل نالے کے کنارے آباد مسلم اکثریت والی بستی اکبر نگر نشانے پر ہے۔ اس بستی کو یو پی کے گورنر رہے اکبر علی خاں کے نام پر تقریبا 50- 60 سال پہلے بسایا گیا تھا۔ حیدرآباد کے رہنے والے اکبر علی خاں 1972 سے 74 تک اتر پردیش کے گورنر رہے۔
لکھنؤ کی انتظامیہ اس آبادی کو غیر قانونی قرار دے رہی ہے جبکہ بستی کے مکین 50 -60 سال سے اس علاقے میں رہنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں کچھ مقامی باشندوں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ سے رجوع کیا تھا عدالت نے اس معاملے پر سماعت کے بعد 24 فریقوں کے قبضے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اسٹے خارج ہوتے ہی پہلے سے ہی تیار کھڑے بلڈوزروں نے انہدامی کارروائی شروع کر دی ۔ساتھ ہی ان مکینوں کے بھی آشیانے اجاڑ دیے گئے جو اپنی غربت یا کسی دیگر مجبوریوں کے سبب ہائی کورٹ میں فریق نہیں بن سکے۔ انتظامیہ نے پہلے ان لوگوں کی نشاندہی کی جو عدالت میں فریق بننے سے قاصر ہیں۔ اطلاعت کے مطابق ایل ڈی اے کے افسروں نے سروے کر کے 277 مکانات و دکانات کی نشاندہی کرنے کے بعد انہدامی کارروائی شروع کر دی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق تقریبا 1068 مکانات و دکانات نشانے پر ہیں ان میں سے کچھ افراد نے سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔تاہم عدالت عظمیٰ نے انہیں فوری راحت دینے سے انکار کر دیا ۔یاد رہے کہ اس سے پہلے عدالت نے یہ مانا کہ قبضے دار بھی بھلے ہی اپنا مالکانہ حق ثابت نہیں کر سکے ہوں لیکن طویل مدت سے اس پر قابض ہیں اس لیے باز آباد کاری کے بغیر جلد بازی میں بستی اجاڑنا درست نہیں ہے اس کے باوجود انتظامیہ نے اسٹے خارج ہوتے ہی انہدامی کارروائی شروع کر دی۔ ایک طرف بلڈوزر چل رہے تھے دوسری طرف جن کے مکانات اجڑ رہے تھے وہ آہ وفغاں کر رہے تھے اور چیخ چیخ کر انتظامیہ سے فریاد کر رہے تھے کہ انہیں اپنا آشیانہ بنانے میں برسوں لگے ہیں لیکن بابا کے بلڈوزر نے چند لمحوں میں ان کے خواب زمیں بوس کر دیے۔
دراصل اکبر نگر بستی کا یہ علاقہ لکھنؤ سے ایودھیا جانے والی شاہراہ کے راستے میں پڑتا ہے۔ ایل ڈی اے یہاں پر راستے کو چوڑا کرکے ککرئیل نالے پر جسے ندی بتایا جا رہا ہے ایک ریور فرنٹ بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے تاکہ اس پورے علاقے کو خوبصورت بنایا جا سکے۔ یاد رہے کہ مقامی انتظامیہ نے پچھلے سال نومبر میں اس علاقے میں انہدامی کارروائی شروع کی تھی۔ مقامی لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور کچھ لوگوں نے ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا اس کے بعد ہائی کورٹ نے 21؍ نومبر کو انہدامی کارروائی پر اسٹے دے دیا ہے۔ تاہم مقامی انتظامیہ اپنی کوششوں میں لگی رہی۔ اس نے ککریل نالے کے کنارے قابض کچھ لوگوں کی تفصیلات جمع کیں اور کورٹ کو یہ باور کرایا کہ یہ اپنے آپ کو غریب بتا رہے ہیں لیکن باقاعدہ انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں اس طریقے سے امیر ہونے کے باوجود غریبی کے نام پر یہ سرکاری زمین پر قابض ہیں۔ عدالت نے اس طرح کے 24 معاملوں میں سرکاری فریق کے دلائل تسلیم کرتے ہوئے اسٹےخارج کر دیا ہے۔ اس طرح ان قبضہ داروں کے ساتھ ان غریبوں پر بھی انہدامی کارروائی کا راستہ ہموار ہو گیا جو اپنی لاچاری اور بے مائیگی کے سبب عدالت سے رجوع نہیں ہو سکے۔
اپوزیشن نے اکبر نگر میں انتظامی کارروائی کی مخالفت کے ساتھ مذمت بھی کی ہے۔ لیکن ان مکینوں کو بچانے کے لیے میدان میں کوئی نہیں آیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے انہدامی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے مقامی باشندوں کے حق میں آواز تو بلند کی لیکن کسی طریقے کی مدد سے گریز کیا۔ سماج وادی پارٹی نے سوشل میڈیا پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایکس پر لکھا ’بلڈوزر سے آشیانہ کو اجاڑنے کی بی جے پی کی گارنٹی! نالے پر ریور فرنٹ بنانے کے فرضی وکاس کے نام پر بستی اجاڑ رہے ہیں۔ وزیراعلی ‘سماجوادی پارٹی نے بستی کے مکینوں کی باز آباد کاری کے بغیر انہدامی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ کانگریس کے ترجمان سریندر راجپوت نے بھی سرکار کی انہدامی کارروائی کو غلط بتایا۔ ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’امیروں کی آڑ میں غریبوں کو اجاڑنا ٹھیک نہیں ہے سرکار کو پہلے باز آباد کاری کرنی چاہیے۔ انہوں نے سرکار کی منشا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا سماجوادی پارٹی کی اکھلیش حکومت نے 27 کلومیٹر کا ریور فرنٹ بنایا تھا جس میں سے صرف 1100 میٹر باقی رہ گیا ہے۔ موجودہ سرکار پچھلے سات سالوں میں 1100 میٹر بھی مکمل نہیں کر پائی ایسے میں ککریل نالے پر نیا ریور فرنٹ بنانے کا دعوی ان کے دہرے پن کو اجاگر کرتا ہے۔
سماجی اور ملی تنظیموں کی خاموشی پر بھی سوال :
اکبر نگر وارڈ نمبر ایک اور دو میں ہندو مسلمانوں کی ملی جلی آبادی ہے۔ بی جے پی کے سابق وزیراعلی راج ناتھ سنگھ کے دور حکومت میں اس علاقے میں سرکاری خزانے سے ترقیاتی کام بھی کروائے گئے۔ مقامی باشندوں کے مطابق وہ پچھلے 50 -60 سال سے اس علاقے میں آباد ہیں۔ ان کے پاس بجلی پانی کے کنکشن ہیں اس کے باوجود پوری آبادی کو غیر قانونی بتایا جا رہا ہے۔ سماجی اور اقتصادی مسائل پر کام کرنے والی تنظیم ایشو کے بانی سماجی کارکن محمد خالد کہتے ہیں کہ اس معاملے میں سماجی اور ملی تنظیموں کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ اتنی بڑی آبادی اجاڑی جا رہی ہے لیکن کوئی پارٹی یا تنظیم متاثرین کی مدد کے لیے آگے نہیں آئی جو کافی تشویش کی بات ہے۔
کانگریس اقلیتی سیل کے چیئرمین شاہنواز عالم اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ دور اکثریتی آبادی کو خوش کرنے کی سیاست میں مصروف ہے۔ چونکہ اس علاقے کا نام اکبر نگر ہے اس لیے بھلے ہی اس میں ہندو بھی رہتے ہوں لیکن سیاسی اور سماجی تنظیمیں ان کے حق میں آواز اٹھانے سے کترا رہی ہیں۔ دیگر تجزیہ نگار بھی مانتے ہیں کہ سیکولر جماعتوں کو زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں اپنا سیکولر کردار دکھانا ہوگا صرف علامتی باتوں سے کام نہیں چلے گا انہیں سیکولر ہونے کی ہمت بھی دکھانی پڑے گی۔ اکثریتی سیاست کے سبب سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کے مسائل اٹھانے سے گریز کر رہی ہیں مثال کے طور پر راہل گاندھی کی نیاے یاترا علی گڑھ پہنچی لیکن انہوں نے ایک بار بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر بات نہیں کی۔ اسی طرح سماجوادی پارٹی کو مسلمانوں کی بھرپور حمایت حاصل ہو رہی ہے اس کے باوجود پی ڈی اے میں ان پر مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ سلیم شروانی کے بعد پارٹی کے ایک اور لیڈر عابد رضا خاں نے بھی پارٹی سے استعفی دے دیا ہے۔عابد رضا کو اعظم خان کا قریبی مانا جاتا ہے اور وہ ایک عرصے سے پارٹی میں کنارے چل رہے تھے۔
ماہرین قانون کہتے ہیں کہ آج کل کی سرکار لچکدار قانونی نظام کا فائدہ اٹھا رہی ہے جس طرح ہلدوانی کے بن پھول پورہ کا معاملہ نینی تال ہائی کورٹ میں زیر التواء ہونے کے باوجود انہدامی کارروائی میں جلد بازی دکھائی گئی جس سے حالات خراب ہوئے اور کئی انسانی جانوں کے ساتھ مال اور کاروبار کا بھی نقصان ہوا۔ اسی طرح اکبر نگر میں ہائی کورٹ کا مکمل فیصلہ آنے سے پہلے صرف اسٹے آرڈر خارج ہونے پر انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ امیروں کے بہانے غریبوں کے بھی آشیانے اجاڑ دیے گئے جنہیں بسانے میں کئی دہائیاں لگ گئی تھیں۔ بلڈوزر نے انہیں چند لمحوں میں زمین بوس کر دیا ۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024