کیا کالیشورم پراجیکٹ بد عنوانی کی علامت بن گیا ہے؟
تلنگانہ میں آب پاشی نظام کے نام پر عوام کے کروڑوں روپے پانی میں!
زعیم الدین احمد حیدرآباد
کالیشورم آب پاشی منصوبے کو تلنگانہ حکومت کا قابل فخر کارنامہ کہا جاتا ہے، اور حکومت تلنگانہ بھی اس کو تاریخ کا سب سے اہم ترین آب پاشی منصوبہ قرار دیتی ہے۔ حقیقت بھی ہے کہ یہ ایک بہت بڑا آب پاشی منصوبہ ہے۔ کالیشورم لفٹ ایریگیشن پراجیکٹ کالیشور ضلع بھوپال پلی میں واقع ہے جو ریاست تلنگانہ میں دریائے گوداوری پر ہمہ مقصدی آب پاشی کا منصوبہ ہے۔ یہ لفٹ ایریگیشن پراجیکٹ دنیا کا سب سے بڑا ہمہ درجہ لفٹ اریگیشن پراجیکٹ ہے۔ اسے دریائے پرانیتا اور گوداوری کے سنگم پر بنایا گیا ہے۔ دریائے پرانیتا جو خود مختلف چھوٹی معاون دریاؤں کا سنگم ہے جن میں وردھا، پین گنگا اور وین گنگا جیسی چھوٹی دریائیں شامل ہیں، یہ سب مل کر برصغیر کا ساتواں سب سے بڑا آبی نکاسی کا طاس بناتی ہیں، جس سے سالانہ تقریباً 280 TMC پانی غیر مستعمل رہ جاتا ہے کیونکہ اس کا بہاؤ بنیادی طور پر گھنے جنگلات میں ہوتا ہے۔
کالیشورم لفٹ ایریگیشن پراجیکٹ کو 7 لنکس اور 28 آب پاشی منصوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ پراجیکٹ 13 اضلاع میں 500 کلو میٹر لمبا سفر طے کرتا ہے، جو 1,800 کلو میٹر سے زیادہ نہری نیٹ ورک پر محیط ہے۔ اس پراجیکٹ کا مقصد کل 240 ٹی ایم سی پانی کو مختلف آب پاشی پراجیکٹس کے ذریعے پانی جمع کرنا ہے، جس میں میڈی گڈا بیراج سے 195 ٹی ایم سی، سریپدا یلمپلی پروجیکٹ سے 20 ٹم ایس سی اور 25 ٹی ایم سی زیر زمین پانی سے شامل ہے۔ ان پراجیکٹس کے ذریعے 169 ٹی ایم سی آب پاشی کے لیے، 30 ٹی ایم سی حیدرآباد بلدیہ کے لیے پانی کی فراہمی، 16 ٹی ایم سی متفرق صنعتی استعمال کے لیے اور 10 ٹی ایم سی قریبی دیہاتوں میں پینے کے پانی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد موجودہ زرعی زمین میں موجود تمام 13 اضلاع میں 1,825,000 ایکڑ فیٹ تک پہنچانا ہے، اوپری علاقہ جس کے ذریعہ اَپ اسٹریم اور ڈاؤن اسٹریم دونوں علاقوں کو سیراب کیا جاسکتا ہے، اس کو بڑھانا ہے۔
پانی کو پہنچانے کے لیے چار بڑے پمپ بنائے گئے ہیں، راماڈوگو میں سب سے بڑا پمپ ہاؤز بنایا گیا اس کے علاؤہ میدارم، انارم اور سنڈیلا پمپ ہاؤز بھی ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے، جس کو چلانے کے لیے 140 میگاواٹ (500 جی جے) بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان پمپس کو BHEL نے خاص طور پر اسی منصوبے کے لیے تیار کیا ہے۔ ایک بڑی انجینئرنگ کمپنی میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچرز لمیٹڈ نے 22 پمپ میں سے 15 پمپ ہاؤسز بنائے اور پراجیکٹ کا بڑا حصہ اسی کمپنی نے تعمیر کیا ہے۔
اس پراجیکٹ سے پہلے موجود آبی ذخائر سری پاداش یلمپلی پروجیکٹ میں 20.175 ٹی ایم سی پانی پایا جاتا ہے، میڈ مانیر ڈیم 25.875 ٹی ایم سی، اپر مانیر ڈیم 2.20 ٹم یم سی، کڈیم 7.70 ٹم ایم سی، مسانی ٹینک 0.13 ٹی ایم سی، یعنی کالیشورم سے پہلے جملہ 55.89 ٹی ایم سی پانی مختلف پراجیکٹوں کے ذریعے زرعی استعمال کے لیے سیراب کیا جاتا تھا۔ اس نئے پراجیکٹ سے مزید 147.710 ٹم ایم سی فیٹ پانی کو مختلف جگہوں پر ذخیرہ کیا گیا۔ اس پراجیکٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک آبی ذخیرہ سے پانی اوپر حصے میں بنائے گئے آبی ذخیرہ کو واپس بھیجا جاتا ہے۔ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ چندر شیکھرراؤ نے کہا تھا کہ ہر سال تقریباً 400 ٹی ایم سی پانی لفٹ کیا جائے گا، لیکن اس کے برعکس گزشتہ 5 سالوں میں صرف 150 ٹی ایم سی پانی ہی لفٹ کیا گیا اور اس میں سے بھی 100 ٹی ایم سی واپس گوداوری میں چھوڑ دیا گیا۔ اس لحاظ سے ہر سال اوسطاً صرف 10 ٹی ایم سی پانی لفٹ کیا گیا ہے۔ عام طور پر مختلف برجوں سے پانی کو جون اور جولائی کے آخر میں لفٹ کرنا شروع کیا جاتا ہے، کیوں کہ ان مہینوں میں برسات کا موسم شروع ہو جاتا ہے اس لیے ان پراجیکٹوں کو بارش کا پانی ایک اچھی مقدار میں بہتا ہوا آتا ہے اسی وجہ سے لفٹ کیے گئے پانی کو واپس دریائے گوداوری میں چھوڑنا پڑتا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں پانی کو اٹھانا اور واپس گوداوری میں چھوڑنے کے عمل کو تواتر کے ساتھ کیا گیا، حکومت اس منصوبے کو اسمارٹ منصوبہ کے طور پر شمار کرتی ہے، دوسری 10 ٹم ایم سی فیٹ پانی بہاؤ کے ذریعے ہی ذخائر میں جمع ہوجاتا ہے، اسے لفٹ کرکے ان میں جمع کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور پانی کو لفٹ کرنے میں جو کثیر رقم خرچ ہوتی ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 10 ٹی ایم سی پانی سے ایک لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو سیراب کیا جا سکتا ہے، پانی لفٹ کرنے کے اس منصوبے پر سالانہ خرچ 20 ہزار کروڑ روپے آئے گا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ فی ایکڑ سیرابی کے لیے سالانہ خرچ 20 لاکھ روپے ہوگا جو ظاہر ہے کہ بہت زیادہ ہے۔ لاگت سے فائدہ اٹھانے کا یہ طریقہ انتہائی ناقص ہے، اس طرح کا غیر فطری تناسب ہی اس منصوبے کو ناکام بناتا ہے اور یہ پراجیکٹ ریاست تلنگانہ کے لیے ایک مالیاتی آفت و تباہ کن ثابت ہورہا ہے۔
اس پراجیکٹ کی معاشیات کو جانیں گے تو ہمارا سر چکرا جائے گا کیونکہ اس منصوبے میں کئی بڑے پانی کے پمپ ہیں جن کو چلانا بھی ایک بہت بڑا کام ہے، ان پمپس کو چلانے کے لیے تقریباً 5,900 میگاواٹ بجلی درکار ہے، اتنی بڑی مقدار میں بجلی کی طلب کہاں سے پوری کی جائے گی یہ بھی ایک سوال ہے۔ ریاست میں دیگر ضروریات کے لیے ہی بجلی ہابر سے خریدی جارہی ہے، اب اس منصوبے کے لیے بجلی کی پیدوار کوئی آسان اور معمولی بات نہیں ہے، اسی لیے اس منصوبے کے لیے بھی بجلی خریدی جارہی ہے، فرض کریں کہ موسم برسات میں پمپس کو دو ماہ تک 24 گھنٹے مسلسل چلانے کی ضرورت پڑتی ہے تو 24 گھنٹے میں بجلی کی کل کھپت 849 کروڑ یونٹ ہوگی۔ اگر ہم 8 روپے فی کلو واٹ بجلی چارج کرتے ہیں تو سالانہ بجلی کا خرچ 7 ہزار کروڑ ہوگا، اور اگر اس منصوبے سے 15 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جاتا ہے تو اس کے لیے بجلی کی لاگت تقریباً 46,666 روپے فی ایکڑ سال بھر میں آئے گی۔ وزیر اعلیٰ چندر شیکھرراؤ نے اس منصوبے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے لیے تقریباً 5000 کروڑ روپے سالانہ بجلی کا خرچ ہوگا۔
اس منصوبے کو بنانے کے لیے بھاری قرضے لیے گئے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس منصوبے کی جو لاگت ہے وہ 80 ہزار کروڑ روپے ہے، فرض کریں کہ یہ 80 ہزار کروڑ روپے کا قرض سالانہ 6 فیصد کی شرح سود پر 30 سال کی مدت کے لیے لیا گیا جو بازار کی شرح سود سے کم ہے، پھر بھی اس قرض پر سود کی ادائیگی کا سالانہ چارج تقریباً 5760 کروڑ روپے ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فی ایکڑ سالانہ 38400 روپے کا اضافی خرچ ہوگا۔ اس طرح سے آب پاشی کے لیے فی ایکڑ کل لاگت سالانہ تقریباً 85 ہزار روپے آئے گی۔ یعنی اگر ایک سال میں دھان کی دو فصلوں کی کاشت ہوتی ہے، اور اگر اس کا خالص منافع ہم 40 ہزار روپے فی ایکڑ طے کرتے ہیں تب بھی اس سے سالانہ زیادہ سے زیادہ 80 ہزار روپے ہی منافع حاصل ہوگا۔
اس منصوبے پر کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نے اس کے لاگت و نفع کا دعویٰ 1:1.5 کیا ہے، جبکہ حکومت کے دعوے کے برعکس پراجیکٹ کی لاگت سے فائدہ کا تناسب 1:0.75 ہے۔ اس کے علاوہ، تیسرے TMC کو لفٹ کرنے کے لیے بڑھے ہوئے اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تناسب 1:0.52 پر آ جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کے لیے سالانہ آپریشنل اخراجات 46364 کروڑ روپے ہیں۔ اس پر سالانہ بجلی کے اخراجات 10,374 کروڑ روپے ہیں۔ اس طرح کی مالی صورت حال پر سی اے جی نے منفی رپورٹ دی ہے لیکن اس منفی رپورٹ کے باوجود ریاستی حکومت نے اس منصوبے پر عمل درآمد کیا ہے۔
یہ اعداد و شمار عمومی طور پر اس پورے منصوبے پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہے ہیں اور خاص طور پر اس کے مالیاتی معاملات پر بھی سوالات پیدا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اس کی تعمیر کے معیار پر بھی سولات اٹھائے جارہے ہیں، کیوں کہ کچھ دن قبل میڈی گڈہ پُل کے چند پلرس زمین میں دھنس گئے ہیں، اس پر بھی ریاستی حکومت سوالات کے گھیرے میں ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں ریاستی حکومت پر اس منصوبے میں رشوت خوری کے الزامات لگا رہی ہیں، ان الزامات کو صَرفِ نظر کیا بھی جاتا ہے تو کیا یہ منصوبہ ریاستِ تلنگانہ کے لیے واقعی فائدہ مند ہے، جبکہ سارے اعداد و شمار اس کی نفی کر رہے ہیں؟
***
***
کالیشورم پراجیکٹ کی معاشیات کو جانیں گے تو ہمارا سر چکرا جائے گا کیونکہ اس منصوبے میں کئی بڑے پانی کے پمپ ہیں جن کو چلانا بھی ایک بہت بڑا کام ہے، ان پمپس کو چلانے کے لیے تقریباً 5,900 میگاواٹ بجلی درکار ہے، اتنی بڑی مقدار میں بجلی کی طلب کہاں سے پوری کی جائے گی یہ بھی ایک سوال ہے۔ ریاست میں دیگر ضروریات کے لیے ہی بجلی ہابر سے خریدی جارہی ہے، اب اس منصوبے کے لیے بجلی کی پیدوار کوئی آسان اور معمولی بات نہیں ہے، اسی لیے اس منصوبے کے لیے بھی بجلی خریدی جارہی ہے، فرض کریں کہ موسم برسات میں پمپس کو دو ماہ تک 24 گھنٹے مسلسل چلانے کی ضرورت پڑتی ہے تو 24 گھنٹے میں بجلی کی کل کھپت 849 کروڑ یونٹ ہوگی۔ اگر ہم 8 روپے فی کلو واٹ بجلی چارج کرتے ہیں تو سالانہ بجلی کا خرچ 7 ہزار کروڑ ہوگا، اور اگر اس منصوبے سے 15 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جاتا ہے تو اس کے لیے بجلی کی لاگت تقریباً 46,666 روپے فی ایکڑ سال بھر میں آئے گی۔ وزیر اعلیٰ چندر شیکھرراؤ نے اس منصوبے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے لیے تقریباً 5000 کروڑ روپے سالانہ بجلی کا خرچ ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023