خواجہ یونس کیس ‘حکومت سرکاری وکیل کے تقرر پر مجبور

مقتول کےوالد قانونی جنگ لڑتے ہوئےزندگی کی جنگ ہارگئے

ایم آئی شیخ، ممبئی

اور اب ماں میدان میں ۔۔کیس کی سنوائی 3 اگست کو مقرر
ہندوستان میں عام شہریوں کو جو حقوق حکومت کی طرف سے ملتے ہیں ان ہی حقوق کو حاصل کرنے کے لیے اقلیتوں کو عدالت میں جاکر لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ فلاحی ریاست میں تعلیم، علاج اور انصاف کی مفت فراہمی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن سیکولر حکومت میں ان تینوں چیزوں کے لیے پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ خواجہ یونس کے قتل کا ہے۔ان کا قتل مہاراشٹر پولیس کے 14لوگوں نے مل کر کیا تھا۔ اس معاملہ میں خواجہ یونس کے والدین نے جو قانونی لڑائی لڑی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ قانونی جنگ لڑتے لڑتے خواجہ یونس کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن والدہ آسیہ بی بی آج بھی عدالتوں میں یہ مقدمہ مضبوطی سے لڑ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے بادل ناخواستہ ہی سہی ریاستی حکومت کو اس معاملے میں نئے سرکاری وکیل کا تقرر کرنا پڑا۔
مسلم نوجوانوں پر پولیس کے مظالم کی خواجہ یونس ایک ایسی مثال ہے جس سے ایک مہذب معاشرے کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرجانا چاہیے، جس کی تفصیلات سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔
خواجہ یونس کی عمر اس وقت محض 27سال تھی جب انہیں مہاراشٹر پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ یہ گرفتاری ممبئی کے گھاٹ کوپر میں ہوئے بم دھماکے کے سلسلے میں کی گئی تھی۔ گھاٹ کوپر دھماکہ 2دسمبر 2002 کو ہوا تھا جس میں دو افراد ہلاک اور 39زخمی ہوئے تھے۔ خواجہ یونس پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور دبئی میں ملازمت کرتے تھے وہ تعطیلات گزارنے وطن واپس آئے تھے۔ اس دوران انہیں بدنام زمانہ پولیس افسر سچن واجھے نے پکڑ لیا جو اس وقت جیل میں ہے۔ واجھے نے 25دسمبر 2002کو اس کیس میں محض شک کی بنیاد پر خواجہ یونس کو گرفتار کرکے ان پر پوٹا لگادیاتھا۔ خصوصی عدالت نے انہیں تمام الزامات سے باعزت بری کردیا تھا۔ پھر بھی پولیس نے جرم قبول کروانے کے لیے ان پر اتنا تشدد کیا کہ حراست میں ہی ان کی موت ہوگئی۔
واجھے اور دیگر پولیس اہلکاروں نے خواجہ یونس کے کپڑے اتار کر بیلٹ سے اس قدر مارا کہ ان کے منہ سے خون نکل آیا اور وہ دوران حراست جاں بحق ہوگئے۔ اس بات کی شہادت پولیس کی حراست میں موجود ایک اور شخص نے دی۔ خواجہ یونس کے دم توڑتے ہی واجھے اور اس کے ساتھی گھبرا گئے اور ہڑبڑاہٹ میں اسے سرکاری جیپ میں لے کر تفتیش کے بہانے اورنگ آباد کے لیے روانہ ہوگئے۔ 7جنوری 2003کو یہ لوگ خواجہ یونس کی لاش لے کر اورنگ آباد کے لیے نکلے اور راستے میں جیپ کو الٹ دیا اور یہ کہانی بیان کی کہ جیپ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور خواجہ یونس فرار ہوگیا۔ اس کی لاش کو ٹھکانے لگاکر انہوں نے خواجہ یونس پر ہی الٹا فرار ہونے کا ایف آئی آر درج کروایا دیا جسے بعد ازاں بمبئی ہائی کورٹ نے منسوخ کردیا ۔ اس کے لیے بھی خواجہ یونس کے والد کو ہی عدالت جاکر واجھے کےخلاف قانونی لڑائی لڑنی پڑی۔
اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی مہاراشٹرا پولیس خاموش رہی، اسی لیے خواجہ یونس کے والد کو دوبارہ بمبئی ہائی کورٹ سے رجوع ہوکر تحقیقات کا مطالبہ کرنا پڑا، جسے عدالت نے قبول کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ خواجہ یونس کے کیس میں تفتیش کی جائے تب جاکر مہاراشٹر حکومت نے 2004میں پولیس انسپکٹر واجھے کو معطل کر دیا اور کیس کی تفتیش سی آئی ڈی کرائم کو سونپ دی۔
اسی رٹ پٹیشن میں بمبئی ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو خواجہ یونس کے والد کو 17لاکھ روپے کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
یہاں اس بات کی ستائش کرنی ہوگی کہ سی آئی ڈی کرائم کے افسروں نے انتہائی دیانتداری کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے اس معاملہ کی جانچ کی اور 14پولیس ملازمین کو اس کے لیے موردالزام ٹھہراتے ہوئے ان پر عدالت میں چارج شیٹ د اخل کرنے کی اجازت طلب کی لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل نے انسپکٹر واجھے اور صرف تین پولیس ملازمین کے خلاف ہی چارج شیٹ داخل کرنے کی اجازت دی۔
حکومت نے 2ستمبر 2015کو اس کیس کی پیروی کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ دھیرج میراجکر کو مقرر کیا۔ ایڈوکیٹ دھیرج نے انتہائی ایمانداری کے ساتھ اس کیس کی پیروی کی اور جب انہیں محسوس ہوا کہ اس کیس میں اور بھی 4 لوگوں پر چارج شیٹ ہونی چاہیے تو انہوں نے ریٹائرڈ پولیس افسر پرافل بھوسلے اور دیگر تین پولیس ملازمین کو عدالت سے سمن جاری کروایا جو ریاستی وزیر داخلہ کو بڑا ناگوار گزرا۔ لہٰذا ریاستی وزیر داخلہ نے اس کیس کو 2018تک لٹکادیا اور خاموشی سے سرکاری وکیل دھیرج میراجکر کو اس کیس سے ہٹادیا۔ مقتول کی والدہ نے یہ الزام لگایا ۔
اس کیس میں حکومت کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد سے 2018تک صرف ایک گواہ کی سنوائی ہوئی جو 2009میں ہوئی اور اس کے بعد سے یہ کیس سرکاری وکیل کے عدم موجودگی کی وجہ سے عدالت میں زیر التوا رہا۔ اسی بیچ خواجہ یونس کے والد کا انتقال ہوگیا پھر بھی ان کی والدہ نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک اس معاملے کی لگاتار پیروی جاری رکھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاستی حکومت کو گزشتہ ہفتہ اس کیس کی اگلی سنوائی کے لیے دوبارہ سرکاری وکیل مقرر کرنا پڑا۔ اب ایڈوکیٹ پردیپ گھرت کو اسپیشل پراسکیوٹر کے طورپر نامزد کیا گیاہے۔ اس طرح اس کیس کی سنوائی تین اگست 2022کو ہوگی۔ دیکھتے ہیں خواجہ یونس کی والدہ کی یہ قانونی جنگ آگے کیا رنگ لاتی ہے؟
سچن واجھے 1990بیج کے سب انسپکٹر ہیں جن کا شروع ہی سے ریکارڈ خراب رہا ہے۔ ان کے سرپر 60لوگوں کے انکاونٹر کا بھاری بوجھ ہے۔ 2004میں معطل ہونے کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ عدالتی کارروائی سے بچنا ناممکن ہے تو 2007میں انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا لیکن عدالتی تحقیقات کے باعث وہ منظور نہ ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’سیاست بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہے‘‘۔اس بات کو سچ ثابت کرتے ہوئے انہوں نے 2008میں دسہرہ کے دن ممبئی میں شیوسینا میں شمولیت اختیار کرلی جس کا انعام انہیں یہ ملا کہ شیوسینا کی قیادت میں مہاراشٹر میں دوبارہ جب حکومت بنی تو انہیں 2020میں نہ صرف دوبارہ نوکری پر بحال کیا گیا بلکہ کرائم برانچ میں پوسٹنگ بھی مل گئی اور ان کے ساتھی تین پولیس ملازمین راجندر تیواری، سنیل دیسائی اور راجا رام نکم کو بھی دوبارہ ملازمت پر لے لیا گیا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
سچن واجھے جب دوبارہ ملازمت پر آئے تو اُن کی خود اعتمادی آسمان کو چھونے لگی تھی۔ اب وہ دوگنی طاقت سے اپنے جوہر دکھانے لگے تھے اور پھر وہ جبری وصولی کے معاملے میں جیل گئے ہیں اور اس بار وہ اکیلے نہیں گئے بلکہ ریاستی وزیر داخلہ انل دیشمکھ کو بھی ساتھ لے گئے ۔ واجھے اس وقت جیل میں ہے اور اپنے جرائم کی سزا کاٹ رہا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022