!خواتین کے احتجاج پر صرف سیاست ہوگی یا انصاف بھی

اخلاقی اور انسانی معیارات کے معاملات کو مذہبی رنگ دینے کی سازش

شبانہ جاوید ،کولکاتا

بنگال کی مظلوم خواتین کے آنسو وزیر اعلیٰ پوچھیں گے یا وزیر اعظم ؟سیاست تیز ہے
ملک میں امسال ہونے والے لوک سبھا الیکشن سے پہلے مختلف ریاستوں میں کئی ایسے مسائل دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں اور برسر اقتدار جماعت دونوں ہی آمنے سامنے ہیں اور سیاست بھی خوب کی جا رہی ہے لیکن ان سب کے ساتھ اگر بنگال کی بات کی جائے تووہاں سندیش کھالی کا معاملہ جس طرح سرخیوں میں رہا وہ اپنے آپ میں ایک حیران کن بات ہے۔ قومی سطح پر ان دنوں سندیش کھالی کا معاملہ بہت گرمایا جارہا ہے۔ہر نیوز چینل اوراخبارات میں سندیش کھالی پر ہی گفتگو ہورہی ہے اور سیاسی روٹیاں بھی خوب سینکی جا رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر سندیش کھالی کا معاملہ کیا ہے اور کس طرح اس معاملے نے طول پکڑا اس رپورٹ میں ان تمام حقائق کو سامنے رکھنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر بنگال میں اس طرح کی تحریک سیاسی رنگ کیوں لیتی ہے اور سیاسی لیڈروں کو اس کا کتنا فائدہ پہنچتا ہے ؟
یادرہے کہ مغربی بنگال اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لیے ہمیشہ سرخیوں میں رہا ہے۔ بنگال میں اس طرح کی تحریکیں اور احتجاج وغیرہ سیاسی میدان میں تبدیلی کی لہر پیدا کرتی ہیں ۔ ممتا بنرجی نے بھی اسی تبدیلی کی لہر سے اپنی سیاسی سفر کی شروعات کی تھی اور لگاتار تیسری میعاد کے لیے جیت حاصل کرنے کا سلسلہ برقرار رکھا۔ ممتا بنرجی نے بنگال کی سیاست میں اس وقت قدم رکھا تھا جب بنگال میں بائیں بازو کا بول بالا تھا لیکن سنگوراور نندی گرام تحریک نے تبدیلی کی لہر کو تیز کیا جس نے ممتا بنرجی کے لیے لیفٹ کے مضبوط اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کی راہ ہموار کی۔ اب بی جے پی اسی روایت کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ چنانچہ 2021 کے بنگال اسمبلی الیکشن میں بی جے پی ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس نے لیفٹ اور کانگریس کو کنارے کردیا۔ مغربی بنگال اسمبلی میں لیفٹ اور کانگریس کا ایک بھی نمائندہ نہیں ہے۔ اب بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ بنگال کی حکومت بنا سکے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب سندیش کھالی کا معاملہ سرخیوں میں آیا تو بی جے پی نے اس پر اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے ساتھ مرکزی قیادت بھی سرگرم ہوئی ہے، کیونکہ بی جے پی کو لگتا ہے کہ اسی طرح 17 سال پہلے ممتا بنرجی نے بھی نندی گرام تحریک شروع کی تھی اور نندی گرام میں 14 مارچ 2007 کو پولیس کی گولی سے جس طرح سے 14 لوگوں کی جانیں گئی تھیں، اسی حادثے نے لیفٹ کو تہس نہس کردیا تھا لیکن لمبی لڑائی لڑنے کے بعد ممتا بنرجی نے بایاں محاذ والی حکومت کو بھلے ہی اکھاڑ پھینکا تھا مگر آج بھی بنگال کی سیاست میں اسی لیفٹ پالیسی کی چھاپ نظر آتی ہے۔ تبدیلی کے باوجود بنگال میں وہی سب دیکھنے کو ملا ہے جو برسوں سے چلتا آرہا تھا یعنی مار پیٹ، دادا گیری، لوگوں کو پریشان کرنا، اپوزیشن کو ختم کرنا، لوگوں کی زمینوں و جائیدادوں پر قبضہ کرنا، اگر کوئی آواز اٹھانے کی کوشش کرے تو اسے خاموش کر دینا اور سب سے بڑی بات یہ کہ پولیس کا پورا پورا استعمال کرنا اور جب الزام سرکار کی جانب آئے تو یہ بیان دے کر دامن بچا لینا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سازش ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ اگر کہیں سیاسی تشدد دیکھنے کو ملتا ہے تو وہ مغربی بنگال میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پہلے کانگریس کے اقتدار میں پھر لیفٹ اور اب ترنمول کے دور اقتدار میں بھی تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔یہ ایسی ریاست ہے جہاں سیاسی تشدد رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ممتا بنرجی پر الزام ہے کہ وہ سیاسی تشدد کو روکنے میں ناکام ہیں اسی لیے اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سندیش کھالی معاملہ ممتا بنرجی کے لیے الٹی گنتی شروع کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی کیا یہ ہندو مسلم تشدد ہے، کیا اس معاملے میں خاص طبقے کی خواتین کو ٹارگٹ کیا گیا اور کیوں اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے یہ تمام باتیں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی سیاست میں بی جے پی ایک مضبوط سیاسی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے مرکز میں دو بار سرکار بنانے کے ساتھ بی جے پی نے تیسری میعاد کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی ہے لیکن بی جے پی صرف مرکز تک ہی محدود نہیں ہے دیگر ریاستوں میں بھی مضبوط سے مضبوط تر ہونے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے اور اس کوشش میں کہیں نہ کہیں بی جے پی کو کامیابی بھی ملی جبکہ بنگال میں زبردست کامیابی کے باوجود بھلے ہی سرکار بنانے میں ناکام رہی ہو لیکن اس نے اپنی جڑیں یہاں مضبوط کی ہے اور دیگر ریاستوں کی طرح بنگال میں بھی اس نے اپنی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لائی ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ مختلف ریاستوں میں سی بی آئی اور ای ڈی کے نام پر دیگر جماعتوں کے لیڈروں پر دباؤ بنانے کی کوشش کی گئی۔ دیگر ریاستوں کی طرح بنگال میں بھی ای ڈی اور سی بی آئی کی سرگرمیاں دیکھنے کو ملی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جانچ ایجنسیوں کو یہاں بہت کچھ متعلقہ مواد بھی حاصل ہوا ، جیسے تعلیمی گھوٹالہ، ٹیچروں کی تقرری میں ہونے والی بدعنوانی جس نے ریاستی وزیر پارتھو چٹرجی کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ وہیں مویشی اسمگلنگ معاملے میں ممتا بنرجی کے خاص اور مضبوط لیڈر انوبرتو منڈل بھی بری طرح پھنسے اور وہ بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں تو دوسری جانب کوئلہ مافیا بدعنوانی معاملے میں ممتا بنرجی کے بھتیجے اور ایم پی ابھیشیک بنرجی کو بھی ذمہ دار مانا جاتا ہے اور انہیں اس معاملے میں سی بی آئی اور ای ڈی کے سامنے پیش بھی ہونا پڑا ہے۔ اور بھی کئی معاملے ہیں، لیکن جس معاملے نے سندیش کھالی کو سرخیوں میں لایا وہ تھا راشن بدعنوانی معاملہ۔ جب راشن معاملے کی چھان بین ہوئی تو وزیر خوراک جیوتی پریہ ملک کو بھی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا ۔الزام یہ ہے کہ پچھلے دس برسوں میں بیس ہزار کروڑ کا راشن گھوٹالہ کیا گیا اور اسی معاملے میں وزیر جیوتی پریہ ملک کے قریبی ساتھی شیخ شاہ جہاں کا نام سامنے آیا اور جب ای ڈی کی ٹیم پوچھ تاچھ کے لئے شیخ شاہ جہاں کے گھر پہنچی تو سندیش کھالی کے لوگوں نے ای ڈی کی ٹیم پر حملہ کر دیا، ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی اور کچھ مارپیٹ بھی ہوئی جس کے نتیجے میں کئی ای ڈی اہلکار زخمی ہوگئے۔ اس پورے معاملے میں پولیس کے رول کو بھی حیران کن بتایا جا رہا ہے۔ بعد میں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی یہ کہتی نظر آئیں کہ ہم کیا کریں یہ شاہ جہاں کی عوام میں مقبولیت ہے اس لیے لوگوں کا یہ رد عمل سامنے آیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر شاہ جہاں کون ہے اور کیسے یہ اتنا طاقت ور ہوگیا کہ اس سے پوچھ تاچھ کے لیے جانے والے ای ڈی اہلکاروں کو عوام کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا ؟ بتادیں کہ شاہ جہاں سندیش کھالی کا باشندہ ہے۔ اس کے چاچا سی پی ایم کے ایم ایل اے تھے۔ اس کا خاندان مچھلی کا کاروبار کرتا ہے اس خاندان پر الزام ہے کہ یہ لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے اس پر مچھلی کا کاروبار کرتا ہے۔ شیخ شاہ جہاں سندیش کھالی اور اس کے آس پاس کے علاقے میں کافی مقبول ہے۔ سی پی ایم کے زوال کے بعد شاہ جہاں نے ٹی ایم سی جوائن کیا اور ٹی ایم سی میں رہتے ہوئے وہ اتنا دبنگ بنا کہ اس نے پورے علاقے میں اپنی دھاک مضبوط کر لی۔ سندیش کھالی معاملے پر شاہ جہاں کے ساتھ پوچھ تاچھ کرنے میں سی بی آئی ناکام رہی۔ ساتھ ہی پولیس میں رپورٹ درج کرانے کے باوجود پولیس اب تک شاہ جہاں شیخ کو ڈھونڈھ نہیں پائی۔ شاہ جہاں شیخ فرار تھا اور ای ڈی کی جانب سے اس کی تلاش کے لیے پولیس پر دباؤ بنایا جارہا تھا اور شاید یہ معاملہ کچھ دنوں میں ختم بھی ہو جاتا لیکن معاملہ تب سرخیوں میں آیا جب اچانک 8؍ فروری کو سندیش کھالی میں خواتین کا احتجاج شروع ہوا اور ایک بڑی تعداد میں خواتین جھاڑو ، چپل کے ساتھ احتجاج کرتی نظر آئیں جس نے پورے ملک کے لوگوں کو حیران کر دیا کیونکہ یہ خواتین ہاتھ میں جھاڑو ڈنڈا اٹھا ئے سڑکوں پر نعرے لگاتی، چیختی چلاتی کہہ رہی تھیں کہ شاہ جہاں شیخ اور اس کے دو ساتھیوں نے پورے علاقے کے لوگوں کو دہشت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ خواتین کا الزام تھا کہ شاہ جہاں شیخ، شیبو پرشاد ہازرہ، اور اتم سردار نے ظلم و جور کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔یہ تینوں ٹی ایم سی کے مضبوط لیڈر تھے اور آپس میں دوست بھی تھے انہوں نے خواتین کے ساتھ نہ صرف بد سلوکی کی بلکہ برسوں سے مقامی خواتین ان تینوں کے ظلم و ستم کا سامنا کررہی تھیں۔
شاہ جہاں شیخ کا نام تو پہلے ہی سب کی زبانوں پر تھا ای ڈی کے اہل کار اسے ڈھونڈھ بھی رہے تھے، ایسے میں خواتین کے الزامات نے اس پورے معاملے کو چنگاری میں بدل دیا۔دوران احتجاج خواتین کا الزام یہ بھی تھا کہ وہ پچھلے کئی برسوں سے ان کے ظلم کا سامنا کررہی ہیں۔ خواتین کو پارٹی آفس میں کئی دنوں تک قید کرکے رکھا جاتا ہے ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے ان کے گھر والوں کو مارا پیٹا جاتا ہے خواتین کی ان کے گھر والوں اور ان کے شوہر کے سامنے تک بد سلوکی کی جاتی ہے، ساتھ ہی خواتین منہ نہ کھولیں اس کے عوض پیسے کی بھی پیشکش کی جاتی۔ نہ مانیں تو پھر انہیں دھمکیاں دی جاتیں اور ان کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی جاتی تھی۔
غور کریں کہ اتنے سارے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے یہ بارسوخ لوگ برسر اقتدار جماعت ترنمول کانگریس کے لیڈر تھے۔ 2011 میں جب ترنمول کانگریس اقتدار میں آئی تب سے یہاں یہ سب ہو رہا تھا ۔پچھلے دنوں خواتین کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کے بعد معاملے نے طول پکڑلیا۔ احتجاج کرنے والی خواتین نے اگلے دن شیبو ہاجرہ کے املاک میں آگ لگا دی۔ ریاستی گورنر خواتین سے ملنے کے لیے پہنچیں لیکن حکومت پر الزام ہے کہ گورنر کو خواتین سے ملنے سے روکا گیا۔ خواتین کا کہنا تھا کہ جس دن گورنر آنے والے تھے انہیں پولیس کی جانب سے گاؤں سے باہر نہیں جانے دیا جا رہا تھا ملنے کے لیے جانے نہیں دیا جا رہا تھا لیکن کسی طرح ہم نے زور لگا کر گورنر سے ملنے میں کامیابی حاصل کی اور گورنر کے سامنے اپنے درد و تکلیف کو بیان کیا۔ خواتین کے مطابق وہ لوگ کئی برسوں سے تشدد کا سامنا کر رہی ہیں اور صرف چند خواتین نہیں بلکہ پورا کا پورا گاؤں اس طرح کے حالات کا شکار ہے۔ ان کے مطابق ہمارے علاقے میں ایک ٹیچر تھے جو اسکول میں پڑھاتے تھے ان کی بیوی کو شیبو ہاجرہ پکڑ کر پارٹی آفس لے گیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد اسکول ٹیچر گاؤں چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے مطابق اگر کوئی ان کا کہنا نہیں مانتا تھا تو انہیں مارا جاتا تھا ان کے گھر کے مردوں کو بھی مارا جاتا تھا۔ شاہ جہاں دھمکی دیتا تھا کہ اگر ان کی بات نہیں مانی جائے گی تو رات کو آئیں گے تشدد کے ساتھ ساتھ ان کی زمینوں پر بھی قبضہ کر لیا جاتا تھا۔ خواتین کے مطابق پولیس بھی ان کی شکایتیں نہیں سنتی تھی بلکہ ان کی شکایتوں کو پھاڑ کر پھینک دیا جاتا تھا اور اگلے دن انہیں دوبارہ تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ خواتین کے مطابق ای ڈی کے ساتھ مار پیٹ کے بعد جب شاہ جہاں اور اس کے ساتھی علاقے سے فرار ہوئے تو انہیں ان کے خلاف احتجاج کا موقع ملا ۔
خواتین کے مذکورہ احتجاج کے بعد اس پورے معاملے نے نہ صرف لوگوں کو حیران کیا بلکہ سیاسی جماعتوں کے لیڈر بھی ایک کے بعد ایک اس علاقے میں خواتین سے ملنے کے لیے پہنچے، لیکن اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو جانے نہیں دیا گیا۔ وزیر اعلی ممتا بنرجی نے ایک کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی کے لوگوں نے یہاں کی خواتین سے ملاقات کی اور بعد میں یہ کہا گیا کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں خواتین نے اس طرح کی کوئی شکایت کمیٹی کے سامنے نہیں کی ہے۔ بی جے پی نے اس علاقے میں احتجاج کیا اور خواتین سے ملنے کی کوشش کی بی جے پی کا الزام ہے کہ ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی کانگریس اور لیفٹ نے بھی اسی طرح کا الزام سرکار پر لگایا۔ اس پورے معاملے پر سیاست بھی تیز ہو گئی۔ بی جے پی کی مرکزی کمیٹی کے لیڈروں نے بھی سندیش کھالی معاملے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔
اب اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے اس پورے معاملے کو فرقہ ورانہ رنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایک خاص طبقے کی خواتین یعنی ہندو خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاستی خواتین کمیشن کے ساتھ ساتھ مرکزی خواتین کمیشن کے اراکین نے بھی اس پورے علاقے کا 13 فروری کو دورہ کیا اور اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا کہ سندیش کھالی کے خواتین نے جو الزام لگایا ہے وہ درست ہے۔ پولیس بھی اس پورے معاملے میں ذمہ دار ہے جس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی ان کے ساتھ تشدد کیا، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا گیا ان کے گھروں کے مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی ہے کہ ایک خاتون نے شکایت کی کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن بعد میں اس خاتون نے تحفظ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا بیان ڈیلیٹ کروا دیا اور ایسے میں الزام یہ بھی ہے کہ بنگال پولیس اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر اور ایم پی سوکانت مجمدار کو سندیش کھالی جانے کے دوران روکا گیا جس کے بعد پولیس کے ساتھ جھڑپ میں انہیں چوٹیں آئیں اور ہسپتال میں داخل کرایا گیا جس کے بعد لوک سبھا کی کمیٹی نے بنگال پولیس کے خلاف کاروائی شروع کی۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے بھی اس پورے معاملے پر نوٹس جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 20 فروری کو شکایت پر سنوائی کی جس میں سندیش کھالی کی جانچ بنگال سے باہر کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 17؍ فروری کو ضلع مجسٹریٹ کے سامنے ایک خاتون نے شکایت درج کی جس میں کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے حالانکہ ترنمول کانگریس نے الزامات کو غلط بتایا ہے جبکہ شيبو ہاجرہ کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ کیوں دیا جا رہا ہے۔ یہاں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بنگال سے لوک سبھا کی 42 سیٹیں ہیں وہیں بی جے پی کی کوشش ہے کہ اس بار کم از کم بنگال سے 35 سیٹیں جیتنی ہیں۔ ساتھ ہی ممتا کا خواتین ووٹ بینک بہت مضبوط ہے۔ ممتا بنرجی نے خواتین کے لیے کئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے لڑکیوں کے لیے اور خاص کر خواتین کے لیے لکشمی بھنڈار اسکیم کے تحت ہر مہینے پانچ سو روپے دیے جانے کی شروعات کی ہے جسے امسال بڑھا کر ایک ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں ممتا بنرجی کے لیے خواتین اور مسلمانوں کے ووٹ کافی اہم ہیں۔ ممتا بنرجی ان کے سہارے ہی اپنی جیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ وہیں سندیش کھالی معاملے پر وزیر اعلی ممتا بنرجی کی خاموشی پر بی جے پی سوال اٹھا رہی ہے ساتھ ہی وزیر اعظم بھی ان دنوں خواتین کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ خواتین خصوصا قبائلی خواتین کے ساتھ وزیر اعظم کی میٹنگ کو کافی اہم مانا جارہا ہے۔ وزیر اعظم 7؍ مارچ کو سندیش کھالی کا دورہ کریں گے اور وہاں کی خواتین کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ الیکشن سے پہلے جس طرح سے شاہ جہاں کا معاملہ سامنے آیا اور جس طرح سے کرپشن کا معاملہ سامنے آیا وہ ممتا بنرجی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پورے معاملے کو وزیر اعلی وہ کس طرح حل کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا لوک سبھا الیکشن سے پہلے شاہ جہاں شیخ گرفتار ہوگا یا ترنمول پارٹی کی جانب سے اس کے تعلق سے کوئی بڑا بیان سامنے آئے گا کیونکہ شاہ جہاں شیخ کو لے کر بی جے پی پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہے۔ شاہ جہاں کے ساتھ بی جے پی لیڈر شوبھندو ادھیکاری کی تصویریں بھی عام ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندیش کھالی کی خواتین کو انصاف دلانے میں وزیر اعلی ممتا بنرجی یا وزیراعظم کامیاب ہوتے ہیں یا اپنی اپنی سیاسی روٹیاں سینک کر خاموش رہ جاتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024