خبرو نظر

پرواز رحمانی

ترکیہ اور سعودی عرب
سعودی عرب اور ترکیہ کے تعلق سے ایک بڑی خوش آئند خبر آئی ہے کہ دونوں ملکوں نے حکومتوں کے تمام شعبوں میں باہمی تعاون کو وسیع اور مضبوط بنانے پر زور دیا ہے۔ اقتصادی ترقی اور باہمی سلامتی کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاہدے ہوئے۔ دراصل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تین ملکوں مصر اردن اور ترکیہ کا ایک ساتھ دورہ کیا۔ اول الذکر دو ملکوں کے بعد وہ 22 جون کو انقرہ پہنچے جہاں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے ان کا پرتپاک استقبال کیا، پھر دونوں سربراہوں میں مختلف امور پر اہم ترین مذاکرات ہوئے۔ بن سلمان نے ترکیہ کے صدر کو سلمان بن عبدالعزیز شاہ سعودی عرب کی جانب سے تہنیتی پیغام پیش کیا۔ یہ تو نہیں معلوم ہو سکا کہ دونوں سربراہوں میں عالمی امور پر بھی کوئی بات ہوئی یا نہیں۔ خاص طور سے امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر۔ عربی اور انگریزی میڈیا نے ایسی کوئی خبر نہیں دی۔ خیال ہے کہ امت کے امور پر کوئی بات نہیں ہوئی ہو گی کیوں کہ ایجنڈا محدود تھا۔ وہ تو مذاکرات میں اردگان کی شرکت کی وجہ سے ذہن بار بار اس طرف جا رہا ہے ورنہ ایجنڈے سے باہر کسی اور امر پر گفتگو کا موقع نہیں رہا ہو گا۔

دورے کی اہمیت
سعودی عرب کے ولی عہد اور صدر ترکیہ کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی جب دنیا میں اہل اسلام سخت آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔ کچھ ملکوں میں تو اسلام اور اسلامی شخصیات کو ہدف ملامت بنالیا گیا ہے۔ وہاں کی حکومتیں خاموش ہیں۔ مال دار مسلم ملکوں کو اس صورت حال سے کوئی دلچسپی نہیں۔ صرف مسلم ملکوں کے عوام بے چین ہیں، کچھ ملکوں میں احتجاج بھی ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومتوں اور حکمرانوں کو بھی کچھ بولنے کی توفیق ہو جاتی ہے۔ سعودی ولی عہد کو بھی مسلم ملکوں کے دورے کی ضرورت شاید اس لیے پیش آئی کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کی دوستی میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ گرد وپیش کا انہیں کوئی خیال نہیں رہ گیا تھا۔ ان کی کوشش تھی اور اب بھی ہے کہ سعودی مملکت کو جلد از جلد مغربی طرز کا سا ملک بنا دیں۔ اسرائیل سے متصل ایک شہر کا تجربہ تو وہ کر ہی رہے ہیں جو پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا ماڈرن سٹی ہو گا جہاں دنیا بھر سے اوباش قسم کے لوگوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں آسکیں گی۔ اب ولی عہد کو شاید یہ احساس ہوا ہے کہ یہ بہت زیادہ ہو گیا، مسلم دنیا سے بھی تعلقات رہنے چاہیں اسی لیے تین مسلم ملکوں کا دورہ کیا۔ ان میں بھی قابل ذکر بس ایک ملک ہے ترکیہ۔

یہ بہتر مثال ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی ولی عہد نے ترکیہ کا دورہ اور رجب طیب اردگان سے دو طرفہ امور پر مذاکرات کر کے ایک بہترین مثال قائم کی ہے۔ اس سے دوسرے مسلم ملکوں میں بھی حرکت پیدا ہو گی۔ ترکیہ مسلم دنیا کا اہم ترین ملک ہے۔ عالمی مسلم امور میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ اگر ترکیہ اور سعودی مملکت کے مابین قریب تر تعلقات کی سطح اسی طرح بڑھتی ہے تو اس سے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ مجموعی طور پر پوری دنیا پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ دیگر ملکوں ایران، انڈیا، چین اور پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات بڑھنے چاہئیں تاکہ عالمی برادری کا دائرہ پھیل سکے۔ مسلم ملکوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کا دائرہ وسیع کرنا سعودی مملکت کی اپنی ضرورت بھی ہے۔ گزشتہ دو تین برسوں میں ولی عہد نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ جدید طرز پر مراسم قائم کر کے دیگر جمہوری ملکوں سے غیر ضروری تعلقات بڑھا کر مسلم دنیا میں اچھا تاثر پیدا نہیں کیا۔ اب ترکی کے ساتھ تعلقات سے یہ تاثر بھی ختم یا کم ہوسکتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ مسلم ملکوں کے مابین ، مضبوط اور خوشگوار تعلقات قائم ہوں تاکہ پوری دنیا کو ان سے فائدہ ہوسکے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022