خبرونظر

پرواز رحمانی

وزیر اعظم مودی کا انتخابی طریقہ
دبئی میں مندر کے ادگھاٹن کے بعد خیال تھا کہ اب بی جے پی کے ہندو بھی مسلمانوں کے بارے میں اپنا طرز عمل تبدیل کریں گے اور گزشتہ دس سال سے مسلم شہریوں کے ساتھ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اب نہیں کریں گے۔ مگر یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ یہ خیال اس وقت بھی پیدا ہوا تھا جب وزیر اعظم مودی کو سعودی عرب کی حکومت نے نیشنل ایوارڈ دیا تھا۔ اس ایوارڈ کے بعد بھی خیال تھا کہ خود مودی شرپسندوں کو کنٹرول کریں گے تاکہ اندرون ملک سماجی حالات بہتر ہوں۔ عام لوگوں پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور عالمی سطح پر ہندوستان اور باقی دنیا کے مسلمانوں کے مابین خوشگوار ماحول بنے گا لیکن یہ خیال بھی محض خیال ثابت ہوا۔ نہ بی جے پی کے ہندو بدلے نہ حکومت نے اس کا کوئی اچھا اثر قبول کیا اور سچی بات یہ ہے کہ خود عربوں کے پیش نظر بھی ایسا کوئی مقصد نہیں تھا۔ وہ منصب دعوت کو کیا نبھاتے الٹا سرزمین توحید کو شرک سے آلودہ کر دیا اور اس کے عوض کوئی معمولی مفید کام بھی نہیں کیا۔ ہمارے ملک میں تو وہ لوگ برسر اقتدار ہیں جو ہر قیمت پر اور ہر حالت میں اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ستر سالوں میں وہ مختلف تجربات سے گزرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے لیے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے مگر ناکام رہے۔ بالآخر انہیں بابری مسجد ہاتھ لگی جس پر کچھ عرصے سے رام جنم بھومی ہونے کا دعوٰی کیا گیا جا رہا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں 1990کی دہائی میں رام رتھ یاترا نکالی گئی۔ اس سے پہلے وی پی سنگھ کی حکومت نے منڈل کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ اس سے پورے ملک میں ہل چل مچ گئی تھی۔

ہندتو کی سیاست سے سبھی واقف ہیں
سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی کا الیکشن اسٹینڈ اس بار بھی ہندتو ہے جس کا پہلا اقدام مسلم دشمنی ہے۔ چونکہ تمام فسطائی اور ظالم پارٹیوں کو لائم لائٹ میں آنے کے لیے ایک نقلی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے آر ایس ایس نے یہ دشمن اپنے قیام کے بعد ہی گھڑ لیا تھا۔ آر ایس ایس کے دوسرے گرو گولوالکر نے اپنی کتاب بنچ آف تھاٹس میں صاف صاف لکھا ہے کہ مسلمان ملک کے دشمن سمجھے جائیں گے باوجود اس کے کہ وہ اسی ملک میں پیدا ہوئے لیکن چونکہ ان کا عقیدہ اور کلچر ہندووں سے مختلف ہے اس لیے وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ ہندتو کی یہ تعبیر و تشریح ساری دنیا کو معلوم ہے۔ اس دشمنی پر آج بھی عمل ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کبھی کبھی الیکشن کی خاطر قربت کی بات کرتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ بی جے پی کے ہندو ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اب تو عام ہندووں کے ذہنوں میں بھی یہ بات بٹھا دی ہے کہ مسلمان پچیس تیس سال بعد اس ملک میں اکثریت میں آجائیں گے اور ہندووں کو ختم کردیں گے۔ اس سے زیادہ خطرناک باتیں مسلمانوں کے بارے میں کہی جاتی ہیں لیکن پی ایم مودی ان پر کچھ نہیں کہتے گویا وہ خاموش رہ کر ان باتوں کی تائید کرتے ہیں۔ یہ حقائق پوری دنیا جانتی ہے، عرب ممالک بھی جانتے ہیں لیکن کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتے۔ ویسے بھی عرب بادشاہتیں بہت بدل گئی ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ جا رہی ہیں۔ اسلام اور امت مسلمہ سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ امت مسلمہ کی قیادت، ترکی، ایران، ملائشیا، عربوں میں قطر اور کچھ دوسرے چھوٹے ملکوں کے پاس ہے۔ بادشاہوں، آمروں اور مال داروں نے دین کی حمایت بہت کم کی اصل طاقت عام مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہی ہے اور آج بھی ہے۔ یہ عام مسلمان ہی ہیں جو دنیا بھر میں دین کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔

سناتن دھرم ایسا نہیں ہے
جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے۔ یہاں کی اکثریت سناتن دھرم کو مانتی ہے جو زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس کے اصول و قواعد اپنی جگہ ہیں لیکن آج کی مرکزی حکومت ان پر عمل نہیں کرتی۔ اس نے اپنے لیے ہندو لفظ سے ہندتو نکالا ہے اور اپنے سیاسی و سماجی کاموں کے لیے اسی کا استعمال کر رہی ہے۔ اس میں دھرم کرم، غریبوں اور مزدوروں کی مدد اور پست ذاتوں کے لیے اچھے کام جیسی چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آر ایس ایس کے دوسرے گرو گولوالکر نے جب بنچ آف تھاٹس لکھی تو اس میں سناتن دھرم کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو مسلمانوں کو ادھرم اور بدیشی نہیں کہا جاتا۔ ان سے نفرت نہیں کی جاتی۔ پست ذات والوں کو مارا پیٹا نہیں جاتا۔ اب 2024 کے عام انتخابات کے موقع پر حکمراں پارٹی کا یہ کھیل کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ان انتخابات میں بھی بی جے پی کا کھیل یہی ہے جو شروع بھی ہوچکا ہے۔ سعودی عرب سے نیشنل ایوارڈ لینے اور دبئی میں مندر کے لیے جگہ حاصل کرلینے کے باوجودخود مودی نے وہ سلسلہ جاری رکھا۔ یو پی میں وزیر اعلیٰ نے کئی مسلمانوں کو مروادیا۔ ان کے گھر توڑ ڈالے، انہیں بدنام کیا۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے مسلمانوں کو برا بھلا کہا، گالیاں تک دیں لیکن وزیر اعظم نے کسی کا نوٹس تک نہیں لیا۔ حتیٰ کہ لوک سبھا میں وزیر اعظم کی ناک کے نیچے ان کے ایک ایم پی بھدوڑی نے ایک مسلم ایم پی کو کھل کر گالیاں دیں تب بھی انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور آج تک نہیں لیا بلکہ الٹا انہیں ترقی دے کر راجستھان میں ایک ضلع کا ذمہ دار بناکر بھیج دیا۔ اب بھدوڑی کو لوک سبھا کا ٹکٹ اگر نہیں دیا گیا تو اس لیے کہ وہ بری طرح ہارنے والا تھا۔ وہ جیت نہیں سکتا تھا۔ وزیر اعظم مودی مسلمانوں کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن عملی کوئی ثبوت نہیں ملتا صرف زبانی باتیں ہیں۔