خبر و نظر

پرواز رحمانی

کرنے کا ایک بڑا کام
بڑی مبارک اور خوش آئند بات ہے کہ ہمارے بعض علما اور دانشوروں کو برادران وطن کے ساتھ مزید قربت پیدا کرنے کا احساس ہوا ہے۔ اسی ہفتے ایک بیان میں جمیعۃ علما کے صدر مولانا محمد ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ اپنے مذہبی، سماجی اور ترقیاتی پروگراموں میں غیر مسلم بھائیوں کو بھی مدعو کیا کریں۔ اس سے باہمی قربت بڑھے گی اور نفرت پھیلانے والوں کے حوصلے ٹوٹیں گے۔ مشورہ بہت مفید اور نتیجہ خیز ہے۔ اس کے بعد ہمارے کچھ علما اور دانشوروں نے بھی مولانا مدنی کے مشورے کی تائید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیں غیر مسلم بھائیوں سے زیادہ تعلقات پیدا کرنے چاہئیں۔ مولانا مفتی مکرم احمد، مولانا سید کلب جواد، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس اور جناب تسلیم رحمانی نے مولانا ارشد مدنی کے بیان کی تائید میں کہا کہ اس عمل سے ملک کی ترقی ہوگی اور مسلمانوں کے حالات سدھارنے میں بھی مدد ملے گی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی اس کام کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔ ان حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اس وقت ملک کو سدبھاونا اور بھائی چارے کی بہت ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو یہ کام ہندووں کے ساتھ مل کر کرنا چاہیے۔

بحمداللہ کام ہورہا ہے
الحمدللہ، جماعتوں میں جماعت اسلامی ہند وہ جماعت ہے جس کی توجہ اس کام کی جانب اول روز سے رہی ہے۔ جماعت نے آزادی وطن کے بعد اپنے قیام کے دوران اپنا جو لائحہ عمل تیار کیا تھا، اس میں قومی کشمکش کے خاتمے اور تمام برادران وطن سے از سر نو تعلقات کی استواری کو اولیت حاصل تھی۔ مسلم شہریوں سے یہی کہا گیا تھا کہ جدوجہد آزادی کے دوران ہونے والی کشمکش اور تلخیوں کو بھول کر اب نئے سرے سے ہندووں اور دیگر برادریوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کریں۔ اپنا یہ پیغام سبھی تک پہنچائیں اور اپنے پروگراموں اور اجتماعات میں غیر مسلم شہریوں کو بھی شرکت کی دعوت دیں۔ بحمداللہ اس پر عمل آج بھی ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں جماعت اسلامی دلی پردیش کے حلقے نے مساجد کے تعارف کا پروگرام بڑے پیمانے پر منایاتھا۔ اس دوران کئی مسجدوں میں پروگرام کیے گئے۔ غیر مسلم بھائیوں کو دعوت دی گئی۔ وہ شریک ہوئے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ مسجد کیا ہے، نماز کیا ہے، روزہ کیا ہوتا ہے۔ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ غیر مسلم بھائیوں نے ان پروگراموں میں خوشی خوشی حصہ لیا، پروگراموں کو سراہا اور ایسے پروگرام بار بار کرنے کی بات کہی۔

آپ کہہ سکتے ہیں
کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے پروگرام ہندو بھائیوں کی طرف سے بھی ہونے چاہئیں کیوں کہ نفرت اور ایک دوسرے سے بیزاری پیدا کرنے کا کام انہی لوگوں کی طرف سے ہورہا ہے، بلکہ ان پروگراموں کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ خود مرکزی سرکار ایسے ایسے قانون بنارہی ہے جو مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم بھائیوں کے دلوں میں نفرت اور کدورت پیدا کرتے ہیں۔ سی اے اے، قانون کیا ہے۔ مسلم ملکوں میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کو بلا کر باقاعدہ شہریت دی جارہی ہے لیکن برما کے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ یہی نہیں ہندو دھرم کے بعض بڑے دھرما دھیکاری مسلمانوں کی مقدس شخصیات کے خلاف پوری قوت سے دہاڑتے ہیں، اس صورت میں محبت اور یگانگت کیسے قائم ہوسکتی ہے۔ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن نفرت کا جواب نفرت نہیں۔ محبت ہے۔ آپ اپنے پروگراموں میں غیر مسلم بھائیوں کو پیارو محبت سے بلائیں دیکھیے وہ کیسے آتے ہیں۔ دلی اور کچھ دوسرے شہروں میں مساجد کے تعارف سے بہت سے غیر مسلم متاثر ہوئے، ان کی غلط فہمیاں دور ہوئیں ۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ شر پسند لوگ چند ہی ہوتے ہیں جو میڈیا کی مدد سے اس قدر مشہور ہوجاتے ہیں کہ لوگ انہیں ’’اکثریت‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021