کرناٹک حکومت نے تبدیلیِ مذہب مخالف بل اسمبلی میں پیش کیا، کانگریس لیڈر نے بل کی کاپی پھاڑ ڈالی

نئی دہلی، دسمبر 22: کرناٹک کے وزیر داخلہ اراگا جنیندرا نے منگل کو اپوزیشن کانگریس کے احتجاج کے درمیان بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کا تبدیلیِ مذہب مخالف بل ریاستی اسمبلی میں پیش کیا۔

مذہبی آزادی کے حق کے تحفظ بل 2021 کو ریاستی کابینہ نے پیر کو منظوری دے دی تھی۔

کرناٹک اسمبلی کے اسپیکر وشویشور ہیگڈے کاگیری نے کہا کہ بل پر بدھ کو بحث کی جائے گی۔ وہیں کانگریس لیڈر ڈی کے شیوکمار نے ایوان میں اس بل کی کاپی پھاڑ دی۔

دی نیوز منٹ نے رپورٹ کیا کہ سابق وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف سدارمیا نے الزام لگایا کہ یہ بل غیر قانونی ہے، کیوں کہ یہی آئین کی دفعہ 21 (زندگی اور آزادی کا حق) اور دفعہ 25 (مذہب پر عمل کرنے کی آزادی) کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق مسودہ بل میں خواتین، نابالغوں اور درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ بل کہتا ہے کہ ’’غلط بیانی، زبردستی، دھوکہ دہی، غیر ضروری اثر و رسوخ، جبر، رغبت یا شادی کے ذریعہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں تبدیلی‘‘ ممنوع ہے۔

بسواراج بومائی کی زیرقیادت کابینہ نے ستمبر میں تبدیلیِ مذہب مخالف قانون پر بحث شروع کی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے 29 ستمبر کو دعویٰ کیا تھا کہ ریاست میں زبردستی مذہبی تبدیلیاں عروج پر ہیں۔

تاہم 14 دسمبر کو پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں جنوری اور نومبر کے درمیان کرناٹک میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 39 واقعات درج کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں عبادت کے دوران عیسائیوں پر ہندوتوا گروپوں کی قیادت میں پرتشدد حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کرناٹک میں پولیس نے ان ہندوتوا گروپوں کے ساتھ ملی بھگت کی تھی جنھوں نے ریاست میں عیسائی عبادت گزاروں پر حملہ کیا تھا۔

اتر پردیش، گجرات اور مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت ریاستی حکومتوں نے ’’لو جہاد‘‘ کو سزا دینے کے لیے گذشتہ سال سے تبدیلی مذہب مخالف قوانین نافذ کیے ہیں۔ یہ توہین آمیز اصطلاح ہندوتوا تنظیموں نے اس سازشی تھیوری کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کی ہے کہ مسلمان مرد اسلام قبول کروانے کے واحد مقصد کے ساتھ ہندو خواتین کو خود سے شادی کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔

19 اگست کو گجرات ہائی کورٹ نے ریاست کے تبدیلیِ مذہب مخالف قانون کی کئی شقوں پر روک لگانے کا حکم دیا تھا، جس میں بین المذاہب شادی کو زبردستی تبدیلی کی وجہ قرار دینے والی ایک شق بھی شامل تھی۔ ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔