کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا، کہا کہ حجاب اسلام میں ’’ضروری‘‘ نہیں

نئی دہلی، مارچ 15: کرناٹک ہائی کورٹ نے آج تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر ریاستی حکومت کی پابندی کو برقرار رکھا اور یہ مشاہدہ کیا کہ حجاب اسلام میں لازمی نہیں ہے۔

چیف جسٹس رتو راج اوستھی اور جسٹس کرشنا ایس دکشت اور جے ایم خازی پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے نوٹ کیا کہ ’’یونیفارم کا نسخہ بنیادی حقوق پر ایک معقول پابندی ہے۔‘‘

اڈوپی شہر کے گورنمنٹ ویمنس پری یونیورسٹی کالج کی مسلم طالبات کے ایک گروپ نے عدالت کے سامنے اپنی درخواستوں میں دلیل دی تھی کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پہننا ان کا مذہب کی آزادی کا بنیادی حق ہے۔

جنوری میں انھیں حجاب میں ملبوس ہونے کی وجہ سے کلاسوں میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ طالبات نے احتجاج کیا اور اسی طرح کے مظاہرے ریاست کے دیگر حصوں میں بھی ہوئے۔ 5 فروری کو کرناٹک حکومت نے ایسے کپڑوں پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا تھا جو ’’مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرتے ہیں۔‘‘

11 دن تک درخواستوں پر دلائل سننے کے بعد ہائی کورٹ نے 25 فروری کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ 10 فروری کو ایک عبوری حکم میں عدالت نے ریاست کے طلبا کو اسکولوں اور کالجوں میں اس وقت تک ’’مذہبی لباس‘‘ پہننے سے روک دیا تھا جب تک درخواستوں پر عدالت کا حتمی فیصلہ نہیں آجاتا۔

منگل کو ججوں نے کہا کہ اپنے حکم میں انھوں نے تین سوالات کے جوابات مرتب کیے ہیں:

پہلا یہ کہ آیا حجاب پہننا آئین کی دفعہ 25 کے ذریعے تحفظ یافتہ ایک لازمی مذہبی عمل ہے؟

دوسرا یہ کہ کیا تعلیمی اداروں میں یونیفارم تجویز کرنا شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے؟

تیسرا یہ کہ کیا کرناٹک حکومت کے 5 فروری کے حکم نے آئین کی دفعہ 14 کے تحت متعین قانون کی مساوات کی خلاف ورزی کی ہے؟

تینوں سوالوں پر ججوں نے کرناٹک حکومت کی طرف سے عدالت میں کی گئی عرضیوں کو قبول کیا۔

تقریباً 23 گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعتوں کے دوران کرناٹک حکومت نے عدالت کو بتایا کہ حجاب پہننا اسلام کا لازمی مذہبی عمل نہیں ہے اور اسے پہننے پر پابندی عائد کرنا آئین کی دفعہ 25 کے تحت مذہب پر عمل کرنے اور اس کا دعویٰ کرنے کی آزادی کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریاست میں تعلیمی اداروں کے کیمپس میں حجاب پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور یہ پابندی صرف کلاس رومز کے اندر اور کلاس کے اوقات میں نافذ ہوتی ہے۔

حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی پہلوؤں کو یونیفارم کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔

عدالت کا فیصلہ ان دونوں معاملات پر حکومت کے موقف کے مطابق ہے۔ جہاں تک 5 فروری کو منظور کیے گئے حکومتی حکم کا تعلق ہے، ججوں نے کہا کہ اس ہدایت کو باطل کرنے کے لیے دلائل کے دوران کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا تھا۔

اے این آئی کی خبر کے مطابق ایڈوکیٹ اے ایم دھر، جو درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہوئے، نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

دریں اثنا آج کی سماعت سے پہلے بنگلورو کے پولیس کمشنر کمل پنت نے ضابطہ فوجداری کے ضابطہ اخلاق کی دفعہ 144 کے تحت ہدایات جاری کی تھیں جو پانچ یا اس سے زیادہ اراکین کے جمع ہونے پر پابندی لگاتی ہے۔ اسی طرح کی پابندیاں دکشن کنڑ اور اُڈوپی کے اضلاع میں بھی لگائی گئی ہیں۔

کمشنر نے کہا کہ یہ حکم اس لیے جاری کیا جا رہا ہے کیوں کہ حجاب پر پابندی کی وجہ سے کئی جگہوں پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اس طرح کے احتجاج کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

دکشن کنڑ اور اڈوپی میں بڑے اجتماعات، احتجاجی مظاہروں یا فتح مارچ پر پابندی کے علاوہ کئی اضلاع میں اسکول بھی بند رہیں گے۔