حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر اویسی نے کہا ’’یہ مضحکہ خیز ہے کہ جج ’’ضروری‘‘ مذہبی عمل کا فیصلہ کر سکتے ہیں‘‘

نئی دہلی، مارچ 15: کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ حجاب اسلام میں لازمی عمل نہیں ہے اور اس لیے تعلیمی اداروں کی طرف سے کلاس رومز میں حجاب پہننے پر معقول پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں، لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر نے کہا کہ ’’یہ مضحکہ خیز ہے کہ جج (مذہبی) لازمی عمل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘

اسدالدین اویسی نے کہا ’’میں حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہوں۔ فیصلے سے اختلاف کرنا میرا حق ہے اور مجھے امید ہے کہ درخواست گزار سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ نہ صرف @AIMPLB_Official بلکہ دیگر مذہبی گروہوں کی تنظیمیں بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گی۔‘‘

ٹویٹس کی ایک سیریز میں انھوں نے کہا ’’اگر یہ میرا عقیدہ اور ایمان ہے کہ سر ڈھانپنا ضروری ہے تو مجھے اس کا اظہار کرنے کا حق ہے جیسا کہ میں مناسب سمجھوں۔ ایک متقی مسلمان کے لیے حجاب بھی ایک عبادت ہے۔‘‘

اویسی نے مزید کہا ’’یہاں تک کہ ایک ہی مذہب کے دوسرے لوگوں کو بھی ضروری مذہبی اعمال کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ فرد اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔ ریاست کو مذہبی حقوق میں مداخلت کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جانی چاہیے جب ایسی عبادتوں سے دوسروں کو نقصان پہنچے۔ ہیڈ اسکارف کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔‘‘

اویسی نے کہا ’’ہیڈ اسکارف پر پابندی یقینی طور پر دین دار مسلم خواتین اور ان کے خاندانوں کو نقصان پہنچاتی ہے کیوں کہ یہ انھیں تعلیم تک رسائی سے روکتی ہے، یہ عذر استعمال کیا جا رہا ہے کہ یونیفارم یکسانیت کو یقینی بنائے گی، آخر کیسے؟ کیا بچوں کو معلوم نہیں ہوگا کہ کون امیر/غریب خاندان سے ہے؟ کیا ذات کے نام پس منظر کی نشان دہی نہیں کرتے؟‘‘

اے آئی ایم آئی ایم لیڈر نے سوال کیا ’’اساتذہ کو ان کے امتیازی سلوک سے روکنے کے لیے یونیفارم کیا کرتا ہے؟ عالمی سطح پر یہ تجربہ رہا ہے کہ اسکول، پولیس اور فوج کی وردیوں میں تنوع کو ظاہر کرنے کے لیے مناسب سہولت فراہم کی جاتی ہے۔‘‘

ایک اہم مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے اویسی نے کہا ’’جب آئرلینڈ کی حکومت نے حجاب اور سکھ پگڑی کی اجازت دینے کے لیے پولیس یونیفارم کے قوانین میں تبدیلی کی اور مودی حکومت نے اس کا خیر مقدم کیا، تو اندرون و بیرون ملک دوہرا معیار کیوں؟ یونیفارم کے رنگوں کے حجاب اور پگڑیوں کو پہننے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔‘‘

انھوں نے کہا ’’ان سب کا نتیجہ کیا ہے؟ سب سے پہلے حکومت نے وہاں ایک مسئلہ پیدا کیا جہاں کچھ موجود نہیں تھا. بچیاں حجاب، چوڑیاں وغیرہ پہن کر اسکول جا رہی تھیں دوسرے یہ کہ لوگوں کو تشدد پر اکسایا گیا اور زعفرانی پگڑیوں کے ساتھ جوابی مظاہرے کیے گئے۔‘‘

ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ ضروری مذہبی مشق کے امتحان کا جائزہ لیا جائے۔ دین دار کے لیے سب کچھ ضروری ہے اور ملحد کے لیے کچھ بھی ضروری نہیں۔ ایک ہندو برہمن کے لیے جنیو ضروری ہے لیکن ایک غیر برہمن کے لیے ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘