جموں و کشمیر: صحافی فہد شاہ کو ضمانت ملنے کے چند گھنٹوں بعد ہی تیسری بار گرفتار کیا گیا
نئی دہلی، مارچ 6: دی کشمیر والا نے ایک بیان میں کہا کہ سری نگر پولیس نے ہفتے کے روز شوپیان کی ایک عدالت سے اسے ایک الگ معاملے میں ضمانت ملنے کے چند گھنٹے بعد ہی صحافی فہد شاہ کو ایک تیسرے کیس کے سلسلے میں گرفتار کر لیا۔
فہد شاہ نیوز پورٹل دی کشمیر والا کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ ایک ماہ سے زائد عرصے میں یہ تیسری مرتبہ ہے کہ انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔
صحافی کو قبل ازیں 4 فروری کو پلوامہ پولیس نے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ملک مخالف مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی عدالت نے 22 دن بعد انھیں ضمانت دی تھی۔
تاہم ضمانت حاصل کرنے کے چند گھنٹے بعد، انھیں شوپیان پولیس نے 26 فروری کو ایک الگ کیس میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔
دی کشمیر والا کے مطابق شاہ کو سری نگر پولیس نے مئی 2020 میں نیوز پورٹل کی رپورٹنگ کے لیے ایک کیس میں دوبارہ گرفتار کیا تھا۔
شاہ پر تعزیرات ہند کی دفعہ 147 (فسادات)، 307 (قتل کی کوشش)، 109 (اکسانے) اور 505 (عوامی فساد) کے تحت الزام عائد کیا گیا۔
نیوز پورٹل نے کہا کہ فہد کو ضمانت دیتے ہوئے شوپیان عدالت نے نوٹ کیا تھا کہ ضمانت دینا ایک قاعدہ ہے اور اس سے انکار ایک استثنا۔
شوپیان کے مجسٹریٹ صائم قیوم نے مشاہدہ کیا ’’ایک وحشیانہ معاشرے میں آپ شاید ہی ضمانت مانگ سکتے ہیں۔ لیکن ایک مہذب معاشرے میں، آپ شاید ہی اس سے انکار کر سکیں۔‘‘
نیوز پورٹل نے مزید کہا کہ شاہ کی قانونی ٹیم جلد ہی ان کی رہائی کے لیے ایک اور نئی ضمانت کی درخواست دائر کرے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’دی کشمیر والا ٹیم عدلیہ اور قانون کی بالادستی پر اعتماد کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ٹیم مشکل کی اس گھڑی میں فہد اور ان کے خاندان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے اور ہم منوج سنہا کی زیر قیادت جموں و کشمیر انتظامیہ سے فہد کی فوری رہائی کے لیے اپنی اپیل کا اعادہ کرتے ہیں۔‘‘
5 فروری کو جموں و کشمیر پولیس نے کہا تھا کہ فہد ’’دہشت گردی کی ترغیب دینے، جعلی خبریں پھیلانے اور امن و امان کی خرابی کی صورت حال پیدا کرنے کے لیے عام لوگوں کو اکسانے‘‘ کے لیے مطلوب ہے۔
6 فروری کو ایڈیٹرز گلڈ سمیت کئی پریس باڈیز نے مطالبہ کیا تھا کہ فہد شاہ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ایڈیٹرز گلڈ نے یونین ٹیریٹری کے حکام سے کہا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایف آئی آر، دھمکی آمیز تفتیش اور غلط نظر بندی کو پریس کی آزادی کو دبانے کے آلے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔