جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے محبوبہ مفتی کی والدہ کو پاسپورٹ دینے سے انکار کرنے والے اہلکار کی سرزنش کی
نئی دہلی، جنوری 2: جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے ہفتہ کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کی والدہ گلشن نذیر کو پاسپورٹ دینے سے انکار کرنے پر حکام کی سرزنش کی۔
پاسپورٹ آفس نے جموں و کشمیر پولیس کے کریمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کی بنیاد پر ایسا کیا تھا۔ جسٹس ایم اے چودھری کی سنگل جج بنچ نے پاسپورٹ افسر پر تنقید کی اور کہا کہ وہ ’’سی آئی ڈی کے ماؤتھ پیس‘‘ کے طور پر کام نہیں کر سکتے۔
ہائی کورٹ نے پاسپورٹ افسر سے کہا کہ وہ اس معاملے پر نئے سرے سے غور کرے اور آرڈر کی کاپی پیش کیے جانے کی تاریخ سے چھ ہفتوں کے اندر احکامات جاری کرے۔
یہ فیصلہ اس وقت آیا جب مفتی نے 31 دسمبر کو چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو لکھے گئے خط میں دیگر چیزوں کے ساتھ یہ مسئلہ بھی اٹھایا تھا۔
مفتی نے کہا تھا کہ حکام کے ذریعے گلشن نذیر کے پاسپورٹ کو ’’من مانے طور پر روکنے‘‘ کے خلاف درخواست دو سال قبل دائر کی گئی تھی لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
31 دسمبر کو حکم جاری کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ پاسپورٹ افسر کو پولیس اور سی آئی ڈی سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا نذیر کے پاسپورٹ سے انکار کرنے سے پہلے حقائق اور حالات کے پس منظر میں کوئی منفی بات ہے؟
عدالت نے نوٹ کیا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ پاسپورٹ آفیسر نے سی آئی ڈی کے فارورڈنگ لیٹر پر اس کی رپورٹ کا تفصیل سے تجزیہ کرنے کے بجائے بس عمل کیا تھا۔ رپورٹ میں درخواست گزار کی بیٹی کے اپنے نظریے اور سرگرمیوں کے حوالے سے مکمل طور پر نمٹا گیا ہے، جسے ہندوستان کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم رپورٹ میں درخواست گزار کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔‘‘
ہائی کورٹ نے کہا کہ سی آئی ڈی کی طرف سے تیار کی گئی پولیس تصدیقی رپورٹ دو درخواستوں کے حوالے سے تھی – ایک نذیر کی اور دوسری اس کی بیٹی کی۔
عدالت نے کہا ’’یہاں تک کہ درخواست گزار [گلشن نذیر] کے خلاف ایک بھی الزام نہیں ہے جو کسی بھی سیکیورٹی خدشات کی نشان دہی کر سکتا ہے۔ CID-CIK کے ذریعہ تیار کردہ پولیس تصدیقی رپورٹ پاسپورٹ ایکٹ 1967 کے سیکشن 6 کی قانونی دفعات کو اوور رائیڈ نہیں کر سکتی۔‘‘
یہ سیکشن ان شرائط سے متعلق ہے جن کے تحت کسی فرد کو پاسپورٹ دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ اپیلٹ اتھارٹی نے نذیر کی پولیس تصدیقی رپورٹ کی جانچ نہیں کی اور بغیر کسی بنیاد کے سیکیورٹی کی غلط بنیاد پر پاسپورٹ افسر کی طرف سے دیے گئے حکم کو برقرار رکھا۔
عدالت نے مزید کہا کہ ’’جب کسی اتھارٹی کو طاقت دی جاتی ہے، تو اسے انصاف کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ من مانی سے جیسا کہ اس کیس میں کیا گیا ہے۔‘‘