جموں و کشمیر: گپکر اعلامیہ کے رہنما یکم جنوری کو جموں و کشمیر کے لیے مرکز کی نئی اسمبلی سیٹوں کی تقسیم کے خلاف احتجاج کریں گے
نئی دہلی، دسمبر 22: اتحاد برائے گپکر اعلامیہ، جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی ایک جماعت، نے منگل کو یکم جنوری کو مرکز کی طرف سے خطے میں سات نئی اسمبلی سیٹوں کی ’’تفریق پیدا کرنے والی اور ناقابل قبول‘‘ تقسیم کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے۔
17 فروری 2020 کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی ڈیلیمیٹیشن یعنی حد بندی کا عمل شروع کیا تھا۔ اس کے بعد جموں و کشمیر اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 107 سے بڑھ کر 114 ہو جائے گی، اور ڈیلیمیٹیشن درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص نشستیں فراہم کرے گی۔
مرکز کے ڈیلیمیٹیشن کمیشن نے پیر کو 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر جموں خطہ کو چھ اور کشمیر کو ایک نشست مختص کی۔ اس غیرمتوازن تقسیم کے لیے اسے یونین ٹیریٹری کے سیاست دانوں کی طرف سے کڑے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کمیشن نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفادات کو پورا کیا ہے۔
منگل کو گپکر اعلامیہ کے رہنماؤں نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ڈیلیمیٹیشن کمیشن کی توقعات سے مطمئن نہیں ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے چیئرمین فاروق عبداللہ، جو گپکر اتحاد کا حصہ ہیں، نے کہا کہ نشستوں کی تقسیم ’’لوگوں کی خواہشات اور مفادات کے مطابق نہیں‘‘ اور یہ ’’علاقائی اور برادری کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے کا ایک قدم۔‘‘
گپکر اعلامیہ کے ترجمان ایم وائی تاریگامی نے کہا کہ بہت سی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جس کے تحت ڈیلیمیٹیشن پینل تشکیل دیا گیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ مرکز کو جموں و کشمیر میں اسمبلی کی نئی نشستیں شامل کرنے سے پہلے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔
تاریگامی کے مطابق سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا، جب اس کی قیادت فاروق عبداللہ کی پارٹی کر رہی تھی، کہ حد بندی کو 2026 تک موخر کیا جائے۔
تاریگامی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ڈیلیمیٹیشن پینل کی تجویز کے مسودے میں 2011 کی مردم شماری کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی مشق کو انجام دینے کی بنیاد صرف مردم شماری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آبادی کو مدنظر رکھا جائے اور نشستوں میں شفافیت سے اضافہ کیا جائے۔‘‘
سابقہ ریاست کی 2011 کی مردم شماری کے مطابق، کل 1.25 کروڑ آبادی کا 56.2 فیصد کشمیر میں اور 43.8 فیصد جموں میں رہتا ہے۔ دی ویک کے مطابق اسمبلی میں کشمیر کی نشستوں کا حصہ 55.4 فیصد اور جموں کا 44.6 فیصد تھا۔
اگر مسودہ تجاویز پر عمل درآمد ہوتا ہے تو کشمیر کی نشستوں کا حصہ گھٹ کر 52.2 فیصد رہ جائے گا جب کہ جموں کی نشستوں کا حصہ بڑھ کر 47.8 فیصد ہو جائے گا۔