پارسی سماج کے تحفظ کی اسکیم ’ جیو پارسی‘ قریب المرگ

سماجی تنظیمیں بھی اسکیم بچانے کے لیے سرگرم۔ پارسیوں کوحاصل ہیں بے شمار سرکاری مراعات

افروز عالم ساحل

دن بدن تیزی سے گھٹتی جا رہی پارسیوں کی آبادی کے تحفظ کے لیے مرکزی حکومت نے جو اسکیم لانچ کی تھی وہ اپنے ابتدائی دور میں ہی آخری گنتی کرتی نظر آئی۔ نہ صرف اس اسکیم کے بجٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا بلکہ اس کا نفاذ بھی نا کے برابر نظر آیا۔ سال 2014 میں جب اقتدار میں تبدیلی آئی تب کاغذوں پر ہی سہی اس اسکیم کو رفتار ملی تھی لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ مرکزی حکومت پارسی سماج کے تعلق سے کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی ہے۔

حکومت ہند کی وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت ملے اہم دستاویزات کے مطابق مرکزی حکومت کا رویہ اس اسکیم کے ساتھ اقلیتوں کے لیے چلائی جا رہی اسکیموں سے کچھ بہتر ضرور رہا ہے حالانکہ اس بار اس اسکیم کے لیے حکومت نے بجٹ میں کمی کی ہے۔آر ٹی آئی کے دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ 2020-21میں ملک کی چھوٹی اقلیتوں کی آبادی میں گراوٹ روکنے کی خاطر چلائی جا رہی اس اسکیم کے لیے 4کروڑ روپیوں بجٹ طے کیا گیا اور وہ جاری بھی کیے گیے تھے لیکن 31دسمبر 2020تک مرکزی حکومت ایک کروڑ50لاکھ روپے ہی خرچ کر پائی۔

سال 2019-20میں اس اسکیم کے لیے 4کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور وہ جاری بھی کیا گیا جس میں سے 3 کروڑ86 لاکھ روپے خرچ کیے گیے۔ 2018-19میں یہ تناسب اور بھی بہتر نظر آیا۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 4کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور وہ جاری بھی کیا گیا اور پوری رقم اسی سال خرچ بھی کر دی گئی۔ یہی معاملہ سال 2017-18میں بھی نظر آیا۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 2 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن جاری 3کروڑ روپے کیے گئے اور وہ خرچ بھی کر دیے گئے۔ اس سال 2021-22 کے لیے اس اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں گھٹا کر 3 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔

واضح ہو کہ ملک میں پارسیوں کی گھٹتی آبادی کو روکنے کے لیے اس اسکیم کی شروعات مرکزی حکومت کی وزرات اقلیتی امور کے وزیر کے رحمٰن خان نے نئی دہلی میں 23ستمبر 2013 کو کی تھی۔ اس اسکیم کو ’جیو پارسی‘ کا نام دیا گیا۔

یہ ملک کی پہلی ایسی انوکھی اسکیم ہے جس کا مقصد ملک میں پارسیوں کی آبادی میں کمی پر روک لگانا ہے۔ اس کے تحت مرکزی حکومت پارسی شادی شدہ جوڑوں کو معیاری طبی پروٹوکول کے تحت طبی علاج کے لیے مالی مدد فراہم کرتی ہے۔

یہ اسکیم پارسی آبادی میں افزائش نسل کے سلسلے میں بیداری لانے کی وکالت کرتی ہے، ساتھ ہی پارسی آبادی بڑھانے کے لیے جامع پروگراموں پر بھی توجہ دیتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ضرورت مند حاملہ پارسی خواتین کو اپنے بچے کی دیکھ بھال کے لیے مالی اعانت فراہم کرنے کا انتظام ہے۔

حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس اسکیم سے خاص طور پر ان جوڑوں کو ’وٹرو فرٹلائزیشن‘ جیسی سہولیات کے لیے مفت مدد ملے گی جن کی سالانہ آمدنی 10 لاکھ روپے سے کم ہے۔ اس اسکیم کا فائدہ ان غیر پارسی خواتین کو بھی ملے گا جنہوں نے پارسی مردوں سے شادی کی ہے۔

یہی نہیں اس اسکیم کا ایک مقصد بچوں کو جنم دینے کی اہلیت رکھنے والے پارسی جوڑوں اور اپنے والدین و قانونی سرپرستوں کی رضامندی سے نامردی جیسی بیماریوں کا پتہ لگانے کے لیے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی مدد کرنا بھی شامل ہے۔ دراصل یہ اسکیم ایک کمیونٹی کے ذریعہ چلنے والا پروگرام ہے جس میں پارزور فاؤنڈیشن، بامبے پارسی پنچایت اور مقامی پارسی انجمنیں شامل ہیں۔ اس کے لیے پارزور فاؤنڈیشن نوڈل ایجنسی ہے۔

مرکزی حکومت نے ابتدا میں ہی اس ’جیو پارسی‘ اسکیم کو فروغ دینے کے لیے 25 سے زائد پرنٹ اشتہارات لانچ کیے تھے۔ یہ تمام اشتہارات کافی تنازعہ میں رہے ہیں۔ ان اشتہاروں میں کنڈوم کا استعمال نہ کرنے کی نصیحت کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پارسیوں نے شادی کرکے بچے پیدا نہیں کیے تو جلد ہی پارسی کالونی ’ہندو کالونی‘ میں تبدیل ہو جائے گی۔ ان اشتہاروں میں 40 سال کی عمر کے ہو چکے ان غیر شادی شدہ پارسی مردوں کا مذاق اڑایا گیا تھا جو ابھی بھی اپنی ماؤں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان خواتین کو بھی نشانہ بنایا گیا جو شادی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ مردوں کی تلاش میں ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ رتن ٹاٹا کے نام کا بھی ذکر کیا گیا۔

خود پارسی سماج سے وابستہ افراد نے ’جیو پارسی‘ کے تحت چلائے جانے والے ان اشتہارات پر اعتراض کیا ہے۔ وہیں اس اسکیم پر ان کی تنقید بھی سامنے آچکی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم صرف وقت کی بربادی ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی خاص آبادی بڑھنے والی نہیں ہے۔ ویسے بھی حکومت نے اس اسکیم کو صرف ’اشتہار‘ تک ہی محدود کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم کے نام پر اب تک محض خانہ پری ہی کی گئی ہے۔ اسکیم کے بجٹ کی بیشتر رقم اشتہاروں پر ہی خرچ ہوئی ہے تاہم،حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اسکیم سے پارسی سماج کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس اسکیم کی شروعات سے لے کر 31 دسمبر 2019 تک پارسی سماج میں 233بچوں نے جنم لیا ہے۔ یہ اعداد و شمار لوک سبھا میں 6 فروری 2020 کو اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے ایک سوال کے جواب میں تحریری طور پر دیے ہیں۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اپنی گھٹتی آبادی کی فکر پارسی سماج کو بھی ہے۔ حکومت کی ’جیو پارسی‘ اسکیم سے دس سال پہلے ’پارسی پنچایت‘ نے خود اپنی گرتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے ایک اسکیم شروع کی تھی جس کے تحت ہر پارسی خاندان کو اپنے تیسرے بچے کی پرورش کے لیے ہر ماہ 1000 روپیہ دیا جاتا تھا۔

لیکن ان 10 سالوں میں صرف 90 خاندانوں نے اپنے تیسرے بچے کو جنم دیا۔ اس کے علاوہ بھی یہ پارسی کمیونٹی اپنی آبادی بڑھانے کے لیے کئی طرح کی کوششیں کر رہی ہے جن میں ’’اسپیڈ ڈیٹنگ‘‘ شامل ہے۔ کمیونٹی نے فرٹیلیٹی پروجیکٹ کا بھی سہارا لیا جس کا ابھی تک 500 سے زیادہ افراد فائدہ اٹھا چکے ہیں لیکن ان تمام اقدامات کا بھی کوئی بہت زیادہ اثر ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہی نہیں، پارسی پنچایت کم کمانے والے پارسیوں کو وظیفہ اور ممبئی میں مفت فلیٹ بھی دیتی ہے۔ اس کا مقصد لڑکے لڑکیوں کو شادی کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارسی سماج میں 90 ہزار روپے سے کم کمانے والا شخص ’’غریب‘‘ کے زمرے میں آتا ہے اور ممبئی میں پارسی پنچایت کی طرف سے ایک مفت گھر حاصل کرنے کا حق دار ہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا واقعی وہ حکومت سے کسی مدد کے محتاج ہیں؟

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے آج سے کچھ سال قبل پارسیوں کے ذریعے بسائے گئے شہر جمشیدپور جا کر پارسیوں کی کم ہوتی آبادی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تھی، تب پارسی سماج کے لوگوں نے بتایا تھا کہ اس کے لیے خود پارسی سماج ہی ذمہ دار ہے۔ پارسی سماج نے باہر کے لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند کر لیے ہیں۔ اگر کوئی خاتون پارسی سماج سے باہر شادی کرتی ہے تو وہ پارسی نہیں رہ جاتی۔ اگر کوئی خاتون بیرونی کمیونٹی سے یہاں شادی کر کے آتی ہے تو اسے یا اس کے بچوں کو بھی پارسی ہونے کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ یہ حال ہے تو ظاہر ہے کہ پارسی سماج کی آبادی نہیں بڑھے گی۔

واضح رہے کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں پارسی سماج کی آبادی میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے۔ 1941 میں جہاں ان کی آبادی 1 لاکھ 14 ہزار تھی، وہیں 2001 میں یہ کم ہو کر صرف 69,601 رہ گئی ہے اس میں 33,949 مرد اور 35,652 عورتیں شامل ہیں۔

ان کی آبادی اس قدر کم ہو رہی ہے کہ اب سرکاری مردم شماری سے مذہب کے خانے سے ان کا ذکر ہی غائب ہو چکا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق ملک کی ان کی آبادی 57,264 ہے جس میں 28,115 مرد اور 29,149 عورتیں شامل ہیں۔ 2021 کی مردم شماری میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان کی آبادی کا کیا حال ہے۔
***

یہ ملک کی پہلی ایسی انوکھی اسکیم ہے جس کا مقصد ملک میں پارسیوں کی آبادی میں کمی پر روک لگانا ہے۔ اس کے تحت مرکزی حکومت پارسی شادی شدہ جوڑوں کو معیاری طبی پروٹوکول کے تحت طبی علاج کے لیے مالی مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ اسکیم پارسی آبادی میں افزائش نسل کے سلسلے میں بیداری لانے کی وکالت کرتی ہے، ساتھ ہی پارسی آبادی بڑھانے کے لیے جامع پروگراموں پر بھی توجہ دیتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021