مسعود ابدالی
ٹوری پارٹی میں لزٹرس کی جانشینی کے لیے کشمکش۔ بھارتی نژاد رشی سوناک پھر سرخیوں میں
نوٹ:
ہمارے کام نگار مسعود ابدالی صاحب نے یہ مضمون رشی سنک کے برطانوی وزیر اعظم مقرر ہونےسے عین قبل تحریر کیاتھا۔
تازہ ترین
رشی سوناک ۔۔۔ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم
سابق ناظم بیت المال Chancellor Of the Exchequer المعروف وزیر خزانہ رشی سوناک (Rishi Sunak) برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے محترمہ لز ٹرس نے وزارت عظمیٰ سے استعفےٰ دیدیا تھا۔ ان کے پیش رو بورس جانسن اسکینڈل اور عدم اعتماد کا شکار ہو کر وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوئے تھے جس کے بعد اس عہدے کے لیے لز ٹرس اور رشی سوناک میں گھمسان کا مقابلہ ہوا۔
برطانیہ کی ٹوری پارٹی میں وزیر اعظم کے انتخاب کا حتمی فیصلہ جماعت کے اجتماعِ ارکان میں ہوتا ہے اور صرف انہیں ارکان کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے جو اپنے واجبات وقت پر ادا کر چکے ہیں۔ اس وقت پارٹی کے ایسے ارکان کی تعداد 18000 ہے۔ براہ راست مقابلے میں لزٹرس نے 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے وزارت عظمیٰ اپنے نام کرلی تھی۔ چناو میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 83 فیصد کے قریب تھا۔
اہم نظریاتی معاملات پر یوٹرن نے ان کی پارٹی کو لز ٹرس کا مخالف کر دیا، صرف چھ ہفتے میں پارٹی کے اندر ان کی مخالفت کا تناسب 80 فیصد ہو گیا اور وہ نوشتہ دیوار پڑھ کر مستعفی ہو گئیں۔
لز ٹرس کی جانشینی کے لیے رشی سوناک اور دارالعوام کی قائد ایوان پینی مرڈانٹ (Penny Mordaunt) سامنے آئیں۔ اسی کے ساتھ چند ماہ پہلے اپنی ہی پارٹی میں عدم اعتماد کا شکار ہونے والے بورس جانسن نے بھی دوبارہ وزیر اعظم بننے کی خواہش ظاہر کر دی۔ بورس جانسن عوام میں خاصے مقبول ہیں لیکن دروغ گوئی اور ضابطے کی خلاف ورزی کے الزام میں موصوف تحقیقات کے پلِ صراط سے گزر رہے ہیں۔ احباب نے انہیں سمجھایا کہ ‘دستار کی کیا فکر ہے پاپوش سنبھالو’۔ یعنی آپ وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں عالم پناہ پارلیمنٹ کی رکنیت سے بھی نااہل ہو جائیں گے۔ آدمی جہاندیدہ ہیں لہٰذا اتوار کو انہوں نے اس دوڑ سے باہر جانے کا اعلان کر دیا۔
دوسری طرف پینی صاحبہ کے مقطع امیدواری میں یہ سخن گسترانہ بات آن پڑی کہ موصوفہ نامزدگی کی حمایت میں کم ازکم سو ارکان کی شرط پوری نہ کر سکیں اور رشی سوناک ٹوری پارٹی کے قائد اور برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ کل وہ شاہی آشیراواد کے لیے شاہ چارلس سوم کی دست بوسی کے لیے شاہی محل تشریف لے جائیں گے۔
بیالیس برس کے رشی سوناک ہند نژاد اور راسخ العقیدہ ہندو ہیں۔ ان کے والد صاحب کینیا سے انگلستان آئے تھے جبکہ والدہ صاحبہ تنزانیہ سے آئی تھیں۔
نو منتخب برطانوی وزیر اعظم نے آکسفورڈ سے سیاسیات اور معاشیات میں بی اے کرنے کے بعد فل برائٹ Fulbright وظیفے پر امریکہ کی موقر جامعہ اسٹینفورڈ Stanford سے ایم بی اے کیا ہے۔ دورانِ طالب علمی رشی سوناک نے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریستوران میں برتن بھی دھوئے تھے۔
رشی سوناک ٹھنڈے مزاج کے متحمل و بردبار آدمی ہیں۔ ان کی شاندار شخصیت اور صفاتِ عالیہ اپنی جگہ لیکن ان کی اصل آزمائش دباو کا شکار برطانوی معیشت ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ کساد بازاری کا یہی حال رہا تو حجم کے اعتبار سے برطانوی معیشت ہندوستان سے پیچھے ہو جائے گی۔بریکزٹ کی وجہ سے برطانوی برآمد کنندگان کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور معاملہ صرف یورپی یونین تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک سے تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کا اعصاب شکن مرحلہ درپیش ہے۔ اس لیے کہ تجارت یورپی یونین معاہدے کے تحت ہورہی تھی اور یہ معاہدات اب عملاً غیر موثر ہو گئے ہیں۔ کرونا سے پہنچنے والے نقصان کا ماتم ابھی جاری تھا کہ روس یوکرین جنگ نے ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق توانائی چھ گنا مہنگی ہو چکی ہے۔ تجارتی معاہدوں کی پریشانی اپنی جگہ، توانائی مہنگی ہونے کی وجہ سے مصنوعات کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے نتیجے میں برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ رشی سوناک نے مہنگائی کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے لیکن اپنی پیشرو کی طرح موصوف بھی رعایتوں (subsidies) پر یقین نہیں رکھتے نہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے حکومتی اخراجات کو بڑھانے کے حق میں ہیں۔ معلوم نہیں ان کے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے جس کے ذریعے وہ رعایت اور تنخواہوں میں اضافے کے بغیر مہنگائی کے مارے عوام کو راحت دیں گے۔
برطانوی تاریخ کی تیسری اور سب سے کم عمر خاتون وزیراعظم محترمہ نے استعفیٰ دے دیا۔ سینتالیس سالہ قدامت پسند لزٹرس نے 6 ستمبر کو وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور 45 دن بعد اپنا استعفےٰ بادشاہ سلامت کو پیش کردیا۔ ضابطے کے مطابق شاہ چارلس سوم نے انھیں نئے وزیراعظم کے تقرر تک کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
لز صاحبہ نے برطانیہ میں سب سے کم عرصہ وزیراعظم رہنے کا ’اعزاز‘ حاصل کیاہے۔ ان کے مقابلے میں آنجہانی رابرٹ والپول Robert Walpole طویل ترین عرصے تک برطانیہ کے وزیراعظم رہے۔ انہوں نے 3 اپریل 1721 کو حلف اٹھایا اور 11 فروری 1742تک حکمرانی کی یعنی 21 برس سے چند دن کم۔ جناب وال پول کو شاہ جارج اول نے وزیراعظم مقرر کیا اور جون 1727 میں شاہ صاحب کے انتقال پر جب ان کے صاحبزادے جارج دوم نے تخت سنبھالا تو انہوں نے بھی جناب وال پول کو بطور وزیراعظم برقرار رکھا۔ یعنی جناب وال پول نے اپنے دورِ اقتدار میں دو بادشاہ بھگتائے۔اس اعتبار سے لز ٹرس کی وزارت عظمٰی بھی تاریخی ہے کہ ان کی توثیق ملکہ ایلزبیتھ نے کی جبکہ لزٹرس نے استعفٰی ملکہ کے جانشیں شاہ چارلس سوم کی خدمت میں پیش کیا۔
اس حوالے سے برصغیر کا جائزہ لیا جائے تو بھارت میں جواہر لال نہرو نے طویل عرصِہ حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیا اور آزادی سے لے کر 1964 میں اپنے انتقال تک وہ 16 برس اور 266 دن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔شری گلزاری لال نندا نے سب سے کم عرصہ وزیراعظم رہنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ مئی 1964 میں وزیراعظم جواہر لال نہرو کے انتقال پر انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 13 دن بعد یہ منصب منتخب وزیراعظم لال بہادر شاستری کے حوالے کردیا۔ شاستری جی کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ پاکستان کے جنرل ایوب خان کے ساتھ مذاکرات کے دوران 11 جنوری 1966 کو تاشقند میں انتقال کرگئے، ایک بار پھر گلزاری لال نندا عبوری وزیراعظم مقرر ہوئے اور 13 دن بعد اقتدار اندرا گاندھی کے حوالے کرکے گھر چلے گئے۔ اٹل بہاری واجپائی کے پہلے دورِ وزارتِ عظمیٰ کا دورانیہ صرف 16 دن تھا جب 1996 کے انتخابات کے بعد لوک سبھا کی سب بڑی جماعت کے پارلیمانی سربراہ کی حیثیت سے انہیں حکومت سازی کی دعوت دی گئی لیکن وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
بھارت میں جواہر لال نہرو، ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی اور نواسے راجیو گاندھی کے عرصہِ اقتدار کی مجموعی مدت 36 برس اور 303 دن رہی۔طوالت کے اعتبار سے نہرو پہلے، اندرا گاندھی دوسرے اور من موہن سنگھ کا تیسرانمبر ہے جبکہ آٹھ سال 147 دن کے ساتھ موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی چوتھے درجے پر فائز ہیں۔
پاکستان میں سب سے طویل عرصہ وزیراعظم رہنے کا اعزاز نوابزداہ لیاقت علی خان کے پاس ہے جو 4 سال 63 دن سربراہ حکومت رہے۔ اس کے مقابلے میں جناب نورا الامین نے 12 سے 20 دسمبر تک صرف 13 دن وزارت عظمیٰ سنبھالی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک وزیراعظم نے اپنی مدت مکمل کی اور وہ ہیں جناب ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے 14گست 1973 کو نئے آئین کے نفاذ پر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور آئینی مدت کی تکمیل تک وزیراعظم رہے، بدقسمتی سے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی بناپر ان کی دوسری مدت کا آغاز متنازعہ تھا اور وہ 5جولائی 1977 کو جنرل ضیا کے ہاتھوں معزول ہوگئے۔
ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ لز ٹرس کا سیاسی ماضی یو ٹرن U-Turnsسے عبارت ہے۔ دور طالب علمی میں وہ مزدور انجمنوں کی حامی اور شہنشاہیت کی سخت مخالف تھیں لیکن عملی سیاست کے لیے انہوں نے قدامت پسند ٹوری پارٹی کا انتخاب کیا۔ جامعہ میں ’سرخ سویرا‘ کا نعرہ لگانے والی لز ٹرس صاحبہ Britannia Unchained نامی کتاب کی مصنفین میں سے ایک ہیں۔ اس کتاب میں برطانوی مزدوروں کو ’دنیا کے بدترین کاہلوں میں سے ایک‘ بیان کیا گیاہے۔
بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر محترمہ نے بریکزٹ کے خلاف مہم چلائی لیکن جب ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے بریکزٹ قبول کرلیا تو لز ٹرس نے بھی اپنا موقف تبدیل کرلیا ۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی لز ٹرس نے یو ٹرن کا سلسلہ جاری رکھا۔ سابق وزیراعظم بورس جانسن نے بڑی بڑی کارپوریشنوں کی ٹیکس چوری کا شکوہ کرتے ہوئے ”مال داروں‘‘ پر عائد ٹیکس کی شرح 19 سے بڑھالر 25فیصد کرنے کا عندیہ دیا تھاجس سے ان کے خیال میں سرکار کو 20ارب ڈالر کی اضافی آمدنی ہوتی۔ رکنِ کابینہ کی حیثیت سے لز ٹرس نے بورس جانسن کے اس فیصلے کی شدت سے مخالفت کی۔ وزارت عظمی کے لیے اپنی مہم کے دوران محترمہ لز ٹرس نے اس معاملے پر اپنے موقف کو مزید سخت کرلیا اور ٹیکس شرح میں اضافے کو ’’سوشلسٹ چونچلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اضافے کے بجائے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے شرح مزید کم کرنے کا وعدہ کیا۔
اقتدار سنبھالتے پر جیسے ہی لز ٹرس نے نئی کابینہ تشکیل دی، اپنی قائد کے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے ان کے ناظم بیت المال (وزیرخزانہ) کواسی کوارٹینگ (Kwasi Kwarteng) نے ٹیکس شرح کم کرنے کے لیے ضمنی یا mini budget تیار کرلیا۔ اس میزانئے میں ٹیکس کی جو نئی شرح تجویز کی گئی تھی، اس سے ٹیکس وصولی کا حجم 50 ارب ڈالر سکڑ سکتا تھا۔ خسارے کی شدت کم کرنے کے لیے تجویر کیے جانیوالے اقدامات میں سب سے تکلیف دہ توانائی زرِ تلافی (subsidy)کا خاتمہ تھا۔ یہ تجویز لِز حکومت کے خلاف دودھاری تلوار تھی۔ پیٹرول اور گیس کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں سے بلبلاتے عوام زرِ تلافی کے خاتمے پر پھٹ پڑے تو آمدنی میں کمی سے خسارہ کے بے قابو ہونے کی خبر بازار حصص اور مالیاتی منڈیوں پر بجلی بن کر گری۔ دباو کا شکار برطانوی پونڈ مزید ارزاں اور حصص کی منڈی پر ریچھ (مندی) حملہ آور ہوگیا۔
عوام کے غصے کو کم کرنے کے لیے وزیراعظم نے اپنے گھانا نژادناظم بیت المال کو برطرف کردیا یاں یوں کہیے کہ اقتدار بچانے کے لیے ناظم بیت المال کو قربانی کا بکرا بنادیا اور 55 سالہ جریمی ہنٹ کو یہ منصب عطا ہوا۔ اس وقت ہی کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں نے سوال کیا تھا کہ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی؟
آکسفورڈ سے معاشیات میں بی اے کرنے والے جریمی ہنٹ اپنےخیالات کے اعتبار سے انتہائی قدامت پسند ہیں۔ ان کے والد سر نکولس ہنٹ شاہی بحریہ کے امیر البحر تھے۔ ان کے آباواجداد میں Sir Streynsham Masterشامل ہیں جو برصغیر کو زنجیرِ غلامی پہنانے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بانیوں میں سے تھے۔ جناب ہنٹ نے عہدہ سنبھالتے ہی مجوزہ میزانئے سے ٹیکس میں کمی کا پورا باب حذف کردیا۔ اس نئے یوٹرن نے ٹوری پارٹی کے قدامت پسندوں کو مشتعل کردیا اور حکمراں پارٹی میں لز ٹرس کے خلاف عدم اعتماد کے نعرے گونجنے لگے۔ بدھ 19 نومبر کو لز ٹرس نے بڑے دبنگ لہجے میں کہا وہ کمزور اعصاب کی صنفِ نازک نہیں بلکہ وہ ایک جنگجو ہیں لہٰذا استعفیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وزیراعظم کے اس اعتماد کی وجہ ٹوری پارٹی کی وہ دیرینہ روایت تھی کہ اقتدار کی پہلی سالگرہ سے پہلے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جاسکتی۔ تاہم ’وعدہ خلافی‘ پر ٹوری پارٹی میں اس قدر غم و غصہ تھا کہ ارکان نے 1922 کمیٹی سے رابطہ قائم کرلیا۔ اس کمیٹی کو آپ پشتونوں کا مشران جرگہ یا ہئیۃ البیعۃ (سعودی عرب) کہہ سکتے ہیں۔ یہ کمیٹی 1923 میں قائم ہوئی جسکے ارکان چونکہ 1922میں منتخب ہوئے تھے اس لیے کمیٹی 1922کے نام سے مشہور ہوئی۔ کمیٹی پارٹی کے 18سینیر ارکانِ دارالعوام پر مشتمل ہے جو کسی کابینہ یا حکومت کے بربنائے عہدہ حصہ نہیں اور ایوان کی آخری نشستوں پر بیٹھ کر اپنی پارٹی کی کارکردگی جانچتے رہتے ہیں۔ اسی لیے یہ لوگ backbenchersکہلاتے ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس ہر ہفتے ہوتا ہے جس میں ٹوری پارٹی کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ 1922کمیٹی کی کوئی آئینی حیثیت نہیں جسکی بنا پر اسے Conservative Private Members’ Committee بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ادارہ صحیح معنوں میں بادشاہ گر ہے کہ پارٹی کے تمام قواعد و ضوابط کمیٹی 1922 ہی مرتب کرتی ہے۔ اسی دوران ایک جائزہ شایع ہوا جسکے مطابق ٹوری پارٹی کے 85فیصد ارکانِ پارلیمان نے لز ٹرس کے ٹیکس کے بارے میں U turn کو وعدہ خلافی اور سیاسی بددیانتی قرار دیا۔
لزٹرس کے لیے یہ پریشانی ہی کیا کم تھی کہ وزیرداخلہ سویلا بریورمین Suella Bravermanکے بارے میں خبر آئی کہ انہوں نے ایک سرکاری دستاویز کے لیے ذاتی برقی خط (ای میل) کا نجی اکاونٹ استعمال کیا جو حکومتی ضابطے کے تحت ممنوع ہے۔ یہ سن کر وزیراعظم برہم ہوگئیں جس پر سویلا صاحبہ نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفےٰ دے دیا۔ استعفےٰ کے خط میں وزیرداخلہ نے یہ بھی لکھ دیا کہ وہ لزسرکار کے رخ سے مطمئن نہیں۔ اسی دوران کسی منچلے نے سماجی رابطے پر لز ٹرس کی ایک نجی گفتگو کا انکشاف کیا جس میں محترمہ اختیار میں کمی کی شکایت کررہی تھیں۔اس حوالے سے ایک اخبار نے سرخی جمائی کہ ”PM in Power is without power”پے در پے دواستعفوں سے لز حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہویے حزب اختلاف نے ماحولیاتی آلوگی کے بارے میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ خیال رہے کہ یورپ کے لیے روسی گیس کی بندش کے بعد سے علاقے کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ کو بھی تیل اور گیس کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کی قلت سے نمٹنے کے لیے لز ٹرس تیل کی تلاش و ترقی کا کام تیز کرنا چاہتی تھیں ۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف کا خیال ہے کہ کنووں کی کھدائی کے اجازت نامے جاری کرتے ہوئے ماحول کی آلودگی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ تیل اور گیس کے روایتی میدان ریت (sand) اور چونے کے پتھر (limestone)کی چٹانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے سلیٹی چٹانوں یا Shaleمیں بھی قسمت آزمائی کی جارہی ہے۔ سلیٹی چٹانوں میں قباحت یہ ہے کہ ان کے مسام آپس میں ملے ہوئے نہیں اس لیے ان میں موجود تیل اور گیس کو گہرائی سے سطحِ زمین کی طرف سفر پر آمادہ کرنا بہت مشکل ہے اور اسکے لیے شدید دباو یا Frackingکے ذریعے چٹانوں کو توڑنا اور جنجھوڑٖنا پڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے جو ترکیبیں اور کیمیاوی مواد استعمال ہوتا ہے وہ ماہرین کے خیال میں مضرِ صحت ہیں اور frackingکے عمل میں آبنوشی کے زیرزمین ذخائر آلودہ ہورہے ہیں۔
حزب اختلاف نے فریکنگ پرپابندی کی قرارداد ایوان میں پیش کردی۔ لز ٹرس صاحبہ کو معلوم تھا کہ توانائی کی شدید قلت کے تناظر میں اس تحریک کا منظور ہونا ناممکن ہے چنانچہ انہوں نے اپنی دانست مں ترُ پ کا پتہ پھینک دیا اور فرمایا کہ ’یہ قرارداد دراصل ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہے‘۔ حسب توقع فریکنگ پر پابندی کی تجویز 230 کے مقابلے میں 326 ووٹوں سے مسترد ہوگئی۔ پارلیمان میں برسراقتدار ٹوری پارٹی کو واضح برتری حاصل ہے چنانچہ پارٹی کے ارکان معمول کی کارروائی کو عدم اعتماد جیسی اہمیت دینے پر ناخوش ہوگئے اور پارٹی کی چیف وہپ Chief Whip محترمہ وینڈی مورٹن نے بھی استعفیٰ دےدیا۔اب پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا اور نوشتہ دیوار پڑھ کر وزیراعظم لز ٹرس نے بادشاہ سلامت کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہیں اور عوام کی توقعات پر پوری نہیں اُتریں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022