جہاد:ظلم اور فساد کے خاتمے کے لیے اللہ کا دیا ہوا ہتھیار
اہل غزہ نے دنیا کو جہاد کے اصل مفہوم سے آشنا کیا ہے
ساجد عباسی صاحب
جنگ ناگزیر ہو تو جنگی ساز و سامان کی کمی کے باجوود دشمن سے نمٹنے کا حکم
اہل غزہ نے جہاد کے مفہوم کو ابہام و اتہام سے پاک کرکے اس کے اصل مفہوم سے دنیا کو آشنا کر دیا ہے۔ دنیا حماس کو دہشت گرد سمجھ رہی تھی لیکن آج انسانوں پر یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ فلسطینی اپنے حقوق کی ایک دیرینہ جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ اسرائیل ہی دراصل ایک دہشت گرد ملک ہے۔ اہل غزہ نے جہاد کو دہشت گردی سے ممیز کر دیا ہے۔ اسلام میں جہاد ظلم کے خلاف مدافعت کرنے (سورۃ الحج:۳۹) ظالموں کے ظلم سے انسانیت کو آزاد کرانے (سورۃ النساء:۷۵) اور دنیا سے فتنہ وفساد کو مٹانے کے لیے کیا جاتا ہے (سورۃ الانفال:۳۹) امن حاصل کرنے کے لیے کبھی جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ غزّہ کے مجاہدوں نے یہ ثابت کر دیا کہ کم تعداد کے ساتھ بھی بہت بڑے لشکروں کو شکست دی جا سکتی ہے (سورۃ البقرۃ:۲۴۹) جب جنگ ناگزیر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے دشمن سے نمٹنے کا حکم دیا ہے چاہے جنگی سازوسامان کی کمی ہو یا فراوانی ہو(سورۃ التوبہ:۴۱) حماس کے مجاہدین اس وقت اسرائیل کی تین لاکھ فوج اور دنیا کے نہایت طاقتور ترین سیکڑوں Merkava 4M ٹینکوں کے مقابلے میں فلسطین کے اندر بنائے گئےYaseen 105 antitank grenade کے ساتھ زمینی جنگ میں اسرئیلی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ معجزہ سے کم نہیں ہے۔ اسرائیل اپنے دعوے کے مطابق اب تک حماس کو شکست نہیں دے سکا اور اس بات کی خفت کو مٹانے کے لیے وہ بدحواس ہوکر معصوم عوام پر بموں کی بارش کر رہا ہے۔ اگر واقعی زمینی جنگ میں حماس پر فتح حاصل کرنا اسرائیل کے لیے آسان ہوتا تو وہ زمینی جنگ کے ذریعے غزّہ کو چالیس دنوں کے اندر فتح کرچکا ہوتا اور معصوم عوام پر بمباری نہ کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ کفار کے اندر چونکہ حق کے لیے لڑنے کا نہ ہی فہم ہوتا ہے اور نہ ہی ایقان اس لیے وہ جذبۂ سرفروشی کے ساتھ زمینی جنگ لڑنے سے ڈرتے ہیں۔ اگر وہ لڑتے بھی ہیں تو اپنی جانوں کا بچاؤ کرتے ہوئے آڑ میں رہ کر لڑتے ہیں (سورۃ الحشر:۱۴)
لفظ جہاد کو اتنا بدنام کردیا گیا تھا کہ اس کے استعمال سے خود مسلم علماء کترانے لگے تھے۔ اس حالیہ جنگ نے جہاد کے اصل مفہوم کو دنیا کے سامنے واضح طور پر پیش کیا ہے۔حق و انصاف کے لیے جذبۂ شہادت سے سرشار ہو کر بڑی سے بڑی طاقت کو چیلنچ کرکے اس سے نبرد آزما ہونے اور ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہنے اور قربانیوں کو پیش کرنے کا نام جہاد ہے۔ نام نہاد مسلم علماء کے ذہنوں میں پائے جانے والی غلط فہمی کو دور کردیا گیا کہ جہاد متروک ہو چکا ہے بلکہ یہ قیامت تک مظلوموں اور حق پرستوں کو اللہ کا دیا ہوا وہ ہتھیار ہے جس سے متکبرین کے تکبر کو خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔
اہل غزّہ کی ان قربانیوں سے بھرپور غیر مساوی جنگ میں دنیا کے مظلوموں کے لیے ایک پیغام ہے۔ اس جنگ نے مظلوموں کو ظالموں کے خلاف اٹھنے اور ظلم کو چیلنج کرنے اور ظلم سے آزادی حاصل کرکے باعزت زندگی گزارنے کا سبق اور حوصلہ دیا ہے۔ اہلِ غزّہ نے اس جنگ کے ذریعے اسلام کے اصل مفہوم سے دنیا کو واقف کروایا کہ اسلام کا مطلب ہے: عبدیت و غلامی خالص اللہ کے لیے ہو۔ انسان کا سر صرف اللہ کے آگے جھک سکتا ہے اس کے سوا کسی طاقت کے آگے نہیں جھک سکتا۔ دنیا کے ظالم وسفاک اور بربریت برپا کرنے والی مغرور و متکبر قومیں اگر کسی قوم کو کمتر سمجھ کر جھکانے اور اس کو سرنگوں ہونے پر مجبور کریں تو ان کے آگے جھکنا نہیں چاہیے، چاہے بموں کے ذریعے ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیے جائیں۔ اہلِ غزّہ نے ثابت کر دیا کہ اس دنیا میں اہلِ ایمان ہی وہ قابلِ تکریم مخلوق ہیں جنہیں ہلاک تو کیا جا سکتا ہے لیکن جھکایا نہیں جاسکتا۔ آج دنیا کے حساس لوگ یہ جان کر ورطۂ حیرت میں پڑگئے ہیں کہ کیسے فلسطین کے بچے بڑے سب کے سب جذبۂ شہادت سے سرشار ہوکر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ان کو جنت پانے کا کیسا پکا یقین ہے۔ یہ کیفیت دیکھنے کے بعد ان کے اندر اسلام کو جاننے کی جستجو پیدا ہو رہی ہے اور وہ اسلام کا مطالعہ کرنے لگے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس جنگ کو اہلِ غزّہ کے حق میں فیصلہ کن بنا دے جس سے اس بات کی امید ہے کہ بہت سارے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوں گے۔
کوئی گروہِ انسانی اپنے لیے خود ساختہ بڑائی کا فلسفہ گھڑ کر کمزوروں کو بے عزت کرنے، ان کی املاک پر قبضہ کرنے اور ان کی جان لینے کا کیسے حق رکھ سکتا ہے؟ صیہونیوں نے یہ عقیدہ گھڑ رکھا ہے کہ وہ اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں اور ساری دنیا کو ان کے سامنے سرنگوں ہونا ہوگا۔ مزید یہ کہ فلسطین اور قرب و جوار کے ممالک پر مشتمل ایک عظیم اسرائیل Greater Israel ان کے لیے خدا کی طرف سے موعودہ زمینpromised land ہے۔ یہ صیہونی تصورات ساری انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔
یہودی علماء اس طرح کا نظریہ نہیں رکھتے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں ہمیںدنیا میں اس لیے منتشر کیا گیا ہے کہ ہم اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کریں۔ اہلِ غزّہ نے دنیا کے سامنے یہ ظاہر کر دیا کہ صیہونی، دنیا کے خبیث ترین لوگ ہیں جنہوں نے ایک آزاد ریاست میں رہنے والے فلسطینیوں کو کم تر سمجھ کر ان پر ظلم کیا اور ان کو محکوم بنا کر ایک نسلی عصبیت پر مبنی نظام میں محصور کر دیا۔ دنیا کی بڑی مملکتوں کے حکم رانوں اور سیاست دانوں کا بھی شمار دنیا کے بدترین انسانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ایسی خبیث ترین و ناجائز حکومت کی مدد کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور وہ مسلم حکم راں بھی ایمان فروش اور بے ضمیر ہیں جو اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کرکے ان سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں اور بھی وہ جو ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو ایک مہذب دنیا میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ اہلِ غزّہ نے ان مغرور دماغوں میں سے غرور و تکبر کی ہوا نکال دی ہے۔
آج اہلِ غزّہ نے عشرت کدوں میں مدہوش انسانوں کو جھنجھوڑ کر یہ احساس دلایا کہ دنیا کے کچھ حصے ایسے بھی ہیں جہاں انسانوں پر روح فرسا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اہلِ غزّہ نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے : ایک وہ بے ضمیر لوگ ہیں جن کے اندر انسانیت کی رمق باقی نہیں ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنے اندر زندہ ضمیر رکھتے ہیں اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا فرض سمجھتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کو حقوقِ انسانی اور جمہوریت کا درس دینے والے، سفاک ترین صیہونیوں کی بے پناہ اور مسلسل مدد کرتے چلے جا رہے ہیں اور وہ بھی اپنی محنت کش عوام کے ٹیکس سے یہ ظالمانہ مدد کی جا رہی ہے تاکہ ظلم کے اس غیر فطری نظام کو باقی رکھا جائے۔ غیر فطری ظالمانہ نظام کو فطرتِ انسانی ناپسند کرتی ہے اور اس کی مزاحمت کرتی ہے۔ غیر فطری نظام کو باقی رکھنے کے لیے غیر معمولی انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ ایک ظالمانہ نظام کو قائم رکھنے کے لیے بے پناہ جنگی ساز و سامان، بے پناہ وسائل اور مہلک ترین ہتھیار رکھنے پڑتے ہیں جس کے بل پر انسانوں پر خوف کو مسلط کیا جا سکے۔ امریکہ نے ستر سالوں سے یہ ذمہ داری لے رکھی ہے تاکہ اسرائیل کی ریاست کو ناجائز طریقے سے عربوں کے درمیان قائم کرنے کے بعد اس کے غیر انسانی اور ظالمانہ نظام کو قائم رکھنے کے لیے اس کی مالی اور عسکری مدد کی جائے۔اگر اہلِ غزّہ کا عقیدہ اسلام کا عقیدہ نہ ہوتا تو وہ اس بہیمانہ ظلم کی تاب نہ لاسکتے تھے جو صیہونی درندے، فلسطینیوں پر ایک صدی سے کرتے آرہے ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے زمانے سے ہی وہاں پر صیہونی ملیشیا قائم کیے گئے تھے جنہوں نے مقامی عربوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا آغاز کر دیا تھا۔ ایک آباد ملک کے مکینوں کو غیر آباد کرکے ان کی جگہ پر باہر سے غیر مقامی آبادی کو لا کر بسانے میں ظلم کے ایک سمندر کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ فلسطین کے مقامی باشندوں کو گن پوانٹ پر ظلم کرکے ان کو بے گھر کرنا، ان کے گھروں کو مسمار کرنا، ان کی معیشت اور ان کی زراعت کو ختم کرکے باہر کے صیہونیوں کو لا لا کر ان کی نوآبادکاری کرنا ہرروز کا مشغلہ بن چکا ہے۔ یہ ایسا مشغلہ ہے جو انتہائی سفاک اور ظالم شخص ہی کرسکتا ہے جس کا ضمیر مر چکا ہو۔ انسانی فطرت اس کو سراسر ظلم سمجھتی ہے۔ اس لحاظ سے ہر آبادکار یہودی جو باہر سے آکر فلسطینی کو ظلم سے بے گھر کر کے بس گیا ہے ایک خبیث روح کا حامل ہے۔مزید یہ کہ تھوڑی بھی مزاحمت کرنے والے بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا بلکہ ان کو بھی جیلوں میں قید کرکے ان پر مظالم ڈھائے جاتے رہے۔ 1948ء سے فلسطینی آبادی پر بم برسا کر ہزاروں کو موت کے گھاٹ اتار کر ان کو شہری آبادی سے بے دخل کرکے ان کو خیموں سے بنے کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ فلسطینیوں کی آبادی کو یہودی آبادی سے منقطع کرنے والی اونچی اونچی دیواریں تعمیر کی گئی اور فلسطینیوں کے لیے الگ راستے بناکر ان پر چیک پوسٹ قائم کیے گئے اور چیکنگ کے نام پر گھنٹوں ان کی تلاشی لینا معمول بن گیا ہے۔ جنوبی افریقہ ساری دنیا میں بدنام ہو چکا تھا اس لیے کہ وہاں گوروں نے کالوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا تھا، ان کی بستیوں کو الگ کر دیا گیا تھا اور ان کے لیے الگ قانون بنا دیا گیا تھا جس کو apartheid سسٹم کہا جاتا ہے۔مہذب دنیا نے اس نظام کو مسترد کردیا جس کے بعد وہاں پر جمہوریت کا نظام رائج ہوا۔لیکن حیرت ہے کہ جس مغربی دنیا نے جنوبی افریقہ میں جمہوری انقلاب کو خوش آمدید کہا یہی مغرب اس سے بدتر apartheid نظام کو اسرائیل میں قائم کرنے اور اس کو باقی رکھنے میں اس کی بے انتہا مالی اور فوجی مدد کرتا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی بدقسمتی ہے کہ اس کو امتِ محمدیہ سے واسطہ پڑا ہے جس نے جذبۂ شہادت سے سرشار ہوکر مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کا عہد کر رکھا ہے۔ یہ اسلام کی طاقت ہے کہ وہ ایک نہایت ہی کمزور قوم کو دنیا کی طاقتور ترین قوم کے مقابلے میں کھڑا کرتا ہے جو کسی صورت میں ظالم قوم کے آگے سرنگوں ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ یہ اسلام کی طاقت ہے کہ وہ انسان کو ذہنی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ جب ذہنی طور پر ایک قوم طاقتور ہوتی ہے تو اس کو شکست دینا آسان نہیں ہوتا۔ بھارت میں برہمنوں نے نچلی ذات کے ہندؤوں پر صدیوں سے ظلم ڈھائے ہیں۔ اس ظلم کو روا رکھنے کے لیے ان نچلی ذاتوں کے دماغوں میں یہ عقیدہ بٹھا دیا گیا ہے کہ ان کا نچلی ذات ہونا دراصل پچھلے جنم میں ان کے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اگر اس جنم میں نچلی ذات والے اعلیٰ ذات والوں کی بلا چوں و چرا خدمت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور ان کے ظلم کو بھی خندہ پیشانی سے سہہ لیں تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ اگلے جنم میں اعلیٰ ذاتوں میں پیدا ہوں گے۔اس عقیدے کو اختیار کرنے کے بعد نچلی قوموں کے اندر ذہنی غلامی اس طرح رچ بس گئی کہ وہ صدیوں سے غلامی کے بار کو اٹھاتے آ رہے ہیں۔ ملک کی آزادی کے بعد نئے دستور کے مطابق ان کو تعلیم و روزگار میں بے جا مراعات دیے جانے کے باوجود ان نچلی ذاتوں کے اندر سے وہ ذہنی مرعوبیت ختم نہیں ہوئی۔یہ اسلام ہی کی برکت ہے کہ وہ انسانوں کو سب سے پہلے ذہنی غلامی سے آزادی دلاتا ہے۔ذہنی طور پر جب انسان آزاد ہوتے ہیں تو وہ جسمانی، سیاسی اور فوجی غلامی سے بھی آزاد ہونے کا عزم لے کر اٹھتے ہیں۔
غزّہ میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے آسمان سے بموں کی بارش ہو رہی ہے۔ عمارتیں لمحوں میں ملبہ بنتی جا رہی ہیں۔ لاشوں اور زخمیوں کو نکالا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں پانی، غذا، بجلی اور ادویات سے محروم کرتے ہوئے دواخانوں پر بمباری کی جا رہی ہے تاکہ زخمیوں کا علاج نہ ہوسکے۔ اب تو لوگ بیماریوں، بھوک اور پیاس سے بھی مرنے لگے ہیں۔ حکومت کے دباؤ میں آکر صیہونی بزدل فوجی جب میدان میں آنے لگے تو ان کو زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ٹینک سمیت ان کو واصلِ جہنم کیا جا رہا ہے۔ اور جب ان کے فوجی مرنے لگے تو اس کا غصہ اس طرح نکالا جا رہا ہے کہ غزّہ کے جنوب میں بھی عمارتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہود کے درندہ صفت سیاست دانوں کا خیال ہے کہ غزّہ میں جب بچے، عورتیں اور زخمی بھاری تعداد میں مرنے لگیں گے تو حماس کے مجاہدین نرم پڑیں گے اور ایسے سمجھوتے پر راضی ہوں گے جس سے وہ دنیا میں اپنی خفت مٹا سکیں۔
اسرائیل کے لیے تو ہتھیاروں کی درامدات پر کوئی پابندی نہیں لیکن 23 لاکھ لوگوں کے لیے ایک بوتل پانی پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔ یہ عجیب منظر سارے انسانوں کے ضمیر کا امتحان لے رہا ہے اور زمین وآسمان ان حالات کے گواہ بنتے جا رہے ہیں کہ حریت پسند اہلِ غزّہ موت کو ترجیح دیتے ہیں لیکن کسی جابر و متکبر کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ صیہونیوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہمارے لیے فلسطینی خون بہانا جائز ہے اور دنیا بھی ان کی اس سفاکانہ سوچ کا ساتھ دے گی لیکن چند فرعون صفت سیاست دانوں کے سوا دنیا کی اکثریت نے اسرائیل کی بربریت کا مشاہدہ کر کے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اب انسان بالکل کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ کون شیطان صفت درندوں کے ساتھی ہیں اور کس کے اندر ضمیر باقی ہے۔ اہلِ غزہ نے یہودیوں کی اصلیت کو دنیا کے سامنے ننگا کر کے پیش کر دیا ہے۔
قرآن یہ تصور پیش کرتا ہےکہ کامیاب وہ لوگ ہیں جو راہِ حق میں ثابت قدم رہتے ہوئے بڑی سے بڑی آزمائش کو بڑے اطمینانِ قلب کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور ناکام و نامراد وہ ہیں جو ہولناک سزائیں دے کر بھی اہلِ حق کو جھکا نہیں سکتے۔ اصحاب الاخدود کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب ایک بستی میں ایک لڑکے کے ایمان لانے، اس کی ایمان پر ثابت قدمی اور اس لڑکے کے ہاتھوں معجزات دیکھ کر ایمان لانے والوں کو کس طرح اس وقت کے حکم راں نے آگ سے دہکتے ہوئے گڑھوں میں پھینکا تھا لیکن اہلِ ایمان نے ایمان کو آگ میں جلنے پر ترجیح دی تھی۔ جادوگروں نے جب موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لایا اس وقت فرعون ان کو ایمان سے باز رکھنے کے لیے بہت ہی درد ناک سزا سنائی تھی لیکن انہوں نے اس کو قبول کیا اور ایمان پر قائم رہے۔ آلِ یاسر پر مکہ میں مظالم ڈھائے جارہے تھے۔حضرت سمیہؓ اور ان کے شوہر حضرت یاسرؓ نے شہادت کو قبول کیا لیکن کلمہ کفر نہیں کہا۔امیہ بن خلف حضرت بلالؓ کو تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا اور کہتا کہ اب کیا کہتا ہے۔ حضرت بلالؓ احد احد کہتے رہے اور استقامت سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ خبابؓ بن ارت کو انگاروں پر لٹایا جاتا لیکن وہ بھی توحید پر قائم رہے اور اتنی بہیمانہ تعذیب نے ان کو ذرا بھی استقامت سے باز نہیں رکھ سکی۔ ان واقعات سے ایک حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ استقامت ہی اصل کامیابی ہے اوراسی میں ظالموں کی کھلی ناکامی ہے۔
آج اسرائیل کا وزیر اعظم پاگل ہوچکا ہے اور نہتے فلسطینیوں پر اندھا دھند بمباری کر رہا ہے۔ اس کے نزدیک غزّہ کا معصوم بچہ بھی دہشت گرد ہے بالکل اسی طرح جس طرح فرعون بنی اسرائیل کے ہر بچے کو مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ اس لیے وہ بیماروں اور زخمیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اسپتالوں پر تک بمباری کر رہا ہے۔ گویا وہ کہہ رہا ہے کہ ہتھیار ڈال دو ورنہ ہر فرد مرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جو ماضی کے مستکبرین کی تھی جن کے عبرت ناک قصوں کو ہم نے قرآن اور سیرت میں پڑھا ہے۔ آج غزّہ کے شہداء کامیاب ہو چکے ہیں اور اس کے مجاہدین بھی کامیابی کے سفر پر استقامت کے ساتھ گامزن ہیں۔ یہ استقامت صرف اور صرف اسلام کا عقیدہ ہی انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے۔ جان ہر ایک کو عزیز ہوتی ہے اور یہ صرف اس صورت میں قربان کی جاسکتی ہے جب اس بات کا یقین ہو کہ موت کی سرحد کے اس پار اس کا مستقبل تاب ناک اور روشن ہے اور جنت کی ابدی نعمتیں شہید کی منتظر ہیں۔ یہ یقین جتنا گہرا ہوگا اسی قدر ایک مومن کے لیے جان کی بازی لگانا آسان ہوگا۔ یہ حقیقی ایمان کا عملی مظاہرہ ہے جس کا مشاہدہ آج دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے جس کو ہم نے اب تک صرف کتابوں میں پڑھا تھا۔
ماضی کے مستکبرین جب اہلِ حق پر ظلم کی انتہا کرتے تھے تو اس کی ایک وجہ ان کی عزتِ نفس ہوتی تھی اور اہلِ حق کی ثابت قدمی پر ان کو جو خفت ہو رہی ہوتی تھی اس کو مٹا نا مقصود ہوتا تھا۔ وہ غصہ میں پاگل ہو کر ظلم کی آخری حدوں کو پار کر رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح آج اسرائیل کا وزیر اعظم اپنی سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور خفت کو مٹانے کے لیے اپنے ہی ملک کو جنگ کے دلدل میں پھنسا دیا ہے اور اپنی ناکامیوں کو کامیابی کا رخ دینے کے لیے مظلوموں پر اندھا دھند بموں کی بارش کر رہا ہے۔ لیکن یہ سارے کام مستکبرین کی رسوائی اور اہلِ حق کی کامیابی کا ذریعہ بنتے جا رہے ہیں۔ اگر اس جنگ کے نتیجہ میں اہلِ غزّہ کے لاکھوں لوگ بھی شہید ہوجائیں تو ان کا خون اسلام کی رگوں میں بہنے والا خون بن کر اسلام کو زندہ کرے گا۔
اس جنگ میں قرونِ اولیٰ کی کئی یادیں تازہ ہوگئیں ہیں۔ غزّہ کا بیس سال سے محاصرہ شعبِ ابی طالب میں بنو ہاشم سمیت نبی کریم (ﷺ) اور ان کے صحابہ کے محاصرہ کی یاد دلاتا ہے۔ غزوہ احزاب میں مکہ اور اطراف واکناف کے تمام مشرکین کے جتھے یکبارگی مدینہ کی ریاست پر ٹوٹ پڑے تھے۔ غزّہ میں بھی اسرائیل کے ساتھ امریکی و یورپی قومیں فلسطین پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ غزوہ احزاب میں مشرکین کے جتھوں کو خندق کی کھدائی نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اور ان کے ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ اسی طرح غزّہ میں حماس کی سرنگیں اسرائیل کے فوجیوں کے لیے غیر متوقع ثابت ہوئیں ہیں جو ان کے لیے گھات سے کم نہیں ہیں۔ غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) اور آپ اصحاب پر سکینت نازل فرمائی تھی اور فرشتوں سے مدد کی تھی۔ غزّہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے سرفروش مسلمانوں کے اندر سکینت کی کیفیت پیدا کی اور کہیں سے بھی ان کی اموات پر نہ ہی واویلا سنائی دیتا ہے نہ ماتم اور نہ ہی شکوہ۔ ہر ایک کی زبان پر الحمدللہ انا للہ وانا الیہ راجعون ہے حتیٰ کے ان کے بچے بھی صبر کا پیکر بنے ہوئے ہیں۔ غزوۂ احد میں ستر صحابہ کرام کی شہادتوں سے غم کا ماحول پیدا ہو گیا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے تسلی دی تھی۔ آج وہی قرآنی آیات اہلِ غزّہ کو تسکین کا سامان فراہم کر رہی ہیں۔ قرآن کی وہ آیات جو جہاد و قتال سے متعلق ہیں پکار پکار کر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ صبر و ثابت قدمی کے ساتھ شہداء کا خون جب بہتا ہے تو اسلام اس خون سے سیراب ہو کر طاقتور ہونے لگتا ہے۔
جب ظلم مسلسل بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
جب خون بہت بہتا ہے تو رنگ دکھاتا ہے
***
غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) اور آپ اصحاب پر سکینت نازل فرمائی تھی اور فرشتوں سے مدد کی تھی۔ غزّہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے سرفروش مسلمانوں کے اندر سکینت کی کیفیت پیدا کی اور کہیں سے بھی ان کی اموات پر نہ ہی واویلا سنائی دیتا ہے نہ ماتم اور نہ ہی شکوہ۔ ہر ایک کی زبان پر الحمدللہ انا للہ وانا الیہ راجعون ہے حتیٰ کے ان کے بچے بھی صبر کا پیکر بنے ہوئے ہیں۔ غزوۂ احد میں ستر صحابہ کرام کی شہادتوں سے غم کا ماحول پیدا ہو گیا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے تسلی دی تھی۔ آج وہی قرآنی آیات اہلِ غزّہ کو تسکین کا سامان فراہم کر رہی ہیں
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023