جہاد فی سبیل اللہ کا قرآنی نصاب

اہلِ ایمان کوعسکری طاقت میں دشمن سےآگے رہنے کی ہدایت

ڈاکٹر ساجد عباسی

قوتِ ایمانی سے مومنین کی جنگی قوت مقابل سےکئی گنابڑھ جاتی ہے
فی زمانہ دنیا کے سامنے دین اسلام کی غلط تصویر کو پیش کرنے کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کو موضوع بنایا جاتا ہےوہ جہاد ہے۔ جہاد کی حقیقت ،معنویت اور اہمیت کو سمجھنے اور دنیا کو سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے قرآنی نصاب کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ پچھلے مضامین میں ہم نے جہاد سے متعلق آیات اور اسباق پر روشنی ڈالی تھی۔ ذیل میں اس سے آگے کا مضمون بیان کیا جا رہا ہے۔
جنگی حالات میں ذکرو دعا اورنماز
۳۷۔جنگی حالات میں ایک بہترین دعا سکھائی گئی ہے: رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۔”اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر”(سورۃ البقرۃ ۲۵۰)
۳۸۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُواْ وَاذْكُرُواْ اللّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلَحُونَ ۔اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی۔ (سورۃ الانفال ۴۵)
جنگ کےموقع پر ثابت قدمی اور اللہ کا ذکر مطلوب ہے۔اللہ کے ذکر سے روحانی قوت فراہم ہوتی ہےجو صبر ،ثابت قدمی اور توکل پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذکر کی محفلیں سجاکر گوشۂ عزلت میں اللہ اللہ کرنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ دنیا کی مصروفیتوں میں رہ کر اللہ کو یاد کرنے کا حکم دیا ہے۔اور اس وقت ذکر کرنے کا حکم دیا ہے جب اللہ کی مدد کی شدت سے ضرورت ہوتی ہے۔جنگ کا وقت ایسا موقع ہوتا ہے جب ایک بندۂ مومن کی جان ہر آن خطرہ میں ہوتی ہے۔ایسے موقع پر کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا گیا ۔ہروہ کام جو بظاہر دنیاوی ہو لیکن اللہ کے ذکر سے معمور ہوتو وہ کام عین دینی کام بن جاتا ہے۔اور ایک کام بظاہر دینی ہو لیکن اللہ کے ذکر سے خالی ہوتو وہ کام دنیاوی کام(ریا) بن جاتا ہے۔ذکر دعوت، جہاد و قتال اور دنیا کی جائز مشغولیات کے درمیان کرنا مطلوب ہے۔ اسوۂ رسول سےہم کو یہی سبق ملتا ہے کہ آپ رات میں ازواج کے حقوق اداکرتے اور تہجدکا التزام کرتے اور دن میں دعوت،تزکیہ ،تعلیم اور جہاد و قتال میں مصروف رہتے۔آپ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ذکر فرماتے ۔آپ کے پاس اتنا فارغ وقت ہی نہ تھا کہ گوشۂ غزلت میں بیٹھ کر گھنٹوں ذکر فرماتے جس طرح بعد میں خانقاہوں میں مجالس ِ ذکر منعقدکی جانے لگیں۔
۳۹۔وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاَةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُواْ فَلْيَكُونُواْ مِن وَرَآئِكُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَةٌ أُخْرَى لَمْ يُصَلُّواْ فَلْيُصَلُّواْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَى أَن تَضَعُواْ أَسْلِحَتَكُمْ وَخُذُواْ حِذْرَكُمْ إِنَّ اللّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ۔ اور اے نبی ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور (حالتِ جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہوتو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے، پھر جب وہ سجدہ کرلے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آکر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنّا رہےاور اپنے اسلحہ لیے رہے، کیوں کہ کفّار اِس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں۔ البتہ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اسلحہ رکھ دینے میں مضائقہ نہیں، مگر پھر بھی چوکنّے رہو، یقین رکھو کہ اللہ نے کافروں کے لیے رُسوا کُن عذاب مہیّا کررکھا ہے۔(سورۃ النساء ۱۰۲)
حالت جنگ میں بھی نمازکا فرض ساقط نہیں ہوسکتا لیکن اس کے اندر تخفیف ہوسکتی ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ نماز کی کتنی اہمیت ہے اس لیے کہ نماز اللہ سے مدد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور جنگ سے زیادہ کونسا موقع ہوسکتا ہےجس میں اللہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
کفارکی طاقت سے مرعوب نہ ہوں
اہل ایمان ،باطل کے علم برداروں اور ظالموں کی مالی و عسکری طاقت سے مرعوب نہ ہوں ۔ان کے لیے سب کچھ دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔
۴۰۔وَلاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّواْ اللّهَ شَيْئاً يُرِيدُ اللّهُ أَلاَّ يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے۔ (آل عمران ۱۷۶)
۴۱۔ وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ۔ یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔ (آل عمران ۱۷۸)
کفر کے علم برداروں کو جو ڈھیل مل رہی ہے وہ اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں ۔یہ ڈھیل ان کو اس لیے مل رہی ہے کہ ان کے مظالم وجرائم کا تالاب مزید بھر جائے تاکہ ان کے حصہ کا عذاب ان کو آخرت میں ملے۔
۴۲۔لاَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِي الْبِلاَدِ ۝ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ۝ اے نبیؐ! دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔ )آل عمران ۱۹۶-۱۹۷)
یہودومشرکین مومنین کے بدترین دشمن
۴۳۔لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ ۔ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر اُن لوگوں کو پا ؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اِس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرور نفس نہیں ہے۔ (سورۃ المائدہ ۸۲)
اہل ایمان کے بدترین دشمن یہود اور مشرک ہیں اور نصاریٰ عوام کے اندر نرم مزاجی پائی جاتی ہے ۔آج کے دور میں نصاریٰ ہی میں قبول اسلام زیادہ ہورہا ہے۔ قرآن کی یہ پیشین گوئی آج بھی پوری ہو رہی ہے۔
میدانِ جنگ سے فرار گناہِ کبیرہ ہے جس پر اللہ کا غضب ہوگا
۴۴۔وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاء بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ۔قتال کے موقع پر بزدلی دکھا کر میدان جنگ سے بھاگنا گناہِ کبیرہ ہے۔یہ ایسا عمل ہے جس پر اللہ کا غضب ہوگا۔اس پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ۔ اس لیے کہ اس سے ساری فوج کاحوصلہ ٹوٹ سکتا ہے۔(سورۃ الانفال ۱۶)
میدانِ جنگ سے فرارایک ایسا عمل ہے جس ساری فوج کا مورال اور حوصلہ پست ہوسکتا ہے اور جیتی جانے والی جنگ بھی شکست میں تبدیل ہوسکتی ہے۔اسی لیے اس کو کبائر میں شمارکیا گیا ہے جس پر توبہ لازم ہے۔
اتحادِ امت نہ ہوتو ناکامی یقینی ہے
۴۵۔وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔ اور اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کم زوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو،یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۃ الانفال ۴۶)
جنگ میں اتحاد فتح ونصرت کے لیے لازمی عنصر ہے ۔اور اتحاد بین المسلمین، اللہ اور رسول کی اطاعت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ صدق دل سے اہل ایمان اللہ ورسول کی اطاعت پر گامزن ہوں ۔جنگ جیسے نازک موقع پر عدم اتحاداور افتراق امت کو کم زور کردے گا جس سے دشمن کے مقابلے میں ناکامی ہاتھ آئے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی۔
اہلِ ایمان عسکری طاقت میں دشمن سے آگے رہیں
۴۶۔وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ ۔ اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے
گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا۔ (سورۃ الانفال ۶۰)
جہاں تک بس چلے دشمن کے مقابلے میں جنگی قوت کواتنا بڑھایا جائے کہ دشمن کے اندر خوف پیداہو۔یعنی جنگی ٹکنالوجی میں دشمن کے مقابلے میں برتری قائم رکھنے سے دشمن پر رعب قائم ہوگا اور بغیر لڑے ہی اسلامی ریاست کو امن نصیب ہوگا۔اورجنگی مصارف میں خرچ کرنے سے امت کااورآئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ ہوگا۔اورآخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انفاق کا بھرپور بدلہ ملے گا۔جنگی مصارف کے مقابلے میں حکم ران جب بھی عالی شان محلات کی تعمیر میں لگے رہے تو ان پر زوال آکر رہا۔
قوتِ ایمانی سے مومنین کی جنگی قوت کفارومشرکین سےکئی گنابڑھ جاتی ہے
۴۷۔يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ ۝ الآنَ خَفَّفَ اللّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُواْ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔ اے نبی، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمیں صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کم زوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے،اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔ (سورۃ الانفال ۶۵، ۶۶)
رسول اللہ ﷺکو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ اہل ایمان کے اندر جذبۂ قتال پیدا کریں اور ان کے اندرسے بزدلی نکال کر ان کے اندر شجاعت پیدا کریں۔دشمن کے مقابلے میں اسی جذبۂ قتال و شہادت سے دشمن کے مقابلے میں ۲سے ۱۰ گناہ زیادہ طاقت کا اضافہ ہوجاتا ہے۔یہ اس لیے ہےکہ کفار و مشرکین کے دل میں جنگ کا اعلیٰ وارفع مقصد نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے اندر جذبۂ شہادت پیدا ہوتا ہے جیسا ایک مومن کے دل میں پیداہوتا ہے۔
جہادو قتال چوٹی کے اعمال ہیں
۴۸۔أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَوُونَ عِندَ اللّهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ۔ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ (سورۃ التوبہ ۱۹)
حاجیوں کو پانی پلانااور مسجدِ حرام کی تعمیر یقیناًنیک کام ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ اہم یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں جس پر اسلام کی بقا کا انحصار ہوتا ہے۔
۴۹۔قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ۔ اے نبی، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کاتم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (سورۃ التوبہ ۲۴)
جہادفی سبیل اللہ کے مقابلے میں اگر رشتہ دار،اموال،کاروبار اور دل پسند مکانات اہم ہوجائیں تو پھر اللہ کے فیصلہ کے انتظارکرو۔یہ فیصلہ ایک ریاست کی تباہی کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس آیت کے مطابق اسلامی ریاستوں کو زوال اس وقت آیا جب ان کے حکم رانوں نے دشمن سے بے خبر ہوکر جنگی قوت بڑھانے کے بجائے عیش وعشرت کے سامان فراہم کرنے، محلات اور عالی شان عمارتیں بنانے میں اپنی توجہ کو مرکوز کیا تھا۔
۵۰۔فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُواْ فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّن عِندِ اللّهِ وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ۔ جواب میں ان کے رب نے فرمایا ”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے ان کے سب قصور میں معاف کردوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کر دوں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ان کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہتر ین جزا اللہ ہی کے پاس ہے“
(آل عمران ۱۹۵)
ایمان باللہ اورایمان بالرسالت کے بعد سب سے بڑے اعمال یہ ہیں : اللہ کی راہ میں ستائے جانے، اپنے گھروں سے نکالے جانے اور اللہ کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہونے پر صبر اختیارکرنا۔ اللہ کی راہ میں لڑنا جس کے نتیجے میں کچھ لوگ غازی بن جاتے ہیں تو کچھ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں ۔
۵۱۔إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ ۔اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (سورۃ الصف ۴)
اللہ کے محبوب ترین بندے وہ ہیں جو اللہ کی خاطر متحد ہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں۔ سیسہ پلائی ہوئی اسی وقت بنتے ہیں جب سب کے نزدیک جہاد کرنے کا ایک ہی اعلیٰ مقصدہو جوکہ اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اور سب کے اندر اخلاص کے ساتھ فی سبیل اللہ، جذبۂ شہادت کے ساتھ لڑنے کا داعیہ ہو۔
اسلام کا غلبہ ساری دنیا میں ہو کر رہے گا
۵۲۔يُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
(سورۃ التوبہ ۳۲)
کفارومشرکین اللہ کے نوریعنی اسلام کو جھوٹے پروپیگنڈے سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کو حق اور دلائل سے ایسا قوی ترین بنادیا ہے کہ کفار اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسی بات کو سورۃ الصف آیت ۸ میں بھی دہرایا گیا ۔
۵۳۔هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکے ذریعے اسلام کو جزیرہ نمائے عرب میں غالب نظامِ حیات کے طورپر عسکری طاقت کے ساتھ قائم فرمایا لیکن اسلام کو عقیدہ و فکر کے طورپر سارے عالم میں غالب ہونے کی بنیادیں فراہم کردی گئیں۔یہ عظیم الشان کامیابی تمام انبیاء میں صرف محمد ﷺ کو اس لیے ملی کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور اسلامی نظام کا ماڈل آپ کی زندگی میں قائم ہونا اس لیے ضروری تھا تاکہ یہ نظام حیات قیامت تک کے لیے ایک نمونہ بن جائے۔اس آیت کو سورۃ الصف آیت ۹میں اورتھوڑے سے فرق کے ساتھ سورۃ الفتح آیت ۲۸ میں دہرایا گیا ۔
فکری جہاد، جہاد کبیر ہے
۵۴۔۔: فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ۔پس اے نبیؐ ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔ (سورۃ فرقان ۵۲)
میدان جنگ میں جہاد و قتال کے ساتھ قرآن فکری جہاد پر بہت زور دیتا ہے اور اس فکری جہاد کو جہادِ کبیر کہا گیا ہے ۔اس لیے کہ فکری جہاد ہمہ وقت جاری و ساری رہتا ہے ۔یہ جہاد کسی بھی جگہ پر ہر مسلمان کر سکتا ہے۔ ہر مسلمان کسی نہ کسی سطح پر اس جہاد کا مکلف بھی ہے اور مسئول بھی۔ جبکہ قتال ہر وقت درپیش نہیں ہوتا اور دعوتی و فکری جہاد کے بعد ہی ہجرت ،جہاد و قتال کے مراحل نمودار ہوتے ہیں۔اگر دعوتی میدان میں جہاد نہ کیا گیا تو اگلے مراحل ومحاذ پیدا ہی نہیں ہوتے ۔
۵۵۔وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ۔جو اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اللہ ان کے لیے نئی راہوں کی طرف رہنمائی فرماتا ہے۔ سورۃ العنکبوت ۶۹)
اس آیت میں ہر قسم کی جدوجہد (فکری و عسکری) کا احاطہ کر دیا گیا ہے اور اللہ کی رہ نمائی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ (جاری)

 

***

 جنگ میں اتحاد فتح ونصرت کے لیے لازمی عنصر ہے ۔اور اتحاد بین المسلمین، اللہ اور رسول کی اطاعت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ صدق دل سے اہل ایمان اللہ ورسول کی اطاعت پر گامزن ہوں ۔جنگ جیسے نازک موقع پر عدم اتحاداور افتراق امت کو کم زور کردے گا جس سے دشمن کے مقابلے میں ناکامی ہاتھ آئے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024