جنوں کی نمائش اور اہل خرد کی آزمائش
ماہ ربیع الاول میں زیادہ سے زیادہ برادران وطن تک حضور اکرم کی سیرت پہنچائیں
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
یادش بخیر ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی نے جب گستاخ رسول سلمان رشدی کے قتل کا فتوی صادر کیا تھا اس وقت ہندوستان کے طول وعرض میں دو درجن سے زیادہ بڑے دار الافتا موجود تھے، فقہ اکیڈمی موجود تھی اور اس میں اہل علم اور ماہرین شریعت موجود تھے۔ حدیث و فقہ کے اساتذہ مسند تدریس پر فائز تھے، ان میں سے کسی نے بھی آیت اللہ خمینی صاحب کی حمایت نہیں کی تھی۔ سعودی عرب میں علماء موجود تھے مصر میں جامعہ ازہر تھا کہیں کسی عالم نے یہ بیان نہیں دیا کہ یہ فتوی علی الاطلاق درست ہے۔ اگر کسی عالم نے حمایت کی تھی تو شریعت کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا بلکہ محبت رسول کے جذبہ شدید کے زیر اثر اس نے حمایت کا اعلان کیا ورنہ نناوے فی صد علماء اور مفتیان شریعت اس فکر کے قائل تھے اور ہیں کہ شاتم رسول کی سزا قتل ضرور ہے لیکن یہ سزا وہاں نافذ ہو گی جہاں اسلامی حکومت قائم ہے، جہاں شریعت کے حدود جہاں جاری کیے جاتے ہیں جہاں چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں جہاں زانی کو سنگسار کیا جاتا ہے وغیرہ۔ اگر سلمان رشدی ایران میں ہوتا، پاکستان میں ہوتا یا سرزمین حجازمیں ہوتا تو آیت اللہ خمینی کا فتوی قابل تنفیذ ہوتا لیکن وہ تو انگلینڈ میں تھا جہاں اسلامی شریعت کی عمل داری نہیں تھی جہاں کوئی حد جاری نہیں تھی، جہاں کا ماحول ایسا ہے کہ جو گناہ کیجئے ثواب ہے یعنی نہ اس پر کسی کا عتاب ہے نہ عقاب ہے۔ معلوم ہوا کہ ’’سر تن سے جدا‘‘ کے نعرے صرف جذباتی نعرے ہیں، اسلامی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں یعنی ہر ماحول اور ہر ملک کے لیے یہ سزا موزوں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بہت گہرائی کے ساتھ مسلمانوں کے جوش جنوں اور نعرہ خوں کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے اس شدید جذباتی ردعمل میں تنہا محبت رسول کی کارفرمائی نہیں ہے بلکہ اس میں اپنی ذات اور اپنی قوم وملت کی محبت کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ حالات میں ایک مسلمان اہانت کے واقعات میں اپنی اہانت اور اپنی قوم اور اپنی ملت کی اہانت بھی محسوس کرتا ہے۔ اہانت کرنے والے بھی اصلا مسلمانوں کی ہی توہین کرنا چاہتے ہیں۔ احتجاج بلاشبہ محبت رسول کا اظہار ہے اور حب نبوی کی علامت ہے لیکن ایک مسلمان بھی اسے اپنی توہین اور اپنی ذات پر حملہ تصور کرتا ہے۔ درست ہے کہ گستاخی رسول ہر مسلمان کے لے ناقابل برداشت ہے ایک مسلمان ہر تکلیف برداشت کر سکتا ہے لیکن پیغمبر کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ پروانہ کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس اور ایک مسلمان کے لیے خدا کا رسول بس۔ یہ عشق ہے کوئی کھیل نہیں ہے یہ کار شیشہ و آہن ہے۔ لیکن عشق نبوی کا تقاضا یہ بھی تو ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی امت کو جان ومال کے عظیم خسارہ سے بچایا جائے۔ اس لیے مسلمانوں کو کسی آتش گیر مادہ کی طرح زود مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن میں اس بات کا بھی حکم ہے ’’واعرض عن الجاہلین‘‘ جاہلوں سے درگزر کرو ’’واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما‘‘ جب نادان تمہیں چھیڑیں تو تم ان سے بیگانگی برتو اور دوری اختیار کرو۔ اگر مسلمانوں کو اپنے رسول سے سچ مچ عشق ہے تو اس کے اظہار کا طریقہ ’’سر تن سے جدا‘‘ کے نعرے لگانا نہیں ہے، محبت کے اظہار کا صحیح طریقہ اپنے رسول کے حالات زندگی کو برادران وطن تک پہنچانا ہے۔ جب رسول کے حالات زندگی غیر مسلم پڑھتے ہیں تو ان کی دنیا بدل جاتی ہے۔ ایک عیسائی نے جب پوری دنیا کی سو عظیم ہستیوں کا مطالعہ کیا تو اس نے حضور اکرم کو پہلا نمبر دیا حالانکہ عیسائی ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح کو اسے پہلا نمبر دینا چاہیے تھا اور سائنٹسٹ ہونے کی حیثیت سے نیوٹن کو یا کسی اور سائنس دان کو پہلا درجہ اسے دینا چاہیے تھا۔ اس کی کتاب ’’دی ہنڈریڈ‘‘ کے نام سے دنیا میں آچکی ہے اور کافی مشہور ہو چکی ہے۔
جو لوگ میدان کار میں اترنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور برادران وطن تک حضور اکرم کی سیرت کو پہنچانا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ جب وہ سیرت کے جلسے منعقد کریں تو برادران وطن کی بڑی تعداد کو شریک ہونے کے لیے اصرار کے ساتھ دعوت دیں۔ جلسہ سیرۃ النبی کا اصل کام شامیانے اور کرسیوں کا انتظام کرنا اور اسٹیج کو آراستہ کرنا نہیں ہے بلکہ بڑی تعداد میں ایسے کارکن تیار کرنا ہے جو جلسہ میں شریک ہونے کی لیے کم از کم ایک ہزار غیر مسلموں کو دعوت دیں، دعوت نامے گھروں تک پہنچائیں اور ان کو شریک ہونے کے لیے ٹیلیفون کریں، جلسہ میں ان کا اعزاز کریں اور سیرت پر کتابوں کے تحفے دیں۔ اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ مناسب اسپیکر کا انتظام کریں جو غیر مسلموں کو بھی خطاب کرنے کا اہل ہو، جس شہر میں مولانا صادق محی الدین اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جیسے علماء موجود ہوں، جہاں دینی مدارس ہوں دینی تنظیمیں ہوں وہاں ان کے مشورہ سے مناسب اسپیکر کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ حیدرآباد میں جہاں حال میں بعض افسوسناک واقعات پیش آئے ہیں وہاں بہت بڑے سیرت کے جلسے بھی منعقد ہوتے ہیں لیکن ان جلسوں میں غیر مسلم شریک نہیں ہوتے ہیں نہ ان کو اصرار کے ساتھ واہتمام کے ساتھ بلایا جاتا ہے نہ ان کے لیے سیرت میں دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہاں تک کہ جو نعتیں پڑھی جاتی ہیں ان میں بھی معیار اور حسن ذوق کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ اب ربیع الاول کا مہینہ آنے والا ہے، کاش جلسہ سیرۃ النبی کے منتظمین ان باتوں کا خیال رکھیں تاکہ سیرت کی خوشبو پھیل سکے اور غیر مسلموں کے مشام جاں کو معطر کر سکے۔ حیدرآباد کے لوگ چاہیں تو ہزاروں غیر مسلموں کو سیرت سے مانوس کر سکتے ہیں۔ حیدرآباد ہی کے ایک ہندو شاعر مہاراجہ کشن پرشاد کانعت کا شعر ہے
کافر ہوں کہ مومن ہوں خدا جانے میں کیا ہوں
پر بندہ ہوں ان کا جو ہیں سلطان مدینہ
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022