جموں کے ڈیفینس پی آر او نے ہندوتوا شدت پسندوں کی تنقید کے بعد فوج کی جانب سے منعقد افطار پارٹی سے متعلق ٹویٹ کو حذف کردیا
نئی دہلی، اپریل 25: جموں میں وزارت دفاع کے تعلقات عامہ کے افسر نے مبینہ طور پر فورس کی سیکولر روایات کو اجاگر کرنے والا ایک ٹویٹ حذف کر دیا جب اس پر سدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے نے تنقید کی۔
پی آر او جموں ہینڈل نے 21 اپریل کو ڈوڈہ ضلع میں ہندوستانی فوج کی طرف سے مسلمانوں کے لیے منعقد کی گئی افطار پارٹی کی تصویریں ٹویٹ کی تھیں۔ تصاویر میں فوجی اہلکاروں کو رہائشیوں کے ساتھ کھانا بانٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
فوج نے ٹویٹ کیا تھا ’’سیکولرازم کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے، بھارتی فوج نے ڈوڈا ضلع کے ارنورہ میں افطار کا اہتمام کیا۔‘‘
ٹویٹ کے جواب میں چوہانکے نے لکھا ’’اب یہ بیماری ہندوستانی فوج میں بھی پھیل گئی ہے؟ افسوس ناک!‘‘
بوم ویب سائٹ کی خبر کے مطابق کئی سوشل میڈیا صارفین نے نفرت انگیز مواد کے لیے چوہانکے کی ٹویٹ کو رپورٹ کیا، لیکن ٹویٹر نے جواب دیا کہ پوسٹ اس کے حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ ساتھ دفاعی اہلکاروں نے بھی بھارتی فوج کی جانب سے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
شمالی کمان کے سابق جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ایچ ایس پناگ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ٹویٹ کا دفاع کرنے میں ناکامی اور اسے حذف کرنا بزدلی ہے۔
پناگ نے اخبار کو بتایا ’’متعلقہ پی آر او اور فوج کو رمضان کے دوران افطار کرنے کی روایت کا دفاع کرنے کی ہمت ہونی چاہیے تھی۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ مقامی آبادی کے دل و دماغ جیتنے کے لیے فوج کی پالیسی کا حصہ ہے۔‘‘
افسر نے نشان دہی کی کہ جموں و کشمیر میں افطار کا انعقاد ایک پرانا رواج رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم مقامی آبادی کے لیے آرمی گڈ ول اسکول بھی چلاتے ہیں اور ان تمام اقدامات کا مقصد مقامی آبادی کو ساتھ لے کر چلنا ہے کیوں کہ ہم غیر ملکی اسپانسر شدہ عسکریت پسندی کا مقابلہ کرتے ہیں اور مقامی لوگ ان کوششوں کو سراہتے ہیں۔‘‘
میجر جنرل یش مور (ریٹائرڈ) نے کہا کہ ہندوستانی فوج بین المذاہب ہم آہنگی میں سب سے آگے رہی ہے۔
انھوں نے ٹویٹ کیا ’’ہمیں بطور افسر اس حقیقت پر فخر ہے کہ ہمارا کوئی مذہب نہیں ہے، ہم صرف ان فوجیوں کا مذہب اپناتے ہیں جن کی ہم کمانڈ کرتے ہیں۔‘‘
ویسٹرن کمانڈ کے سابق جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نے بھی کہا کہ فوج کو اس ٹویٹ کا دفاع کرنا چاہیے تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’’فوج شورش زدہ علاقے میں افطار کراتی ہے کیوں کہ مقامی آبادی تک پہنچنا عسکریت پسندوں سے لڑنے کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اور جموں و کشمیر کے اس حصے کے مسلمان آپ یا مجھ سے زیادہ ہندوستانی ہیں۔‘‘
افسر نے کہا کہ فوج دوسرے علاقوں میں دوسرے مذہب کے لیے اسی طرح کی کارروائیاں کرتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا ’’حقیقت میں ہم شمال مشرق میں بھی عیسائی آبادی تک پہنچ کر ایسا کرتے ہیں۔ اس کا مذہب یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ خالصتاً لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر عسکریت پسندی سے لڑنے کا ایک حصہ ہے۔‘‘
معلوم ہو کہ چوہانکے پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف بول چکے ہیں۔
دسمبر میں دہلی میں منعقد ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کی ویڈیو میں سے ایک میں چوہانکے کو ہندوستان کو ایک ’’ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے لیے ’’مرنے کے لیے اور مارنے‘‘ کا حلف دلاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
ابھی حال ہی میں اپریل میں چوہانکے ایک ہندو مہاپنچایت کے مقررین میں سے ایک تھے جس کے دوران دہلی کے براری علاقے میں تقریب میں شرکت کرنے والوں نے سات صحافیوں کو مارا اور ان پر حملہ کیا، جن میں چار صحافی مسلمان تھے اور ان کی مذہبی شناخت کے سبب انھیں مبینہ طور پر نشانہ بنایا گیا۔
اگست 2020 میں سدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹر نے دعویٰ کیا تھا کہ یونین پبلک سروس کے امتحانات میں شرکت کرنے اور پاس کرنے والے مسلمانوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوا ہے اور اس نے اسے ’’UPSC جہاد‘‘ کا نام دیا تھا۔