دہلی: جہانگیر پوری کے باشندوں نے ’ترنگا یاترا‘ میں حصہ لیا، لوگوں سے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی

نئی دہلی، اپریل 25: دی ہندو کی خبر کے مطابق دہلی کے جہانگیر پوری علاقے کے تقریباً 200 رہائشیوں نے اتوار کی شام کو ایک ’’ترنگا یاترا‘‘ میں حصہ لیا تاکہ وہاں تشدد پھوٹنے کے بعد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام دیا جا سکے۔

اس ریلی میں ہندو اور مسلمان دونوں نے ترنگا اٹھا رکھا تھا اور ’’ہندو مسلم سکھ عیسائی، آپس میں ہیں بھائی بھائی‘‘ اور ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے لگائے۔

انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا کہ علاقے میں پولیس اہلکار تعینات رہے، لیکن اتوار کو حکام نے کئی رکاوٹیں ہٹا دیں اور حفاظتی اقدامات کو کم کر دیا۔

مارچ کا آغاز سی بلاک سے ہوا جہاں گزشتہ ہفتے شہری حکام نے کئی دکانوں کو مسمار کر دیا تھا۔ بعد میں یہ ہندو اکثریتی جی بلاک کی طرف بڑھا اور تقریباً 30 منٹ کے بعد ختم ہوا۔

مارچ کے دوران علاقے کی کئی دکانوں اور گھروں پر بھی ترنگا لہرایا گیا۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ویسٹ) اوشا رنگنی نے کہا کہ پولیس نے ایک امن کمیٹی قائم کی ہے جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’انھوں نے جہانگیر پوری میں ایک ’’ترنگا یاترا‘‘ منعقد کرنے کی تجویز پیش کی اور لوگوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی اپیل کی۔‘‘

16 اپریل کو جہانگیر پوری کی ایک مسجد کے سامنے سے ہنومان جینتی کے جلوس کے گزرنے کے دوران ہونے والے تشدد میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک مقامی باشندہ زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ہندو اور مسلم گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔

رہائشیوں کا کہنا تھا کہ جلوس کے شرکا تلواروں اور ترشولوں سے لیس تھے، جب کہ ویڈیوز میں ان میں سے کچھ بندوقیں اٹھائے ہوئے اور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

تین دن بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن نے ایک مقامی مسجد کے داخلی دروازے اور کئی دکانوں، مکانات اور دیگر عمارتوں کو گرا دیا، جن میں زیادہ تر مسلمانوں کے تھے۔

اتوار کو تاجر راکیش مہرا نے الزام لگایا کہ تشدد کرنے والے باہر کے لوگ تھے اور کہا کہ یہ مارچ امن کی طرف ایک ابتدائی قدم تھا۔ انھوں نے کہا کہ میرا ایک دوست بھی جھڑپوں میں زخمی ہوا لیکن میں اس دن جو کچھ ہوا اسے بھول کر امن کا پیغام پھیلانا چاہتا ہوں۔

موبائل فون فروخت کرنے والے اسرار خان نے کہا کہ انھیں تکلیف ہوئی کیوں کہ بہت سے لوگ مقامی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کہتے ہیں اور ان کے پڑوسی انھیں پتھرباز کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لیکن آج کا دن مختلف ہے، میں باہر نکلا اور سب نے مجھے گلے لگایا۔ ہو سکتا ہے ہم روز بات نہ کریں لیکن ہم نے ساتھ مارچ کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب بھائی ہیں اور ہمیں اصلاح کرنی چاہیے۔ میں یاترا کے بعد روزہ کھولنے کے لیے گھر چلا گیا۔ مجھے امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے اور ہم عید منائیں گے۔‘‘

خان نے کہا کہ مسماری مہم کے دوران ان کی دکان کا ایک حصہ مسمار کر دیا گیا تھا۔

ڈی سی پی اوشا رنگنی نے کہا کہ ریلی نے امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ انھوں نے کہا ’’دونوں برادریوں کے اراکین نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ترنگا سب سے اہم ہے۔ انھوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ قوم پہلی ترجیح۔‘‘