!!جمہوریت کا مطلب ووٹ دینا، منسٹر اور پرائم منسٹر بنانا اور پھر ۔۔۔
مرکزی انتخابات بھارت کی سلامتی کے لیے نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
امریکہ میں انتخابات کے نتائج کے بعد خوں ریزی کے اندیشے!
بھارت کا رنگ برنگا معاشرہ جو تہذیب و ثقافت اور تمدن و تنوع اپنے اندر رکھتا ہے وہ غالباً دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں پایا جاتا۔ لیکن کیا یہاں کا رہنے والا باشندہ کبھی یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ یہ تمام خوب صورتی اور رنگا رنگی اچانک ختم ہو جائے گی اور چہار جانب صرف ایک رنگ، ایک تہذیب، ایک نظریہ غالب ہو جائے گا اور اس طرح غالب ہو جائے گا کہ سب کو اپنی شناخت ختم کرنے پر مجبور کر دے گا؟ اور اگر ایسا ہوا تو کیا یہ خوب صورتی و صناعی جو دل کو موہ لینے میں مدد گار ہوتی ہے، دماغ کو مطمئن رکھنے کا ذریعہ بنتی ہے اور روح کو سکون وخوشی کا احساس دلاتی ہے وہ باقی رہ سکے گی؟ آپ فوراً یہی کہیں گے کہ نہیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہوسکتا کہ سب کچھ ختم ہو کر یک رنگا ہوجائے اور پھر بھی سب طرف خوشیاں ہی پھیلی رہیں۔ ہاں ایک صورت یہ ہے کہ عدل و انصاف کا بول بالا ہو، عقائد، نظریات اور مذہب پر عمل درآمد کی مکمل آزادی ہو اور ساتھ ہی انسانی جان کا نہ صرف احترام ہو بلکہ اس کو ہر طرح کی حفاظت بھی فراہم کی جائے، اس کے ساتھ ایک نظریہ کا اقتدار ہو تو وہ اقتدار صرف ایک نظریہ کا یک رنگا نہیں ہوگا بلکہ اس میں تمام رنگ اپنی افزائش کے لحاظ سے پروان چڑھیں گے اور ساتھ ہی تکریم انسانیت بھی قائم رہے گی۔
آئیے اب ملک عزیز میں جاری کچھ حالات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس ملک کی خوب صورتی جو مختلف حیثیتوں میں پائی جاتی ہے اسے کیسے تار تار کیا جا رہا ہے یا بالفاظ دیگر ایک نظریہ اور ایک وژن کے حصول کے لیے سب کو ایک ہی لائن پر لانے کی کس طرح کوشش کی جا رہی ہے۔ دا وائر نے ہیومن رائٹس واچ کی 18؍ مارچ 2024 کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی حکام بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولنے والے ہندوستانی نژاد غیر ملکی ناقدین کے ویزے منسوخ کر رہے ہیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ وزیر اعظم مودی اکثر ہندوستانی جمہوریت کا جشن منانے امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور دوسری جگہوں پر پارٹی کی حمایت کرنے والے تارکین وطن کی اجتماعی میٹنگوں میں شرکت کرتے ہیں، جبکہ ان کی حکومت نے ان لوگوں کو نشانہ بنایا ہے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی ‘شبیہ کو داغ دار‘ کر رہے ہیں۔ اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) کا درجہ ہندوستانی نژاد غیر ملکی شہریوں یا ہندوستانی شہریوں سے شادی شدہ غیر ملکیوں کو دیا جاتا ہے، تاکہ انہیں یہاں رہنے کے وسیع رہائشی حقوق مل سکیں اور ویزا کی ضروریات کو در کنار کیا جا سکے۔ تاہم، یہ حقوق شہریت کے برابر نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق جن لوگوں کا او سی آئی ویزا اسٹیٹس رد کر دیا گیا ہے، ان میں سے کئی ہندوستانی نژاد ماہرین تعلیم، کارکن اور صحافی ہیں جو بی جے پی کے ہندو اکثریتی نظریے کی کھلے عام تنقید کرتے رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا کہ بی جے پی کی توہین آمیز اور امتیازی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے تارکین وطن بھارتیوں کے خلاف بھارتی حکومت کی کارروائی تنقید اور بات چیت کے بارے میں اس کے رویے کو ظاہر کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکام بھارتی کارکنوں اور ماہرین تعلیم سے لے کر بیرون ملک مقیم ہندوستانی نژاد غیر ملکی شہریوں تک ہر ایک کے خلاف سیاسی طور پر جبر کرنے کو آمادہ ہیں۔ بی جے پی حکومت حالیہ برسوں میں این آر آئی کے لیے ویزا کی حیثیت کو لے کر زیادہ محتاط ہو گئی ہے۔2021 میں حکومت نے 4.5 ملین او سی آئی کارڈ ہولڈرز کو غیر ملکی شہریوں کے طور پر دوبارہ درجہ بندی کرکے ان کی سہولیات کو کم کر دیا اور اب انہیں تحقیق اور صحافت کرنے یا محفوظ کے طور پر درج ہندوستان کے کسی بھی علاقے کا دورہ کرنے کے لیے خصوصی اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پچھلی دہائی میں حکومت نے مبینہ طور پر آئین کے تئیں عدم اطمینان کا اظہار کرنے کے لیے ایک سو سے زیادہ پرمٹ رد کر دیے ہیں اور کچھ این آر آئیز کو ملک بدر بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے او سی آئی کارڈ ہولڈرز کے لیے تشویش بڑھ گئی ہے، چاہے وہ بھارت میں رہ رہے ہوں یا بیرون ملک۔ ان میں سے کئی کے والدین معمر ہیں اور کچھ کے ہندوستان سے مضبوط ذاتی تعلقات ہیں۔
اگرچہ آزادی اظہار رائے تمام جمہوری ممالک میں موجود ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً حکومتوں کی جانب سے اس پر قدغن لگانے کی کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اسی تعلق سے یہ خبر اہم ہے کہ 21؍ مارچ 2024 کو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے اس نوٹیفکیشن پر روک لگا دی جس میں فیکٹ چیک یونٹ کو نافذ کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ 20؍ مارچ 2024 ہی کے دن حکومت کی الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی وزارت نے آئی ٹی (ترمیمی) ایکٹ کے تحت فیکٹ چیک یونٹ کے قوانین کو لاگو کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ آئی ٹی ترمیمی ایکٹ 2023 کے قوانین کو بامبے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے تک فیکٹ چیک یونٹ کے نوٹیفکیشن پر پابندی لگانے کا حکم دیا ہے۔ حکومت نے سوشل میڈیا پر مواد کی نگرانی کے لیے آئی ٹی ترمیمی ایکٹ کے تحت فیکٹ چیک یونٹ تشکیل دیا تھا جو حکومت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں جیسے فیس بک، ایکس یا انسٹاگرام وغیرہ پر موجود مواد کی نگرانی کرے گا اور یہ یونٹ کسی بھی معلومات کو جعلی یا غلط قرار دے سکتا ہے۔ فیکٹ چیک یونٹ کے اعتراض کے بعد اس مواد یا پوسٹ کو سوشل میڈیا سے ہٹانا ہوگا اور اس کے یو آر ایل کو بھی انٹرنیٹ سے بلاک کرنا ہو گا۔ فیکٹ چیک یونٹ ایک نوڈل ایجنسی ہوگی۔ اس قانون کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، نیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن اور ایسوسی ایشن آف انڈین میگزینز نے آئی ٹی قوانین میں ترمیم کے خلاف بامبے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں آئی ٹی ترمیمی ایکٹ کے قواعد کو غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ ایڈیٹرز گلڈ کا کہنا ہے کہ جعلی خبروں کا فیصلہ کرنے کا پورا اختیار حکومت کے ہاتھ میں آجائے گا جو میڈیا کی آزادی کے خلاف ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کے تین ججوں جسٹس جی ایس پٹیل، جسٹس نیلا گوکھلے اور جسٹس چندورکر کی بنچ فیکٹ چیک یونٹ پر پابندی لگانے پر اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکی اور اس پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا۔ فیکٹ چیک یونٹ کیس ابھی بھی بامبے ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ہائی کورٹ سے راحت نہ ملنے پر درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں سے اب انہیں راحت مل گئی ہے۔یعنی راحت جو ملی ہے وہ سپریم کورٹ آف انڈیا سے ملی ہے اور آج کل سپریم کورٹ ہی عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کے لیے ایک امید بنا ہوا ہے کہ اگر کچھ غلط ہوگا تو سپریم کورٹ کا فیصلہ انہیں بچالے گا۔ لیکن اسی سپریم کورٹ میں درخواست دینے کے بعد دہلی کے سٹنگ چیف منسٹر اروند کیجریوال نے تین ججوں کی بنچ کے نام سن کر یا قانونی ماہرین کے مشورے کے بعد اپنی درخواست واپس لے لی جبکہ انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور سماعت جاری تھی۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ بھی سپریم کورٹ یا اس کی بنچ سے جڑا ایک سوال ہے۔
عدل و انصاف اور امن و امان کا قیام ریاست یا اس کے ان افسران پر جو اس سے وابستہ ہوں ایک اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے۔ مقامی سطح پر اس میں پولیس کا اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن یہ واقعہ بھی سامنے آیا کہ ممبئی پولیس میں انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے طور پر جانے جانے والے سابق پولیس افسر پردیپ شرما کو 18 سال پرانے فرضی انکاؤنٹر کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے بارے میں ٹائمز آف انڈیا، انگلش ایڈیشن کے مطابق بمبئی ہائی کورٹ نے سزا سناتے ہوئے پردیپ شرما کو تین ہفتوں کے اندر سرینڈر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مہاراشٹر میں پہلی بار کسی پولیس افسر کو انکاؤنٹر کیس میں قصوروار پایا گیا ہے۔ بمبئی ہائی کورٹ نے چھوٹا راجن گینگ کے رکن رام نارائن گپتا عرف لکھن بھیا کے فرضی انکاؤنٹر کیس میں پردیپ شرما کو سزا سنائی ہے۔ ہائی کورٹ نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ رام نارائن کو پولیس نے مارا تھا اور یہ بالکل واضح ہے کہ یہ ایک فرضی انکاؤنٹر تھا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ قانون کے محافظوں کو وردی میں مجرموں کی طرح کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔یاد رہے کہ پردیپ شرما اپنی 25 سال کی پولیس سروس میں 112 مجرموں کا انکاؤنٹر کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اسے 2008 میں انڈر ورلڈ سے تعلق رکھنے کے الزام میں پولیس سروس سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ تاہم، ٹریبونل نے اسے 2017 میں بحال کر دیا تھا۔ اور یہ انکاؤنٹر کا واقعہ پہلی مرتبہ اس فیصلے کے تحت سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اس سے پہلے نہ جانے کتنی مرتبہ فرضی انکاؤنٹر کے الزام پولیس والوں پر لگے ہیں۔ لیکن عموماً فیصلے، جن پر لوگوں نے الزام لگائے ان کے حق میں نہیں کے برابر آتے ہیں۔ یعنی جن لوگوں کو عوام کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی ہے ان پر سے عوام کا اعتماد اٹھنے لگا ہے لیکن حالیہ فیصلے نے 112 مجرموں کے انکاؤنٹر کے بعد ایک معاملے میں اپنا فیصلہ بدل دیا ۔اب یہ کسی کو نہیں معلوم کہ ان 112 میں سے کتنے فرضی اور کتنے حقیقی انکاؤنٹر تھے۔ سوال یہ ہے کہ انکاؤنٹر کرنے کے علاوہ کیا پولیس کے پاس کوئی اور دوسرا حل نہیں ہوتا کہ ملزم کو زندہ پکڑ لیا جائے؟
اور اب دنیا کی سب سے بڑی سوپر پاور کے ایک سابق صدر کا تذکرہ کرتے ہیں جو ایک زمانے میں وزیر اعظم مودی کے قریبی دوست تھے۔ تذکرہ ڈونالڈ ٹرمپ کا ہے جنہوں نے دنیا کو خبر دار کیا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب نہیں ہوئے تو ملک میں خوں ریزی ہو گی۔ سابق صدر ٹرمپ نے خوں ریزی سے متعلق بیان امریکی آٹو انڈسٹری کو لاحق خطرات سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے دیا۔ ٹرمپ نے میکسیکو میں گاڑیاں بنا کر امریکیوں کو فروخت کرنے کے چینی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں منتخب ہو گیا تو ایک ایک گاڑی پر سو فیصد ٹیکس لگاؤں گا جس کے بعد چین ان گاڑیوں کو امریکہ میں فروخت کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ لیکن اگر میں منتخب نہیں ہوا تو یہ سب کے لیے خوں ریز ثابت ہو گا۔ لیکن یہ خوں ریزی کیا بھارت میں بھی ہوگی اگر ڈونالڈ ٹرمپ کے دوست ایک بار پھر منتخب نہیں ہوئے؟ یہ وقت ہی بتائے گا لیکن حالات یہی کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں 2024 کے لوک سبھا انتخابات اور اس کے بعد کے حالات پر سکون نہیں ہوں گے چاہے ٹرمپ کے دوست کامیاب ہوں یا ناکام۔ کیونکہ وہ غریب، بے چاری، بھوک و افلاس کی ماری اور مہنگائی و بے روزگاری سے بوجھل عوام جن کے حصے میں عموماً سکون و اطمینان اور خوشی و راحت کم ہی آتی ہے۔ وہ موجودہ حالات ہوں یا مستقبل، ایسا محسوس ہوتا کہ ان کے حصے میں سکون و اطمینان کے لمحات فی الوقت آنے والے نہیں ہیں۔ اب چاہے وہ اِس پارٹی کے ہوں یا اس پارٹی کے یا کسی بھی پارٹی کے نہ ہوں، ہیں تو وہ عوام ہی اور عوام کا کام ووٹ دینا ہے حکومت چننا، منسٹر اور پرائم منسٹر بنانا اور پھر اپنے شب و روز کی پریشانیوں میں مصروف ہو جانا۔ آپ نے جن کو ووٹ دیا تھا، منتخب کیا تھا، کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ چاہیں تو اسی پارٹی میں رہیں جس میں آپ نے انہیں منتخب کیا تھا یا وہ اپنے حالات و مفادات یا اوپر سے پڑنے والے دباؤ جسے کبھی لالچ سے مستعار لیا جاتا ہے تو کبھی پریشر سے یا کبھی ڈر اور خوف سے تو کبھی ظلم و زیادتی سے، کسی بھی معنی میں آپ لے لیجیے کامیابی حاصل کرنے کے بعد فیصلہ کے حق دار تو وہ خود ہیں۔ یہی بھارتی جمہوریت ہے اور یہی آج کا چلتا پھرتا اور معروف سیاسی ٹرینڈ بھی۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ وقت اور اس کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے موجودہ ٹرینڈ کے ساتھ ہی چلنا چاہیے۔ اوراگر ایسا نہیں کریں گے تو یا وقت آگے نکل جائے گا یہ ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ اس پیچھے رہنے کے غم میں یہ لیڈر آج کل بہت افسردہ ہیں۔شاید اسی لیے وہ موجودہ ٹرینڈ کا بہت لحاظ رکھنے لگے ہیں۔ چاہے یہ ٹرینڈ آپ کی شناخت کو مجروح کر دے یا آپ کی شناخت ہی مٹادے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
***
اور اب دنیا کی سب سے بڑی سوپر پاور کے ایک سابق صدر کا تذکرہ کرتے ہیں جو ایک زمانے میں وزیر اعظم مودی کے قریبی دوست تھے۔ تذکرہ ڈونالڈ ٹرمپ کا ہے جنہوں نے دنیا کو خبر دار کیا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب نہیں ہوئے تو ملک میں خوں ریزی ہو گی۔ سابق صدر ٹرمپ نے خوں ریزی سے متعلق بیان امریکی آٹو انڈسٹری کو لاحق خطرات سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے دیا۔ ٹرمپ نے میکسیکو میں گاڑیاں بنا کر امریکیوں کو فروخت کرنے کے چینی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں منتخب ہو گیا تو ایک ایک گاڑی پر سو فیصد ٹیکس لگاؤں گا جس کے بعد چین ان گاڑیوں کو امریکہ میں فروخت کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ لیکن اگر میں منتخب نہیں ہوا تو یہ سب کے لیے خوں ریز ثابت ہو گا۔ لیکن یہ خوں ریزی کیا بھارت میں بھی ہوگی اگر ڈونالڈ ٹرمپ کے دوست ایک بار پھر منتخب نہیں ہوئے؟ یہ وقت ہی بتائے گا لیکن حالات یہی کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں 2024 کے لوک سبھا انتخابات اور اس کے بعد کے حالات پر سکون نہیں ہوں گے چاہے ٹرمپ کے دوست کامیاب ہوں یا ناکام۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اپریل تا 13 اپریل 2024