کرناٹک میں حجاب پر تنازعہ سے متعلق جماعت اسلامی ہند کا کہنا ہے کہ ’’اپنی پسند کا لباس آئینی اور بنیادی حق ہے‘‘

نئی دہلی، فروری 6: کرناٹک کے کچھ تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کو اپنے احاطے میں حجاب پہننے کی اجازت نہ دینے کی خبروں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) نے کہا ہے کہ لباس ہر شہری کا آئینی اور بنیادی حق ہے اور اس پر کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔

ہفتے کے روز ایک آن لائن پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کے موقف کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے جے آئی ایچ (خواتین ونگ) کی سکریٹری رحمت النساء نے کہا کہ اپنی پسند کا لباس پہننا آئینی اور بنیادی حق ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ اور سیاسی رنگ کیوں دیا جا رہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ تعلیمی اداروں میں پولرائزیشن اور بدمعاشی کی کوشش ہے۔

انھوں نے مزید کہا ’’حجاب کے خلاف یہ احتجاج ہماری سمجھ سے باہر کیوں ہے۔ لڑکیوں کو اجازت دی جائے کہ وہ جیسا چاہیں ویسا لباس پہنیں۔‘‘

اسکول اور کالج کے حکام پر زور دیتے ہوئے کہ وہ لڑکیوں کو فوری طور پر اپنے اسکولوں میں شامل ہونے دیں اور ان لوگوں کے سامنے نہ جھکیں جو معاشرے میں تقسیم اور نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں، انھوں نے قومی کمیشن برائے خواتین (NCW) اور قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) سے بھی اس نوٹس لینے کو کہا۔

رحمت النساء نے کہا ’’جے آئی ایچ ان طالبات اور ان کے والدین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے جو اس سنگین ناانصافی کے خلاف پرامن طریقے سے احتجاج کر رہی ہیں۔‘‘

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ حجاب کا مسئلہ پارلیمنٹ تک پہنچ چکا ہے۔

انھوں نے کہا ’’مسئلہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا ہے۔ یہ آئین اور مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے۔ ہندوستان کے آئین کے تحت لوگوں کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے کی آزادی ہے۔ مذہبی رسومات پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم عدالت جائیں گے۔‘‘

پریس کانفریس میں ایک سوال کے جواب میں پروفیسر سلیم نے کہا ’’جے آئی ایچ چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بھی مذمت کرتی ہے۔‘‘

اسی سلسلے میں انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتی ہے، دنیا بھر میں جہاں بھی ایسا ہو۔‘‘

انھوں نے سوال کے جواب میں کہا ’’ہم عالمی برادری کے ساتھ ساتھ حکومت ہند سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ ایغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔‘‘

دریں اثنا گزشتہ چند ہفتوں میں ہریدوار، پریاگ راج، چھتیس گڑھ اور دہلی میں نفرت انگیز تقاریر کی مذمت کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر عالمی برادری میں ملک کی شبیہ کو خراب کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا ’’پولرائزیشن کے ذریعے سیاسی طاقت کا حصول بہت خطرناک ہے اور اس رجحان کو روکنا چاہیے۔‘‘

لوگوں سے مذہب کا نام استعمال کرکے نفرت پھیلانے کی مذمت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے امید ظاہر کی کہ ملک کے عوام اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ انھوں نے کہا ’’لوگوں کی اکثریت نفرت انگیزی کو پسند نہیں کرتی۔ عدلیہ نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ یہ ایک اچھی علامت ہے۔ نفرت پھیلانے والے عناصر کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘

وہیں مرکزی بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ مرکزی بجٹ 2022-23 اقلیتوں اور ایس سی/ایس ٹی برادریوں سے متعلق مایوس کن ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس بجٹ میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔

وہیں جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ملک معتصم خان، جنھوں نے حال ہی میں یوپی کے شہروں اور دیہاتوں کا سفر کیا، نے کہا کہ کچھ گروپس نے سیاسی فائدے کے لیے مذہبی خطوط پر کمیونٹیز کو پولرائز کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے نشان دہی کی ’’ماحول کو خراب کرنے کے لیے شرپسندوں اور سماج دشمن عناصر کی طرف سے تفرقہ انگیز سرگرمیوں کا رجحان بڑھا ہوا ہے۔ حکومت کی طرف سے نفرت پھیلانے والے مختلف اجتماعات کو نظر انداز کرنا کافی پریشان کن ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ترقی، بے روزگاری، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، خواتین کو بااختیار بنانے جیسے حقیقی مسائل پر زور انتخابی بحث سے غائب ہے۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ لوگ ان لوگوں کا ساتھ دیں جو قدر پر مبنی سیاست کرتے ہیں، آئینی اقدار کو برقرار رکھتے ہیں، جمہوری اصولوں کا احترام کرتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور رواداری کے لیے کام کرتے ہیں۔