ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کا ریکارڈ مایوس کن: جماعت اسلامی ہند

نئی دہلی، دسمبر 10: ”بھارت کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ انسانی حقوق اور آزادیئ فرد کی حمایت کی ہے۔تاہم حالیہ دنوں میں مذہبی اقلیتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے تعلق سے ہمارے ملک کا ریکارڈ بہت اچھا نہیں رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ ماہ دیکھنے کو ملی جب کچھ دوست اور قابل اعتماد ممالک جیسے امریکہ، کینیڈا اور جرمنی نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنے یہاں انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر اور اقلیتوں کے حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرے۔ کچھ ممالک نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان’این آر سی‘ کے ڈیزائن اور اس کے نفاذ پر نظر ثانی کرے“۔ یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے مرکز،نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہی۔انہوں نے کہا کہ ”انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں ہماری بین الاقوامی درجہ بندی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ بنیادی حقوق، سلامتی، امن و امان اور دیوانی و فوجداری انصاف جیسے معاملے میں بھی ہمارے ملک کی کارکردگی میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے“۔انہوں نے مذہب کی تبدیلی پر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ حکام شہریوں کو اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کے ارادے کا اعلان کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں۔عدالت کا یہ فیصلہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق ہے جس میں ہر شہری کو ضمیر کی آزادی، مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیا گیا ہے“۔

اس موقع پر مرکزی تعلیمی بورڈ کے ڈائریکٹر سید تنویر احمد نے پہلی سے آٹھویں جماعت تک اقلیتی طبقے کے طلباء کے لئے پری میٹرک اسکالر شپ کو بندکئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”حکومت اقلیتی اسکیموں کو یکے بعد دیگرے بند کرتی جارہی ہے۔پہلے پری میٹرک اسکالر شپ کو بند کیا گیا اور اب مولانا آزاد فیلو شپ کو بند کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ حکومت کے ان فیصلوں سے اقلیتی طلباء کے’ڈراپ آؤٹ اور اعلیٰ تعلیم سے محرومی‘کی شرح میں اضافہ ہوگا اور ان کے تعلیمی کیریئر کو مزید نقصان پہنچے گا۔جبکہ کئی سروے بتاتے ہیں کہ اقلیتیں بالخصوص مسلمان پرائمری اور اعلیٰ تعلیم دونوں سطح پر پیچھے ہیں۔ پری میٹرک اسکالرشپ اور مولانا آزاد فیلو شپ سے غریب، پسماندہ، طلباء و طالبات کو تعلیمی مواقع تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملتی تھی۔ان کے بند ہوجانے سے ایسے تمام طلباء کا مستقبل معلق ہوجائے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اقلیتی طلباء کو دی جانے والی اسکالر شپ کو بحال کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ’آرٹی ای‘ کے تحت تمام بچوں کو آٹھویں تک مفت تعلیم دیتی ہے جبکہ مشاہدات بتاتے ہیں کہ اقلیتی طلباء کی بڑی تعداد پرائیوٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہی ہے جہاں انہیں خود سے فیس بھرنی پڑتی ہے۔لہٰذا سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے طلباء کی فہرست بنائے جو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں،اور ان کا وظیفہ لازمی طور جاری رکھے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند کی طرف سے حکومت کو اسکالر شپ کی بحالی کے لئے لیٹر بھیجا گیا ہے اور ہم اس پر مزید کام کررہے ہیں، اگرحکومت اسے بحال نہیں کرتی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ سول سوسائٹیز اور غیر سرکاری تنظیمیں ایسا انفراسٹرکچر تیار کریں جہاں ان طلباء کے لئے تعلیم کا حصول آسان ہو۔