سید تنویر احمد
ڈائریکٹر ہولسٹیک ایجوکیشن بورڈ،نئی دلی
دیوار پر مشقی بورڈ
کلاس روم کی دیوار کے نچلے حصے پر بورڈ لگایا جائے ۔یہ بورڈ بلیک بورڈ بھی ہوسکتا ہے یا آج کل ہرے بورڈ (Green Board ) یا وہائٹ بورڈ مارکیٹ میں دست یاب ہیں، انہیں بھی لگایا جاسکتا ہے۔ انہیں دیوار کے نچلے حصے میں لگایا جائے۔ جو اسکول مارکیٹ میں دست یاب بورڈ نہیں لگاسکتے ، وہ دیوار کے نچلے حصے پر بلیک بورڈ کا پینٹ کردیں۔ تاکہ بچے اس پر چاک پیس سے لکھ سکیں۔ بچوں کو ڈسٹ لیس چاک پیس یعنی ایسے چاک پیس دیں جن سے ڈسٹ نہیں نکلتی ہے۔آپ دیکھیں گے کہ بچے اس بلیک بورڈ پر خوب لکھتے ہیں۔ دیواروں پر لکھنا بچوں کی نفسیات میں داخل ہے۔ جس گھر میں چھوٹے بچے ہوتے ہیں، آپ ان گھروں کی دیواروں پر اکثر و بیش تر پنسل سے کھنچی ہوئی لکیریں یا کچھ لکھا ہوا یا ڈیزائن کیا ہوا پائیں گے۔ اسی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے یہ تجویز یہاں پیش کی ۔ یہ سسٹم کئی اسکولوں میں رائج ہے۔ اس بورڈ کے ذریعے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
٭بچے بورڈ پر لکیریں یا ڈیزائن بناکر اپنا ذہنی تناؤ کم کرتے ہیں۔
٭بچے بورڈ پر لکھنے کی خاطر گھروں سے اسکول جلد آتے ہیں ۔ ان کے اندر اسکول آنے کے لیے دل چسپی پیدا ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ دیوار پر لکیریں بنانا یا کچھ نقش و نگار کرنا بچوں کی دل چسپی میں شامل ہے۔
٭بچوں کو لکھائی ( Writing) کی تربیت ہوتی ہے۔ یہاں ہم یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ تمام ماہرین تعلیم کا اس پر اتفاق ہے کہ بچوں کو پانچ سال کے بعد ہی لکھنے کا کام (Writing Work) دیا جائے۔ پانچ سال سے کم عمر میں اگر بچوں کو قلم یا پنسل تھمایا جاتا ہے اور انہیں ایک خاص انداز میں لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے تو اس عمل سے بچوں کی نسوں اور ذہن پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ بعض ماہرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ پانچ سال سے قبل اگر بچوں کو رائٹنگ ورک دیا جاتا ہے تو ان کے ہاتھوں کی نسیں کم زور پڑ جاتی ہیں۔ اس کا اثر ذہن پر پڑتا ہے جس کی وجہ سے پچاس سال کی عمر کے بعد ہاتھ میں رعشہ پیدا ہوجاتا ہے اور بعض افراد کو تو الزایمر جیسی بیماری بھی لاحق ہوجاتی ہے۔ البتہ چار سال کے بعد بچوں کو آسان انداز میں پنسل پکڑنے اور مختلف شکلوں کی لکیریں بنانے کی مشق کرانی چاہیے ۔ چناں چہ اب رائٹنگ سے پہلے بچوں کو رائٹنگ کے لیے تیار کرنے کے لیے ایسی ورک بک آچکی ہیں جن میں صرف لکیروں کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔ یعنی سیدھی لکیر، ٹیڑھی لکیر، دائرہ ، منحنی لکیر، نصف چاند کے مانند شکل وغیرہ ۔ جو بورڈ کلاس روم میں بچوں کے لیے تجویز کیے گئے ہیں ، ان پر مختلف شکلیں پینٹ کی جاسکتی ہیں تاکہ بچے چاک پیس کے ذریعے ان شکلوں کو بنانے کی مشق کرسکیں ۔
’یوکے جی ‘گریڈ 1 اور گریڈ 2 کی کلاسوں میں چاہیں تو بورڈ پر چار لکیریں اسی طرح بنائی جاسکتی ہیں جس طرح انگریزی کی ورک بک میں یا 4 لائن کی نوٹ بک میں چار لائنیں بنی ہوتی ہیں۔ طلبہ ان چار لکیروں کے درمیان انگریزی کے حروف اور جملے لکھ کر مشق کرسکتے ہیں۔
کلاس روم میں بچوں کو بٹھانے کا نظم
کلاس روم میں بچوں کے بٹھانے کے نظم کی بھی مختلف شکلیں ہیں۔ پری کلاسوں میں الگ ترتیب ہوتی ہے اور پرائمری کلاسوں میں اور اس سے اونچے درجے کے کلاسوں میں الگ ترتیب ہوتی ہے۔ پری اسکول میں دونوں طریقے اختیار کیے جائیں ۔ یعنی کلاس کے آدھے حصے میں چٹائی ہو اور آدھے حصے میں چھوٹی کرسیاں اور ٹیبل۔ یاد رہے کہ پری اسکول میں بچے موزے اور جوتے پہن کر نہ بیٹھیں۔ بچوں کو چاہیے کہ وہ کلاس میں ننگے پیر بیٹھیں۔ صحت کے اعتبار سے یہ زیادہ بہتر ہے۔ اگر بچے جوتے پہن کر کلاس میں بیٹھتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد انہیں بے چینی ہونے لگتی ہے ۔ بعض جوتے اور اس میں استعمال کیے گئے موزے گندے ہوتے ہیں تو اس سے بو آنے لگتی ہے جس کی وجہ سے پورے کلاس روم کا ماحول خراب ہوجاتا ہے۔اس لیے بہتر ہے کہ بچے چپل ، جوتے یا سینڈل جو بھی استعمال کررہے ہیں، وہ کلاس روم کے باہر ہی نکال کر آئیں۔ بچوں کی نفسیات میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ بہت دیر تک ایک ہی پوزیشن میں نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔ اس لیے کئی بچے کچھ دیر کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں اور پھر چٹائی پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
بعض عملی کام یا کلاس روم کے اندر اسپورٹ یا سرکل ٹائم سرگرمیاں ’ CTA‘ (Circle Time Activities) نیچے دائرے میں بٹھا کر کرائی جاتی ہیں۔ اس لیے ہر پری اسکول کلاس میں ایک حصے میں شطرنجی ہو اور دوسرے حصے میں کرسیاں اور ٹیبل ہوں۔ اس سے بچوں میں تناؤ کم ہوتا ہے اور بچے اپنی طبیعت کے اعتبار سے نیچے بیٹھتے ہیں یا اوپر۔ CTA ’ ‘ اس عمل کو کہتے ہیں جس میں بچوں کو ایک سرکل میں بٹھا دیا جاتا ہے ۔ ٹیچر بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور وہ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں ، نظمیں یاد دلاتے ہیں، سبق پڑھاتے ہیں یا کچھ عملی مشق کرواتے ہیں۔ ’سی ٹی اے‘ کرنے کے لیے بچوں کو نیچے فرش پر ہی بٹھانا ہوتا ہے۔ لیکن ہاں، فرش پر بٹھانے کے لیے موسم کے اعتبار سے انتظام ہونا چاہیے ۔ ’ سی ٹی اے ‘ کو یوٹیوب پر ان ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے:
سرکل ٹائم اکٹیویٹیز ،(CTA(Circle time activities
موجودہ دور میں بچوں کی بڑی تعداد ایک ایسے مرض میں مبتلا ہے جسے مرض تو نہیں کہا جاتا لیکن یہ ایک قسم کی صحت کے اعتبار سے بے اعتدالی ہے۔ اسے انگریزی میں
ADHD‘ (Attention Deficit Hyperactivity Disorder‘کہا جاتا ہے ۔ اس بے اعتدالی میں 7 سال سے کم عمر کے تقریباً 20 فی صد بچے مبتلا ہیں بلکہ بعض ماہرین کا تو کہنا یہ ہے کہ یہ بے اعتدالی 10 سال تک بھی ہوتی ہے اور بعض طلبہ میں 10 سال کے بعد بھی۔ اس بے اعتدالی میں بچہ کسی عمل یا کام پر فوکس نہیں کرپاتا ۔ کلاس میں اس کی توجہ نہ تو ٹیچر پر ہوتی ہے اور نہ ہی تعلیم پر ۔ پری اسکول اور پرائمری اسکول میں اس طرح کے طلبہ کی آج کل بڑی تعداد پائی جارہی ہے۔ اس مسئلے سے اساتذہ بھی پریشان ہیں۔ ہم نے اپنے تجربے میں دیکھا ہے کہ کئی ٹیچر اپنی نوکری سے محض اس لیے استعفیٰ دے دیتے ہیں کہ انہیں بچے بہت پریشان کرتے ہیں یا پھر وہ بچوں کو کنٹرول نہیں کرپاتے۔ نرسری سے پرائمری اسکول تک یہ بہت شدید مسئلہ ہے ۔ یہ مسئلہ پرائمری کے بعد والے اسکولوں میں دوسری شکل اختیار کرجاتا ہے جسے ہم کلاس روم میں خلل اندازی (Disruption) کہتے ہیں۔ ہم اس مرض پر تفصیلی گفتگو نہیں کررہے ہیں۔ صرف یہاں اسے کیسے کنٹرول کیا جائے ؟ اس پر کچھ بیان کیا جائے گا۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ ’ اے ڈی ایچ ڈی ‘ کی ایک وجہ بچوں کی غذا ہے۔ جب بچے صبح جنک فوڈ (Junk Food) کھاتے ہیں جس میں چاکلیٹ ، چپس اور بازار کے کھانے کی دیگر چیزیں شامل ہیں ، ان کی وجہ سے بچوں کے اندر ضرورت سے زیادہ کاربوہائڈریٹ (Carbohydrates) پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ کاربوہائڈریٹ قوت (Energy) میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس زائد قوت کی وجہ سے بچہ ایک جگہ بیٹھتا نہیں ہے، اچھلنے کودنے لگتا ہے، اس لیے بچہ تعلیم پر فوکس نہیں کرپاتا۔ ایسے بچے کلاس روم میں بہت زیادہ خلل ڈالتے ہیں۔ ان بچوں کو کنٹرول کرنا ٹیچر کے لیے بڑا چیلنج ہوجاتا ہے۔ اس کا حل کیا ہے؟ حل یہ نہیں ہے کہ بچوں کو سزا دی جائے ، گھر واپس بھیج دیا جائے یا پھر ’مرغا‘ بنایا جائے۔ اس کے دو حل ہیں:
(1) کلاس روم کے باہر والی تدبیر۔
(2)کلاس روم کے اندر والی تدبیر۔
پہلی تدبیر کے لیے ایسے تمام بچوں کے والدین سے گفتگو کی جائے جو بہت زیادہ ’ اے ڈی ایچ ڈی‘ کا شکار ہیں۔ ان کے والدین سے کہا جائے کہ بچوں کو کم سے کم جنک فوڈ کھلائیں۔ بالخصوص جب وہ اسکول کے لیے تیار ہوتے ہیں یا پھر ناشتے میں۔
دوسری تدبیر ، یہ طریقہ کار کلاس روم میں اختیار کیا جانا چاہیے ۔ ہم نے اوپر ’ سی ٹی اے ‘ کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی میں ہم نے اس کے ویڈیو لنک بھی لکھ دیے ہیں۔ ان ویڈیو کو دیکھنے کے بعد آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ کلاس روم کے اندر’سی ٹی اے ‘ کیسے کیا جاتا ہے۔ آپ بھی اپنی کلاس کے آغاز کے پہلے اگر’ سی ٹی اے‘ کرواتے ہیں تو اس سے بچوں کی مختصر سی جسمانی ورزش ہوجاتی ہے۔ اس جسمانی ورزش کے نتیجے میں بچوں کے اندر موجود زائد قوت (انرجی ) استعمال میں آجاتی ہے۔ جب بچوں کے جسم میں زائد انرجی کم ہوجاتی ہے تو پھر وہ کلاس روم میں سنجیدگی کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اب ان کے پاس اچھل کود کرنے کے لیے وہ طاقت موجود نہیں ہے یا کم ہے۔’ سی ٹی اے‘ ایک ایسا عمل ہے جو مغربی ممالک میں اسکول کے آغاز ہی میں کرایا جاتا ہے ہمارے اسکولوں میں ایسے ’ اے ڈی ایچ ڈی‘ بچوں کو ڈانٹ کر ، مار کر خاموش کرانے کا رویہ عام طور پر رائج ہے جو کہ غیر فطری ہے۔ ’سی ٹی اے ‘کے موثر استعمال سے کلاس روم مینجمنٹ بہتر طور پر کیا جاسکتا ہے۔ سی ٹی اے کے ذریعے بچوں کی جسمانی ورزش بھی ہوجاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں بچوں میں موجود زائد قوت استعمال میں آجاتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی فائدے سے خالی نہیں ہے کہ کئی مغربی ممالک میں اسکول کا آغاز ہوتے ہی ہلکی ورزش یا اسپورٹ کرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد طلبہ اپنی اپنی کلاسوں میں داخل ہوکر پندرہ منٹ سے آدھا گھنٹہ لائبریری کی کتابوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ عمل انہیں کلاس کے لیے تیار کرتا ہے۔ ہم نے اس طرح کا نظام ہندوستان میں بھی کئی انٹرنیشنل اسکولوں میں دیکھا ہے۔(جاری)
(مکمل مواد کتابچے کی شکل میں دستیاب ہے۔ اور 9844158731 پر وہاٹس ایپ مسیج بھیج کراس کتابچہ کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔)
***
***
بچوں کو چاہیے کہ وہ کلاس میں ننگے پیر بیٹھیں۔ صحت کے اعتبار سے یہ زیادہ بہتر ہے۔ اگر بچے جوتے پہن کر کلاس میں بیٹھتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد انہیں بے چینی ہونے لگتی ہے ۔ بعض جوتے اور اس میں استعمال کیے گئے موزے گندے ہوتے ہیں تو اس سے بو آنے لگتی ہے جس کی وجہ سے پورے کلاس روم کا ماحول خراب ہوجاتا ہے
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023