بہار میں اقلیتوں کے حالات میں مثبت تبدیلی کی امید

بہار محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر محمد زمان خان کی ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت

بہار کے محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر محمد زمان خان بہار کے کیمور ضلع کے چین پور اسمبلی حلقہ سے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے ٹکٹ سے منتخب ہوئے، لیکن گزشتہ جنوری مہینے کی آخر میں جنتا دل یونائیٹیڈ (جے ڈی یو) میں شمولیت اختیار کرلی اور انہیں وزیر بنایا گیا ہے۔ بارہویں پاس (حلف نامہ کے مطابق) محمد زمان خان اس سے قبل سال 2002 میں ضلع پریشد اور 2005 میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن لڑ چکے تھے لیکن ہار گئے تھے۔ سال 2010 میں بھی کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن میں قسمت آزمائی کی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس بار یعنی سال 2020 میں بی ایس پی نے اسدالدین اویسی کی پارٹی ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ اور اوپیندر کشواہا کی پارٹی ’راشٹریہ لوک سمتا پارٹی‘ کے ساتھ مل کر اتحاد میں الیکشن لڑا تھا جس میں زماں خان کامیاب ہوئے۔ پیش ہے ان کے ساتھ ہفت روزہ دعوت کے صحافی افروز عالم ساحل کی اہم گفتگو کے کچھ خاص اقتباسات۔

 

آپ کا بی ایس پی سے نکل کر جے ڈی یو میں کیسے آنا ہوا؟

بی ایس پی سے میرا رشتہ کافی پرانا رہا ہے۔ اب تک میں اس پارٹی کا ایک کارکن رہا، لیکن اب میں اپنے علاقے کے عوام کا کارکن ہوں۔ ان لوگوں کا مجھ پر ایک بھروسہ ہے۔ میرے لوگ جو صدیوں سے پریشان ہیں ان کے علاقے میں اب تک ترقی نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں الیکشن جیتنے کے بعد میں نے کافی غور و فکر کیا، اس دوران مجھے محسوس ہوا کہ سیاست میں کئی بار نہ چاہتے ہوئے بھی بڑے فیصلے لینے پڑتے ہیں چنانچہ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ حکومت کے تعاون کے بغیر علاقے کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں حکومت میں شامل ہو کر عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرسکتا ہوں۔ انہوں نے جس بھروسے کے ساتھ مجھے ووٹ دیا ہے اس بھروسے کو قائم رکھ سکتا ہوں۔ میری بس یہی خواہش ہے کہ میں اپنے علاقے کے غریبوں کی لڑائی لڑوں۔ ان کے گاؤں میں بھی ترقی پہنچاوں۔ ان کے لیے کچھ کروں، جو اب تک نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں۔ بس یہی سوچ کر میں نیتیش کمار کے ساتھ ہوں۔ میں نے بس اپنے علاقے کی ترقی کے لیے جے ڈی یو کا دامن تھاما ہے۔

محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر بن کر آپ خوش ہیں؟

کوئی بھی عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتا۔ میں مانتا ہوں کہ مجھے ایک ذمہ داری دی گئی ہے جسے میں نے قبول کیا ہے۔ میں ضرور اقلیتی طبقہ سے ہوں، لیکن میرے تعلقات سماج کے تمام لوگوں سے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ سماج کے ہر طبقے کی ترقی ہو۔ مجھے فی الحال اقلیتوں کی خدمت کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ یا یوں کہیے کہ اقلیتوں کو ترقی یافتہ بنانے کا ایک پلیٹ فارم ملا ہے۔ میں اس کے ذریعے بہار کے اقلیتوں کی ترقی کے لیے بھر پور کوشش کروں گا۔

ایک طرف بہار حکومت محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے بجٹ میں اضافہ نہیں کرتی اور دوسری طرف جتنا بجٹ ہے اسی کا بھی زیادہ استعمال نہیں کرتی۔ گزشتہ سال بہار میں اقلیتی فلاح و بہبود کے لیے مختص 60 فیصدی رقم لیپس کر گئی ہے اس پر آپ کیا کہیں گے؟

ابھی ہم چونکہ نئے ہیں اس لیے ابھی اس بارے میں جانکاری نہیں ملی ہے۔ لیکن یہ اب ذمہ داری ہے۔ جلد ہی کام آپ کو نظر آئے گا۔ اس کے لیے صوبہ کے بعد ضلع کے افسران سے میٹنگ کر رہا ہوں۔ ان کو کام میں تیزی لانے کی ہدایت بھی دی ہے۔ ساتھ ہی حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ 562 کروڑ روپے کا بجٹ محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے پاس ہے۔ ضرورت پڑے گی تو نتیش کمار اس محکمہ کو مزید فنڈس مہیا کرائیں گے۔

اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچوں کو اسکالرشپس نہیں مل رہی ہیں، کئی جگہوں پر اس میں دھاندلیوں کی خبر آچکی ہے۔

جی! ایسی بات سامنے آئی ہے۔ اس پر ایک جانچ کمیٹی بنائی گئی ہے۔ کمیٹی جانچ کر رہی ہے۔ اس میں جو بھی ملوث پایا جائے گا وہ کسی بھی حال میں بخشا نہیں جائے گا۔

بہار میں اقلیتوں کو کاروبار کے لیے ملنے والے قرض میں پریشانی آرہی ہے؟

یہ پریشانی پہلے تھی۔ اب نہیں ہے۔ میں نے حکومت بہار کی اس اسکیم میں ترمیم بھی کی ہے۔ پہلے ’وزیر اعلیٰ اقلیتی روزگار قرض‘ اسکیم کے تحت 5 لاکھ روپے ملتے تھے اب میں نے اسے 10 لاکھ روپے کر دیا ہے۔ پہلے بغیر کسی کاغذ یا دستاویز کے ایک لاکھ روپے کا لون ملا کرتا تھا، اب اسے میں نے ڈھائی لاکھ روپے کر دیا ہے۔ اس قرض پر سود کی سبسیڈی بھی محکمہ دے گا۔ جن لوگوں کے معاملات زیر التوا (pending) میں ہیں انہیں جلد ہی نمٹا لیا جائے گا۔ اس قرض پر حکومت کی طرف سے سبسیڈی بھی ہے۔ ساتھ ہی لاک ڈاون کے دوران قرض حاصل کرنے والوں کے روزگار میں ہوئے خسارے کو دیکھتے ہوئے سود کو بھی معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے پھر بھی اس کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیوں؟

اب آگے ایسا نہیں ہو گا۔ اگر میں اردو کے لیے کچھ نہ کر پاؤں تو یہ میری غلطی ہوگی۔ میں اس کام میں لگا ہوا ہوں۔ لیکن اردو کے نام کی روٹی کھانے والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے لیے سوچیں۔ اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیں۔ اردو کے فروغ میں خود بھی شامل ہوں۔

بہار میں وقف املاک میں کافی خرد برد کیا گیا ہے۔ اس کے تحفظ کو لے کر آپ کے پاس کیا منصوبہ ہے؟

آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ وقف کی جائیدادوں میں کافی لوٹ کھسوٹ ہوئی ہے۔ میں نے ہر ضلع میں افسروں کو یہ پیغام بھیج دیا ہے کہ جو وقف کی زمین ہے، وہ وقف کی ہی رہے گی۔ اگر کوئی اسے اپنی ملکیت سمجھ رہا ہے تو اب ایسا سوچنا بند کر دے۔ یہی نہیں، میرے محکمہ نے تمام اضلاع سے وقف اراضی کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہے۔ وقف ترقیاتی اسکیم کے تحت تمام اضلاع میں وقف بھون کی تعمیر کی جانی ہے۔ کچھ اضلاع میں یہ کام مکمل ہو چکا ہے اور جہاں یہ کام نہیں ہوا ہے، وہاں جلد ہی اس اسکیم کے تحت کام کی شروعات کی جائے گی۔ ساتھ ہی میری پوری کوشش ہوگی کہ وقف زمینوں پر جو بھی ناجائز قبضے ہیں انہیں ہٹا کر جاؤں۔

اے ایم یو کشن گنج سنٹر کا معاملہ کافی برسوں سے زیر التواء ہے۔ اسے پر آپ کیا کر رہے ہیں؟

میں ابھی چند روز قبل ہی کشن گنج گیا تھا۔ وہاں میں نے امام بخاری یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ ساتھ ہی میں نے اے ایم یو کشن گنج سنٹر سے جڑے کئی لوگوں سے ملاقاتیں کر کے اس معاملے میں آ رہی رکاوٹوں کو بھی سمجھا ہے۔ اب اس معاملے میں جلد ہی وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے بات کروں گا۔ امید ہے کہ جلد ہی اس معاملے کا حل نکل آئے گا۔

مسلمانوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھتے ہوئے بہار کے مسلمانوں کا مستقبل آپ کو کیسے نظر آتا ہے؟

سب سے پہلے میں قوم کے بھائیوں کو کہنا چاہوں گا کہ آپ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کیجیے۔ دراصل لوگ علم و تعلیم سے بہت دور ہیں۔ ہم لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ تعلیم کی اہمیت کیا ہے۔ اگر قوم تعلیم یافتہ ہو جائے تو بہت ساری پریشانیوں کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ موجودہ بہار حکومت تعلیم پر خاص دھیان دے رہی ہے۔ محکمہ تعلیم کا بجٹ بھی بڑھایا گیا ہے۔ تمام منصوبوں پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ افسروں کے ساتھ کئی میٹنگیں کر چکا ہوں۔ اقلیتی برادری کے ہونہار طلبا کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے مقصد سے ہر ضلع میں کم از کم ایک رہائشی اسکول تعمیر کیا جائے گا۔ اس کے لیے میرے محکمے کی جانب سے اس بار کے بجٹ میں 65 کروڑ 35 لاکھ روپے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ میں نے معیاری کام کی ہدایت دی ہے۔ کام میں کسی بھی طرح کی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔ دھاندلی کرنے والوں پر سخت کاروائی ہوگی۔ اسی طرح محکمہ کی جانب سے 1148 مدرسوں کو مضبوط بنانے کے لیے 43 کروڑ 84 لاکھ روپے کی تجویز تیار کی گئی ہے۔ اس رقم سے مدرسوں میں تعلیمی اصلاحات کے لیے بنیادی سہولتیں جیسے کلاس روم، لائبریری، سازوسامان، پینے کا پانی اور دیگر بنیادی چیزیں فراہم کی جائیں گی۔ ضرورت ہوگی تو مزید فنڈ خرچ کیا جائے گا۔

لیکن لنچنگ یا تشدد کے معاملوں میں بھی تو تعلیم یافتہ لوگ شامل رہتے ہیں؟

نہیں، ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔ آپ ہمارے ساتھ گاؤں میں چلیے۔ لوگوں کو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ وہ اپنی غلط سوچوں و باتوں پر ہی اڑے رہتے ہیں اور اسی پر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ کس جگہ کیا کہنا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سب سے برا حال ہمارے سماج کا ہے۔ ہم سب لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حالات کو سدھاریں۔

گزشتہ دنوں آپ کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی، جس میں آپ ’شیو بھکت‘ بنے نظر آرہے ہیں۔

یہ میرے علاقے کی بات ہے۔ وہاں کافی کشیدگی تھی۔ میں وہاں ’شیو بھکت‘ کے طور پر پہنچا اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ انہیں یہ پیغام دیا کہ مار پیٹ سے دور رہنا چاہیے، مل جل کر رہنا چاہیے ہم سب کے مذاہب میں محبت ہی سب کچھ ہے۔ ویسے بھی میں بھائی چارے کے ساتھ چلنے والا انسان ہوں۔ ہمارے مذہب میں بھی بھائی چارے پر زور دیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں برابری کی بات ہے۔ سب کو لے کر چلنے کی بات ہے۔ میں مسلمان ہوں لیکن میرے تحفظ کے لیے میرے ساتھ ہر وقت یہ پاسوان بھائی رہتا ہے۔ میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ میرے اس برتاؤ کی تعلیم بھی مجھے اپنے مذہب سے ہی ملتی ہے۔

ابھی حضور اکرم ﷺ کی شان میں یتی نرسنگھانند نے گستاخی کی ہے۔ اس پر آپ کچھ کہیں گے؟

میں سماج میں بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں، لیکن جہاں حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی بات ہو گی، قرآن کی بات ہو گی، تو میں اسے کسی بھی حال میں برداشت نہیں کروں گا۔ اس کے لیے مجھے جو بھی کرنا ہو گا کروں گا۔

بہار کے مسلمانوں سے آپ کیا اپیل کرنا چاہیں گے؟

میری تمام بھائیوں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے لیڈر کو پہچانیں اپنے ہمدرد کو پہچانیں۔ آپ اس ملک میں اکیلے نہیں چل سکتے اس لیے اپنے سفر کے ساتھی کو پہچانیں۔ آج کا دور اور وقت کیا کہہ رہا ہے اسے کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور سمجھیں۔ میں آپ کا فرزند ہوں آپ کی بدولت ہی اس مقام پر پہنچا ہوں۔ زماں خان ہر وقت آپ کی جائز اور حق کی لڑائی میں آپ کے ساتھ ہے، بہار کے ہر غریب و دلت کے ساتھ ہے۔
***

اگر قوم تعلیم یافتہ ہو جائے تو بہت ساری پریشانیوں کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ موجودہ بہار حکومت تعلیم پر خاص دھیان دے رہی ہے۔ محکمہ تعلیم کا بجٹ بھی بڑھایا گیا ہے۔ تمام منصوبوں پر نظر ثانی کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ افسروں کے ساتھ کئی میٹنگیں کر چکا ہوں۔ اقلیتی برادری کے ہونہار طلبا کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے مقصد سے ہر ضلع میں کم از کم ایک رہائشی اسکول تعمیر کیا جائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021