انتخابات پر فرقہ واریت کا رنگ غالب

الیکشن کمیشن بحیثیت ادارہ ناکام۔ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزیاں کرنے والے طاقتور لیڈروں کے سامنے بے بس

نور اللہ جاوید، کولکاتا

اکثریت پر مبنی آمریت بھارت کے سماجی تانے بانے اور ہم آہنگی کے لیے خطرہ
الیکشن کمیشن کو خود مختار و فعال بنانے کے لیے ادارہ کی تشکیل نو اور اصلاحات کی ضرورت
ملک کے نام ور مورخ و کالم نگار رام چندر گوہا نے اپنے حالیہ کالم بعنوان ’’Why 2024 is India’s most important election since 1977 میں 2024 کے لوک سبھا انتخابات کی اہمیت کا موازنہ 1977 سے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں مذہبی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو حاشیے پر مزید پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ انہیں روز مرہ کی زندگی میں، سڑکوں پر، بازاروں میں، اسکولوں، ہسپتالوں اور دفاتر میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ اور وزراء مستقل بنیادوں پر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور طعنہ دیتے ہیں، ان کے پیغام کو ان کے حامی واٹس ایپ اور یوٹیوب پر پھیلاتے ہیں۔ نصابی کتابیں اسکول کے بچوں کو اپنے ساتھی شہریوں کے خلاف دشمنی کی تربیت دینے کے لیے دوبارہ لکھی جا رہی ہیں ۔مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تاریخ میں الٹ پھیر کی جا رہی ہے۔ جس طرح سے اس وقت انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں اگر نریندر مودی تیسری مرتبہ اقتدار میں آتے ہیں تو ملک میں ’’اکثریتی آمریت‘‘ کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے اور حکومت کو میڈیا کی آزادی محدود کرنے، سول سرویسز، عدلیہ اور عوامی ریگولیٹری اداروں کی آزادی کو مزید مجروح کرنے کا حوصلہ ملے گا۔ مرکزی یونیورسٹیاں، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے اعلیٰ ادارے ہندتو پروپیگنڈے میں تبدیل ہوجائیں گے۔ وفاقیت کے ڈھانچے مزید کم زور ہو جائیں گے۔آبادی کے لحاظ سے لوک سبھا کی سیٹوں کی دوبارہ تقسیم اس طرح کی جائے گی کہ شمال کو آبادیاتی فائدہ ہوگا جہاں بی جے پی مضبوط ہے، جنوبی بھارت کی سیاسی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال بھارتی جمہوریت کو مزید زوال کی انتہا پر پہنچا دے گی۔ اس کے نقصان دہ نتائج ہمارے سماجی تانے بانے، ہمارے معاشی امکانات اور ہندوستانیوں کی نسلوں کے قابل عمل مستقبل کے لیے ہوں گے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ 1970 کی دہائی میں اندرا گاندھی نے آمریت کو خاندانی حکم رانی کی عقیدت کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ اب نریندر مودی نے آمریت کو ہندو اکثریت پسندی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ ’’پریوار واد‘‘ بلاشبہ بہت ہی خراب ہے مگر ’’بہوسنکھ واد‘‘ یقیناً اس سے بھی بدتر ہے۔ پڑوسی ممالک جہاں اسلامی یا بدھ مت کی اکثریت پرستی کا مظاہرہ ہے وہاں کے صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ ہندو اکثریت پسندی کا نتیجہ کچھ مختلف ہوگا، بے وقوفانہ عمل ہے۔ اس کے لیے انہوں نے بہت ہی تاریخی جملہ لکھا ہے کہ ’’آمریت روح کو کچل دیتی ہے۔ اکثریت پرستی دماغ اور دل کو زہر دیتی ہے۔ اس سے نفرت اور تعصب جو اس سے جنم لیتا ہے وہ کینسر کی طرح معاشرتی اکائی میں پھیل جاتا ہے اور اس کے بعد افراد و معاشرہ تہذیب و شائستگی، ہمدردی اور انسانیت سے محروم ہوجاتا ہے‘‘۔
پہلے مرحلے کی مایوس کن ووٹنگ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی، جنہوں نے گزشتہ دس سالوں میں اپنی سب سے الگ ترقی پسند لیڈر کی شبیہ بنائی ہے، ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ جن کا مقبول نعرہ تھا، خراب نتائج کے امکانات سے مایوس ہوکر 21؍ اپریل کو راجستھان میں کانگریس کے انتخابی منشور پر تنقید کرنے کے بہانے جس طریقے سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے اس کے لیے مذمت اور ناقابل قبول جیسے الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ وزیر اعظم مودی بی جے پی کے سب سے بڑے ’اسٹار پرچارک‘ ہیں اس لیے وہ جو لائن کھینچیں گے، پارٹی کے دیگر لیڈر کے نقش قدم پر چلیں گے۔چناں چہ مودی کے بعد راج ناتھ سنگھ، یوگی آدتیہ ناتھ اور امیت شاہ جیسے لیڈر بھی مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو ماحول پیدا ہو رہا ہے اس کے نتائج 4؍ جون کے بعد بھی ملک کو بھگتنے پڑیں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے جس ڈھٹائی کے ساتھ بار بار کوشش کر رہے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ مودی کو اب اپنی جادوئی شخصیت کے طلسم پر بھروسا نہیں رہا۔ اس کے علاوہ یہ صرف پہلے اور دوسرے مرحلے میں مایوس کن کم ووٹنگ کا رد عمل نہیں ہے بلکہ یہ بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
ویسے مودی اور بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کوئی حیرت انگیز بات نہیں بلکہ مسلم دشمنی اور نفرت ان کی سرشت میں شامل ہیں۔ گزشتہ 75 برسوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کی تربیت مسلم مخالف ایکو چیمبر میں ہوئی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی اگر مودی اس انتخاب میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی ترقی اور یکساں مواقع کی بات کرتے۔ ’’مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر ‘‘ دینے کا انتخابی جملہ، زور دار تالیاں بجانے والوں کے لیے 2024 کے قومی انتخابات میں تازیانے سے کم نہیں ہے۔اس لیے سوال یہ نہیں ہے کہ مودی کی تقریر کے اثرات کیا ہوں گے اور اکثریتی آمریت کے سنگین نتائج کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ بلکہ سوال الیکشن کمیشن کا نام نہاد طاقت ور لیڈروں کے سامنے سرنگوں ہوجانے کا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کو ضابطہ اخلاق کی دہائی دینے والا الیکشن کمیشن مودی کے قدو قامت کے سامنے اس قدر بے بس ہے کہ نفرت انگیز اور واضح لفظوں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو در انداز کہے جانے پر تبصرہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکا اور نفرت انگیز تقریر کرنے والے وزیرا عظم مودی کو براہ راست نوٹس بھیجنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے بی جے پی کو بحیثیت پارٹی نوٹس دے کر خانہ پری کی گئی ہے۔ ایسے میں اگر الیکشن کمیشن پر اپوزیشن جماعتیں، سول سوسائٹی اور سابق افسران سوالات کھڑے کر رہے ہیں اور عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہے تو وہ بھارت کی جمہوریت کے مستقبل کے لیے کوئی بہتر اشاریہ نہیں ہے۔ الیکٹورل بانڈ پر سپریم کورٹ میں منہ کی کھانے کے بعد ای وی ایم اور وی وی پیٹ سے متعلق درخواستوں کو سپریم کورٹ کے ذریعہ خارج کیے جانے کو نہ صرف بی جے پی اپنی جیت کے طور پر دیکھ رہی ہے بلکہ الیکشن کمیشن نے بھی اطمینان کی سانس لی ہے اور شاید اسے بھی اس میں اپنی جیت نظر آ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر فیصلے پر سوالات کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔ ماہرین قانون کا ایک طبقہ یہ بھی دعویٰ کر رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے کئی بنیادی سوالات کو نظر انداز کیا ہے کیوں کہ جمہوریت میں انتخاب کی اہمیت صرف یہ نہیں ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد اقتدار کی منتقلی کا یہ ذریعہ ہے بلکہ انتخابی عمل پر اگر شہریوں میں شک و شبہ ہے تو پھر عوام اس جمہوریت سے بے زار ہو جائیں گے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کی پولنگ میں نصف آبادی کے گھروں سے نکل کر پولنگ کے عمل میں حصہ نہ لینے کو کس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے؟ کیا وہ اس بات کا غماز نہیں ہے کہ عوام کا نہ انتخابی عمل پر بھروسا ہے اور نہ انتخابات کا انعقاد کرانے والے ادارے کی غیر جانب داری و خود مختاری پر بھروسا ہے۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری، حکم راں جماعت کے سامنے سرنگوں ہوجانے کی ایک دو نہیں بلکہ درجنوں مثالیں ہیں۔ یہی الیکشن کمیشن شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کو اس لیے سمن جاری کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے گانے میں جے بھوانی اور ہندو جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں مگر بی جے پی اپنی انتخابی مہم میں رام مندر کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کر کے ووٹ مانگ رہی ہے۔ ملک کا وزیر اعظم کھلے عام ہندو مسلم کر رہا ہے اور کمیشن خاموش تماشائی اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
الیکشن کمیشن کا ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ-1 سیاسی پارٹی یا امیدوار وں کو باہمی نفرت یا مختلف ذاتوں اور برادریوں کے درمیان مذہبی یا لسانی کشیدگی پھیلانے سے روکتا ہے۔ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ لیڈروں کو سیاسی حریفوں کے خلاف غیر تصدیق شدہ الزامات لگانے سے منع کرتا ہے۔ اگر انہیں دونوں ماڈلوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم مودی 21؍ جولائی سے اب تک اپنی نصف درجن انتخابی تقریروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں ملوث دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے دو طبقوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ حقائق سے ماورا ہو کر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ کانگریس بیک ورڈ کلاسیس، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب سے حقوق چھین کر مسلمانوں کو دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور کانگریس کے انتخابی منشور سے متعلق ایسے دعوے کیے ہیں جو نہ منموہن سنگھ کی تقریر میں تھی اور نہ کانگریس کے انتخابی منشور میں ہندو خواتین کے منگل سوتر اور ہندوؤں کی جائیداد کو لے کر مسلمانوں میں تقسیم جیسی کوئی بات کی گئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ وزیر اعظم مودی نے پہلی مرتبہ اس طرح کی نفرت انگیز تقریر کی ہے بلکہ 2002 کے گجرات فسادات کے بعد منعقد ہونے والے گجرات اسمبلی انتخابات میں بھی انہوں نے کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا بلکہ ان کی زہر آلود تقاریر سے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر لنگڈوہ بھی محفوظ نہیں تھے۔لنگڈوہ پر انہوں نے ان کے عیسائی ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا تھا۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے اب تک اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے تحت کم از کم 27 شکایات الیکشن کمیشن آف انڈیا سے کی ہیں۔معاملہ صرف یہی نہیں ہے کہ ان میں سے کسی بھی ایک معاملے میں الیکشن کمیشن نے ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے بلکہ ان میں کئی ایسی شکایات ہیں جو کھلے عام انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے خلاف درج کی گئی کم از کم 27 شکایات میں 12 میں فرقہ وارانہ تقاریر کے الزامات ہیں، مسلح افواج کو انتخابی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے 8 الزامات ہیں، سرکاری اسکیموں کو سیاسی اشتہارات کے طور پر استعمال کرنے، مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے، انتخابی تقاریر کی تیاری کے لیے حکومتی وزارتوں کا استعمال، انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر میں مشکوک بلیک باکس کی موجودگی اور انتخابی مہم کے دوران نابالغوں کو استعمال کرنے کے الزامات ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ الزامات اور شکایت کوئی معمولی نہیں ہیں بلکہ سنگین قسم کے ہیں مگر آج ان شکایت پر کوئی کارروائی تو دور کوئی ایک سمن تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ اگر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والا لیڈر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، ہم کارروائی کریں گے۔ مگر مودی کی اس تقریر کے بعد وہ دعوی دعوی ہی رہ گیا۔ ایسے میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے موجودہ حالات، جدید ٹیکنالوجی کے کثیر استعمال اور انتخابات کے دوران بے دریغ دولت کے استعمال نے کمیشن کے سامنے کئی چیلنجوں کو کھڑا کر دیا ہے۔ یہ سوالات ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا الیکشن کمیشن بحیثیت ادارہ ان چیلنجوں سے نمٹنے اور غیر جانب دار انتخابات کروانے اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں پر غیر جانب داری کے ساتھ کارروائی کرنے کا اہل بھی ہے؟
دراصل الیکشن کمیشن بحیثیت ادارہ تدریجی عمل کے ذریعہ تشکیل پایا ہے۔اسی طرح ضابطہ اخلاق کے قواعد اور اصول راتوں نہیں بنائے گئے۔ اب چوں کہ جدید ٹیکنالوجی اور اے آئی کی آمد، انتخابات میں بے پناہ دولت کے استعمال نے کمیشن کے سامنے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں، فرقہ واریت اور اکثریت واد نے ادارہ کو ایک پاپولر لیڈر کے خلاف اقدام کرنے سے خوف زدہ کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب میں توازن برقرار رکھنے کے لیے وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل کمیٹی کو تقرری کا اختیار دے دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں الیکشن کمشنروں کی تقرری کی من مانی کا سلسلہ ختم ہونے کی توقع تھی، مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ کے ذریعہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنروں کی تقرری کو ایکٹ، 2023 کے ذریعے منظور کر لیا گیا۔ ایکٹ کے سیکشن 7 کے مطابق صدر جمہوریہ، وزیر اعظم پر مشتمل سیلکشن کمیٹی کی سفارش پر سی ای سی اور الیکشن کمیشن کا تقرر کریں گے۔ اس کے چیئر پرسن کے طور پر وزیر اعظم کے ذریعہ نامزد کردہ مرکزی کابینہ کا وزیر اور قائد حزب اختلاف اس کے رکن ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ اس قانون کے بعد الیکشن کمیشن اور کمشنروں کی تقرری کا مکمل اختیار مکمل طور پر حکومت کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کے پسندیدہ افسروں سے جانب داری کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔
سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے اپنے حالیہ ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ملک میں سیاسی ماحول تیز ہو گیا ہے، اس کی وجہ سے ضابطہ اخلاق کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔ خلاف ورزیوں کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔سیاسی لیڈر انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے اور ووٹروں کو پولرائز کرنے کے لیے پاگل پن کی حد تک ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ اس سے قبل کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ سیاسی لیڈروں نے اپنے وقار، طاقت اور مقبولیت کا سہارا لے کر اصول و قوانین کی دھجیاں اڑائی ہوں۔ ٹیکنالوجی نے ان سیاسی لیڈروں کو بکتر بند گاڑی فراہم کر دی ہے اور وہ آسانی سے کمیشن کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لواسا کہتے ہیں کہ موجودہ فریم ورک کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی نوعیت کو بیان نہیں کیا گیا ہے، اس لیے منصفانہ، شفاف اور معروضی انداز میں تعزیری اقدامات کی وضاحت ضروری ہے۔ خاص طور پر سنگین خلاف ورزیوں، جیسے نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ اور ذات پات کے جذبات کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش، مخالفین کے خلاف غلیظ زبان اور گالی گلوچ کا استعمال، مسلح افواج کا سیاسی استعمال یا پھر ان کی تنقید کرنے پر فوری کارروائی کے لیے ضابطہ سازی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی خلاف ورزیوں پر سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ اس طرح کی کسی بھی خلاف ورزی کی پہلی صورت میں کم سے کم ایک مخصوص مدت کے لیے انتخابی مہم چلانے پر پابندی عائد کردی جائے۔ دوسری مرتبہ غلطی کے ارتکاب پر طویل مدت کے لیے پابندی لگانی چاہیے۔ اس کے باوجود سیاسی لیڈر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو انہیں پوری مدت انتخابی مہم میں حصہ لینے سے روک دینا چاہیے۔اس طرح کی پابندی کا مطلب میڈیا کی تمام شکلوں پر تمام عوامی نمائش اور تعامل پر مکمل پابندی ہے۔ ضابطہ اخلاق میں یہ قانون بھی شامل کیا جانا چاہیے کہ جو لوگ بار بار خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جائیں، وہ ایک مخصوص مدت کے لیے بعد کے انتخابات میں اسٹار کیمپینز کے طور پر درجہ بندی کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ سابق الیکشن کمشنر لواسا کہتے ہیں کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ایم سی سی سیاسی جماعتوں کے خلاف تعزیری کارروائی شروع کرے۔
اگر اس کے کارکنان یا اسٹار کمپینرز ضابطہ اخلاق کی بار بار خلاف ورزی کرتے ہیں تو ایسی جماعت کی رجسٹریشن منسوخ یا پھر انتخابی نشانات چھین لینے جیسے سخت اقدمات کیے جانے چاہئیں۔ خلاف ورزی کے 72 گھنٹے کے اندر تعزیری کارروائی کی جائے۔ ایک معیاری طریقہ کار وضع کیا جائے۔لواسا کہتے ہیں کہ ضابطہ اخلاق کی واضح خلاف ورزی کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے کمیشن کی منظوری کے بعد کارروائی نہیں کرتے ہیں مگر اب ضرورت اس بات کی ہے قانون نافذ کرنے والی مشینری کی طرف سے قانونی کارروائی خود بخود عمل میں آئے، چاہے الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی خاص ہدایت ملے یا نہ ملے۔لواسا کہتے ہیں کہ یہ اقدامات ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کو روکنے میں کیا کردار ادا کریں گے یہ سب سیاسی رہنماؤں کے قول و عمل پر منحصر ہے۔ تاہم، یہ یقینی طور پر فیصلہ سازی میں ریفری کی صوابدید کو محدود کر دے گا، اس طرح اس پر تعصب یا امتیازی سلوک کے الزامات نہیں لگیں گے۔الیکشن کمیشن اگر خود کو مقررہ وقت اور قابل اعتبار طریقے سے خلاف ورزی کے مقدمات کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پابند بنالے گا تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے اپنے عزم کے علاوہ زیادہ سے زیادہ عوام کے اعتماد کو مضبوط کرے گا۔
فرقہ واریت کا سہارا مودی کی مایوسی کی عکاس
سوال یہ ہے کہ دس سالوں تک وزارت عظمیٰ جیسے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے کے باوجود نریندر ی مودی آخر اتنی نچلی سطح پر اتر کر انتخابی مہم چلانے پر مجبور کیوں ہوگئے؟ دراصل 2024 کے پہلے ’’موڈ آف دی نیشن‘‘ کے سروے کے مطابق سروے میں شامل 64 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ معاشی صورت حال پچھلی دہائی میں خراب ہوئی ہے یا پھر حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ جب کہ ایک دہائی آبادی کا ماننا ہے کہ 2014 کے مقابلے میں مزید بدتر ہو گئی ہے۔ آر بی آئی کے ایک سروے کے مطابق مودی حکومت کے دوسرے دور میں شہریوں میں مایوسی کا ماحول ہے۔ سی ووٹر کے ذریعہ کے گئے اس سروے میں 35,801 افراد کو شامل کیا گیا ہے۔یہ سروے 15؍ دسمبر 2023 سے 28؍ جنوری 2024 کے درمیان کیے گئے ہیں۔ یہ وہی دور ہے جب پورے ملک میں ایودھیا میں پران پرتشٹھا کی خبریں سب سے زیادہ دکھائی جا رہی تھیں۔ اجودھیا کے نام پر پورا ملک ٹھیر سا گیا تھا۔ بے روزگاری سے متعلق سروے میں شامل 54 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ روزگار کی صورت حال ’’انتہائی سنگین‘‘ ہے۔ بے روزگاری کی حالت سے متعلق معروضی اعداد و شمار، حکومتی تردید کے باوجود افسوس ناک حالت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سروے میں شامل 62 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ گھریلو اخراجات چلانا انتہائی مشکل ہے۔ سروے میں شامل 95 فیصد افراد کے لیے قیمتوں میں اضافہ تشویش کا باعث ہے۔ سروے میں شامل 52 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ بڑے کاروبار کی مدد کے لیے معاشی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ صرف 9 فیصد کا خیال ہے کہ معاشی پالیسیاں کسانوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ 11 فیصد کا خیال ہے کہ وہ چھوٹے کاروبار کی حمایت کرتے ہیں اور صرف 8 فیصد کا کہنا ہے کہ ان سے تنخواہ دار طبقے کو فائدہ ہوتا ہے۔ مودی دور حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے غربت اور امیری کے درمیان خلیج کافی بڑھ گئی ہے۔ سروے میں شامل تقریباً نصف کا یہ احساس ہے۔ تقریباً 45 فیصد کا خیال ہے کہ خلیج کافی گہری ہوئی ہے۔اگرچہ مودی حکومت ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے کہ اب 7.78 فی صد ٹیکس دہندگان ریٹرن داخل کرتے ہیں۔
انڈیا ریٹنگز اینڈ ریسرچ برائے FY22 اور FY23 کا تجزیہ، جس کا حوالہ انڈیا ٹوڈے نے دیا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ کم آمدنی والے گروپوں کے لیے اجرت، جن میں زرعی دیہی کارکنان اور غیر ہنر مند کارکنان شامل ہیں، میں تنزلی یا نہ ہونے کے برابر اجرت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے بر عکس کارپوریٹس کے لیے اجرت، جو آمدنی کے خطوط کے سب سے اوپر 50 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے، پچھلے دو سالوں میں 10 فیصد سے زیادہ بڑھی ہے۔ سیاسی منظر نامے پر ایک کاروباری گھرانے پر بات چیت کا غلبہ رہا ہے، اڈانی گروپ کی تیز رفتار ترقی جو وبائی مرض کے دوران بھی جاری رہی، ہندوستان میں ترقی کی شرح اور کاروباری برادری میں اس کے ساتھیوں کی نمو کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار ایک بڑی کہانی کو چھپاتے ہیں جس کے معاشی مساوات کے اعداد و شمار پر مضمرات ہیں۔ بڑی کارپوریشنوں نے بطور گروپ مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تاہم کارپوریشنوں سے زیادہ شہریوں نے ٹیکس ادا کیا ہے۔1990 کی دہائی کے بعد سے یہ صرف تیسری مرتبہ ہوا ہے کہ افراد نے کارپوریشنوں سے زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے۔
کسی بھی وزیر اعظم اور اس حکومت کے لیے شرمندگی کی بات اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتی کہ وہ دس برسوں تک اقتدار میں رہنے کے باوجود اپنے کام کاج پر ووٹ مانگنے کے بجائے انتخابات جیتنے کے بعد پولرائزیشن اور نفرت انگیز مہم کا سہارا لینے پر مجبور ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں پر مودی کی کامیابی کی فہرست کافی طویل ہونے کے باوجود وہ عوام میں انتہائی غیر مقبول ہیں۔عوام مودی حکومت کے کام سے زیادہ پروپیگنڈے سے متاثر ہیں۔
سی ایس ڈی ایس انگریزی اخبار دی ہندو نے ملک کے عام شہریوں کے مزاج کو جاننے کی کوشش کی تو صرف 22 فیصد عوام نے رام مندر کو ایک ایشو کے طور پر قبول کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آخر کار انہیں فرقہ واریت کا سہارا لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مگر سوال یہ نہیں ہے کہ اس مہم سے مودی کو کتنا فائدہ پہنچے گا بلکہ سوال یہ ہے کہ سماج و معاشرہ کا کیا ہوگا جس کے دو طبقات کو زہریلے بیانات کے ذریعہ آمنے سامنے کر دیا گیا ہے۔ اس کا اثر چند دنوں اور مہینوں میں ختم نہیں ہوگا بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ خلیج مزید گہری ہوتی چلی جائے اور اس کا بھاری نقصان ملک کو پہنچے گا جس کی طرف اشارہ رام چندر گوہا نے کیا ہے۔
ایک طرف سیکولر پارٹیاں پولرائزیشن کے خوف سے مسلمانوں کو ٹکٹ دینے سے گریز کر رہی ہیں تو دوسری طرف مودی اور ان کے لیڈر مسلمانوں کے خلاف تئیں ہندوؤں میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کو نہ جانے میں عافیت ہے اور نہ آنے میں ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے کیوں کہ انہی کے نام پر انتخابات جیتنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ڈسکوری آف انڈیا ‘‘ میں بھارتی جمہوریت کے تئیں اپنے اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’انتخابات جمہوری عمل کا لازمی حصہ ہیں اور ان کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ کارگر نہیں ہے۔ اس کے باوجود اکثر انتخابات انسان کے برے پہلو کو سامنے لاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں حساس افراد، کامیابی کے لیے جھوٹ کا سہارا نہ لینے والے اور اخلاق و کردار کے حامل افراد کا انتخاب جیتنا ممکن نہیں ہے۔ تو کیا جمہوریت چیخ و پکار، الزام تراشی اور جھوٹ بولنے والوں کے لیے ہے؟ جمہوریت کا یہی وہ پہلو ہے جو تاریک ترین ہے کہ جہاں افراد کی صلاحیت و قابلیت اور شرافت و دیانت داری کے بجائے سَروں کی گنتی کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 75 برس گزر جانے کے باوجود بھارت کے رائے دہندگان بالغ نظری اور خود مختاری کے احساس سے کب تک محروم رہیں گے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ افراد سازی اور کردار سازی پر توجہ دی جائے اور اچھے سیاست دانوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے۔ اس معاملے میں ملک کی مذہبی و دینی جماعتیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
***

 

***

 سی ایس ڈی ایس انگریزی اخبار دی ہندو نے ملک کے عام شہریوں کے مزاج کو جاننے کی کوشش کی تو صرف 22 فیصد عوام نے رام مندر کو ایک ایشو کے طور پر قبول کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آخر کار انہیں فرقہ واریت کا سہارا لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مگر سوال یہ نہیں ہے کہ اس مہم سے مودی کو کتنا فائدہ پہنچے گا بلکہ سوال یہ ہے کہ سماج و معاشرہ کا کیا ہوگا جس کے دو طبقات کو زہریلے بیانات کے ذریعہ آمنے سامنے کر دیا گیا ہے۔ اس کا اثر چند دنوں اور مہینوں میں ختم نہیں ہوگا بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ خلیج مزید گہری ہوتی چلی جائے اور اس کا بھاری نقصان ملک کو پہنچے گا جس کی طرف اشارہ رام چندر گوہا نے کیا ہے۔ایک طرف سیکولر پارٹیاں پولرائزیشن کے خوف سے مسلمانوں کو ٹکٹ دینے سے گریز کر رہی ہیں تو دوسری طرف مودی اور ان کے لیڈر مسلمانوں کے خلاف تئیں ہندوؤں میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کو نہ جانے میں عافیت ہے اور نہ آنے میں ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے کیوں کہ انہی کے نام پر انتخابات جیتنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024