بھارت کی وسطی ایشیائی پالیسی

چین کی ریشہ دوانیوں کے درمیان پانچ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش

اسد مرزا

دہشت گردی اور منشیات سے نمٹنے جیسے مسائل پر اتفاق رائے۔ افغانستان پر مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے کا فیصلہ
وسطی ایشیائی ممالک اور خطے کے ساتھ بھارت کے دیرینہ تعلقات کی نشانی قدیم شاہراہ ریشم یعنی Silk Road سے لگایا جا سکتا ہے، جس کے ذریعہ سامان، مختلف ملکوں کے عوام اور خیالات وکلچر کا تبادلہ ہوا کرتا تھا۔ جغرافیائی طور پر وسطی ایشیا صدیوں سے خطے کی اہم سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کے سنگم پر موجود ہے جبکہ شاہراہ ریشم کے ذریعے ہونے والے تبادلے کی وجہ سے بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان دیرینہ روابط ہمیشہ موجود رہے ہیں جن کی حال ہی میں بھارت نے دوبارہ تجدید کی نئی کوششیں شروع کی ہیں۔
بھارت نے گزشتہ ہفتے وسطی ایشیائی جمہوریہ (CARs) جن میںقازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں ان کے صدور کے ساتھ ایک ورچوئل سربراہی اجلاس منعقد کرکے اپنے عزائم کا اظہار کیاہے ، اس سے قبل بھارت کا پروگرام یہ تھا کہ یوم جمہوریہ کی پریڈ میں ان صدور کو بطور مہمان خصوصی شرکت کے لیے بھارت آنے کی دعوت دی جائے۔ لیکن کوویڈ کی سفری پابندیوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا، تو بھارت نے یہ ورچوئل اجلاس منعقد کیا۔
بھارت کی نئی مہم
حسب توقع افغانستان کا مسئلہ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کے مرکزی موضوعات میں سرِ فہرست رہا۔ وزیراعظم مودی اور پانچ صدور نے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے جیسے مسائل پر وسیع اتفاق رائے کے ساتھ افغانستان پر ایک مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
وزیراعظم مودی نے CARs کے ساتھ باہمی تعلقات میں فریقین کے لیے تین نکات پر مرکوز منصوبے کا خاکہ پیش کیا؛ ایک مربوط اور مستحکم ہمسائیگی کے بھارت کے وژن میں وسطی ایشیا مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور بھارت اور وسطی ایشیا کے درمیان تعاون علاقائی سلامتی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے، دوسرا مختلف سطحوں پر اور فریقین کے درمیان باقاعدہ بات چیت کا فریم ورک قائم کرنا، اور آخر میں مستقبل کے ممکنہ تعاون کے لیے ایک باعزم روڈ میپ تیار کرنا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے اس موقع پر دو طرفہ سطح پر تمام وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھارت کے قریبی تعلقات کا بھی حوالہ دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے قازقستان کو بھارت کی توانائی کی سلامتی کے لیے ایک اہم شراکت دار قرار دیا۔
انہوں نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ بھارت کی ریاستی حکومتیں ازبکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعاون میں فعال شراکت دار ہیں، جبکہ کرغزستان کے ساتھ تعلیم اور موسمیاتی تحقیق میں فعال شراکت داری ہے۔ مودی نے ترکمانستان کو علاقائی رابطوں کے لیے بھارت کے وژن کا ایک اہم حصہ قرار دیا، اور کہا کہ یہ ’’اشک آباد معاہدے‘‘ میں ہماری شرکت سے ظاہر ہے۔ تاجکستان کے ضمن میں، انہوں نے کہا کہ’’دونوں ملکوں کے دفاعی شعبے میں دیرینہ تعاون رہا ہے ۔ اور ہم اسے مسلسل مضبوط کر رہے ہیں۔‘‘
CARs کی اہمیت
پچھلی دہائی میں، وسطی ایشیائی ممالک بھی خاص طور پر اقتصادی اور سلامتی کے شعبوں میں قابل عمل شراکت داروں کی جستجو میں رہے ۔اس کی وجہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے نمٹنے میں دوسرے ملکوں کے ساتھ مشترکہ شراکت داری ایک اہم حصہ تھا اور ساتھ ہی ساتھ سیکورٹی اور وسائل کی کمی، افغانستان میں سیکورٹی کی مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال اور وسطی ایشیامیں موجود سیاسی اختلافات بھی وابستہ خدشات نے بھی ایک اہم کردارادا کیا۔
ماضی میں بھارت کی UPA-II کی طرف سے شروع کی گئی’’کنیکٹ سینٹرل ایشیا پالیسی‘‘ کے ساتھ بھارت نے پوری جانفشانی سے اپنی رسائی کا آغاز کیا، بعد میں وزیر اعظم مودی 2016 میں پانچوں ممالک کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی سربراہ بنے۔
بھارت نے خطے کے ساتھ دو سطحوں پر کثیر الجہتی اشتراک بھی شروع کیا ہے۔پہلا علاقائی رابطے کے ذریعے ہے، جس میں طویل عرصے سے تاخیر کا شکار منصوبوں کو جلد از جلد پورا کرنے کے لیے نئے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ایران اور بھارت کے درمیان چابہار بندرگاہ کو ترقی دینے کے معاہدے پر دستخط کے بعد اس کوشش کو فروغ ملا۔ یہ بندرگاہ اب تجارتی طور پر کام کرنے لگی ہے۔ اس کے علاوہ، ایران کے راستے بھارت اور وسطی ایشیا کے درمیان سامان کی نقل و حمل کو آسان بنانے کے لیے، بھارت نے 2018 میں ’’اشک آباد معاہدے‘‘ میں شمولیت اختیار کی جس میں ایران، عمان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)میں 2017میں اس کے مکمل رکن کے طور پر شمولیت اختیار کی جو خطے کی دیگر سرکردہ تنظیموں اور ممالک کے ساتھ اقتصادی اور سلامتی کے مسائل جو دنیا کے لیے ممکنہ طور پر مستقبل میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے تھے انہیں حل کرنے کے لیے ایک فعال تنظیم تھی جس میں بھارت بااثر کردار ادا کرسکتا تھا۔
بھارت اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک کی ورچوئل کانفرنس کے اختتام پر کئی مثبت پیش رفتیں سامنے آئی ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات کے قیام کے 30 سال مکمل ہونے کی یاد میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں علاقائی روابط اور سلامتی کو فروغ دینے کے لیے تعاون کو اگلی سطح تک لے جانے پر اتفاق رائے کا مشاہدہ بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ رہنماؤں نے ہندوستان-وسطی ایشیا تجارت کو مزید فروغ دینے سے اتفاق کیا، جو اس وقت صرف 2 بلین ڈالر ہے،جبکہ چین کا ان ملکوں کے ساتھ 40 بلین ڈالر کا سالانہ کاروبار ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور پانچ صدور نے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے جیسے مسائل پر وسیع اتفاق رائے کے ساتھ افغانستان پر ایک مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیاہے۔
1990 کی دہائی میں، جب ان پانچ ملکوں نے آزادی حاصل کی تھی،تب بھارت کو سرد جنگ کے بعد کے ابھرتے ہوئے بین الاقوامی نظام اور گھریلو اقتصادی اصلاحات کے ساتھ تال میل کرنے میں دو چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہاتھا۔ اس کے باوجود بھارت نے اپنی اس وقت کی پالیسی میں خطے کے مختلف ممالک خصوصاًCARS کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع اور اشتراک پر بہت زیادہ زور دیا تھا۔
وسطی ایشیا کی ریاستوں کی تشکیل کے فوراً بعد سابق بھارتی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے 1993 میں ازبکستان اور قازقستان کا دورہ کیا، اس کے بعد 1995 میں ترکمانستان اور کرغزستان کا دورہ کیا، اس کے علاوہ ہندوستانی تجارت، سرمایہ کاری اور خطے میں ترقیاتی امداد کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے والے معاہدوں کے علاوہ، اس دورے نے مشترکہ سیکولر اقدار پر بھی زور دیا۔ اور مشترکہ خطرات – مذہبی بنیاد پرستی، نسلی تعصب، دہشت گردی، منشیات کی مالی اعانت سے چلنے والے تشدد اور جرائم کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ یہ مشترکہ سیکورٹی مفادات خطے کے ساتھ بھارت کی مصروفیت کے پیچھے اہم محرک تھے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ ایک ’لُک نارتھ پالیسی‘ کے ذریعے بیان کیا گیا تھا جس میں مشترکہ خدشات کے ساتھ ساتھ ’کسی تیسرے ملک کو نقصان پہنچائے بغیر استحکام اور تعاون کو فروغ دینے کی خواہش پر زور دیا گیا تھا۔
خطے کے ساتھ بھارت کا فوجی تعاون زیادہ تر فوجی تعلیم اور تربیت تک محدود رہا ہے، جس میں خطے کے افسران نے بھارت کے فوجی اداروں میں کورسز میں شرکت کی، خطے میں فوجی تربیتی اداروں کو بنیادی ڈھانچے کی مدد کے ساتھ ساتھ فیلڈ اسپتالوں کا قیام بھی شامل ہے۔
محدود پیش رفت کے باوجود، خطے میں بھارت کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اس کی ’کنیکٹ سینٹرل ایشیا پالیسی‘ کی شکل میں ابھرکر سامنے آئی ہے۔ 2012 میں بشکیک میں ایک خطاب کے دوران اس پالیسی کی نقاب کشائی کرتے ہوئے، اس وقت کے ہندوستانی وزیر مملکت برائے امور خارجہ ای احمد نے دنیا کے ساتھ وسطی ایشیا کے جاری سیاسی اور اقتصادی انضمام کی طرف توجہ مبذول کروائی اور بھارت کے پھیلے ہوئے پڑوس میں خطے کے مقام کو اجاگر کیا۔ خطے کے ساتھ معاشی تعاون کی مایوس کن حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے، پالیسی میں اسٹریٹجک اور سیکورٹی تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی، جس میں افغانستان، توانائی اور دیگر قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ رابطے پر قریبی مشاورت بھی شامل تھی۔
چین اور CARsچین کی ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو مسلسل مضبوط کرنے کی کوششوں کے درمیان، جو آٹھ رکنی شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بھی ہیں اور جس میں بھارت بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ بیجنگ کو جو چیز جغرافیائی اور سیاسی برتری دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی سرحدیں پانچ میں سے تین ممالک کے ساتھ ملتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بآسانی ان ملکوں کے ساتھ باہمی تجارت کرسکتا ہے۔
چین ان ممالک کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کو بھارت کی بہ نسبت اور زیادہ فروغ دینے کی کوششوں میں ہمیشہ مشغول رہتا ہے۔ اس کا اندازہ اس کی حالیہ اس حرکت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے سربراہی اجلاس سے دو دن قبل ہی چینی صدر شی جن پنگ نے وسطی ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ اپنا الگ ورچوئل اجلاس منعقد کیا اور افراتفری میں منعقدہ اس اجلاس میں ان ممالک کے لیے 500 ملین ڈالر کی مزید امداد کا اعلان کیا۔ انہوں نے علاقائی اہمیت کے کئی بڑے منصوبوں کی فہرست بھی دی جو مکمل ہو چکے ہیں، جن میں چین۔وسطی ایشیا قدرتی گیس پائپ لائن، چین۔قازقستان خام تیل کی پائپ لائن، چین-کرغزستان-ازبکستان ہائی وے اور چین-تاجکستان ایکسپریس وے شامل ہیں۔ چینی چیلنج کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں، بھارت نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبوں کے لیے 1 بلین ڈالر کی لائن آف کریڈٹ کی توسیع کی ہے اور وسطی ایشیائی ممالک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تعلیم کے شعبے میں مزید تربیتی اسامیاں اور اسکالرشپ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔
مجموعی طور پر نئی دہلی کو ان ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ وسعت دینے کے لیے سفارتی اور اقتصادی دونوں محاذوں پر اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ CARsممالک ہر دور میں اس کے اتحادی بنے رہیں،تبھی دو طرفہ دوستی کو اور زیادہ مضبوط کیا جاسکتا ہے جو دونوں کے مفاد میں ایک مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔ اگرچہ ان اقدامات نے یوریشین خطے میں آمد و رفت کی کنیکٹیویٹی کے لیے بھارت کے وژن کو ایک نئی زندگی بخشی ہے،تاہم نئی دلی کو امریکا-ایران کشیدگی کے پیش نظر ان منصوبوں کی مسلسل عملداری کو یقینی بنانے کے لیے زمینی کارروائی کے ساتھ ساتھ ماہرانہ سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
چونکہ وسطی ایشیا میں استحکام روس اور چین جیسے بڑے کھلاڑیوں کے مفادات کے لیے اہم ہے، اس لیے CARsکو افغانستان سے متعلق کثیرالجہتی فورمز پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی؛ساتھ ہی علاقائی تعاون کو بڑھانے کے لیے بھارت کے لیے CARs کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی اہمیت کو زیادہ وقعت دینا ہوگا۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
***

 

***

 چین ان ممالک کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کو بھارت کی بہ نسبت اور زیادہ فروغ دینے کی کوششوں میں ہمیشہ مشغول رہتا ہے۔ اس کا اندازہ اس کی حالیہ اس حرکت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے سربراہی اجلاس سے دو دن قبل ہی چینی صدر شی جن پنگ نے وسطی ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ اپنا الگ ورچوئل اجلاس منعقد کیا اور افراتفری میں منعقدہ اس اجلاس میں ان ممالک کے لیے 500 ملین ڈالر کی مزید امداد کا اعلان کیا۔ انہوں نے علاقائی اہمیت کے کئی بڑے منصوبوں کی فہرست بھی دی جو مکمل ہو چکے ہیں، جن میں چین۔وسطی ایشیا قدرتی گیس پائپ لائن، چین۔قازقستان خام تیل کی پائپ لائن، چین-کرغزستان-ازبکستان ہائی وے اور چین-تاجکستان ایکسپریس وے شامل ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022