ہند۔ ترکی رشتوں کا نازک موڑ !
گاندھی جی کاخلافت تحریک اور سلطنت عثمانیہ سے لگاو ایک ناقابل فراموش باب
افروز عالم ساحل
ہندوستان کا ترکی کے ساتھ سیاسی رشتہ بےحد پرانا ہے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ جب بھی ترکی پر کوئی پریشانی آئی تو ہندوستان دل وجان سے اس کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آیا۔
اٹھارہویں صدی میں ٹیپو سلطان نے ترکی میں اپنا سفیر انگریزوں کے خلاف بھیجا تھا۔ بیسویں صدی میں جب ترکی اور اٹلی میں جنگ چھڑی تو ہندوستان میں دہلی واطراف کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے لگا۔ اس جنگ نے ہندوستانی مسلمانوں کو بے چین کرکے رکھ دیا۔
۱۹۱۲ میں جنگ بلقان جیسے جیسے بڑھ رہی تھی یہ واضح ہوتا جا رہا تھا کہ برطانیہ اب وہ ملک نہیں رہا جو نصف صدی قبل روس کے خلاف جنگ میں ترکی کے ساتھ شانہ بہ شانہ لڑا تھا۔ ایسے میں ہندوستان کے مسلمان ترکی کے لیے متحد ہونے لگے بلکہ ترکی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے بے شمار تنظیمیں پیدا ہو گئیں۔ کئی منصوبے تیار کیے گئے۔ ان میں ایک تھا انجمن خدام کعبہ کی تشکیل اور دوسرا ترکی کو بھیجا جانے والا انڈین میڈیکل مشن۔
خود ہندوستان کے وائسرائے نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا، ’جنگ بلقان سے مسلم حلقوں میں زبردست اضطراب پایا جاتا ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ عیسائی مسلمانوں کو پوروپ سے نکالنے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ اس طرح حکومت ہند جو اس لڑائی کے سلسلے میں لا تعلقی برت رہی تھی، یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ اب وہ برطانوی سازش پر زیادہ دیر تک پردہ نہیں ڈالے رکھ سکے گی۔
مسلم دنیا میں ترکی کو ہمیشہ عزت کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ بقول مولانا مظہرالحق ہندوستان کے مسلمان ابتدا ہی سے ہی مذہبی بنیادوں پر عثمانی مسلمانوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور وہ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہیں۔
یہی نہیں، ہندوستان میں مہاتما گاندھی ہمیشہ ترکی کی ترقی اور خوشحالی کے خواہشمند رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں ترکی کی ہمیشہ فکر رہی۔ گاندھی حکومت ہند کے سکریٹری ایس۔ آر۔ ہنگنیل کو 7 اگست 1919 میں ایک خط میں لکھتے ہیں’’ اگر کمزور قوموں کے ساتھ ایسا ہی برتاو کیا جائے گا، جیسا کہ لگتا ہے ترکی کے ساتھ کیا جانے والا ہے، تو پھر امن کی بات ایک مذاق بن کر رہ جائے گی۔ اس پورے معاملے میں عدل وانصاف کے سوال کے علاوہ اس میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومت ہند اس بات کے لیے تیار ہے کہ سلطنت کے کروڑوں شہریوں کے دلوں میں عدم اطمینان اسی طرح سلگتا رہے۔ میں نہیں مان سکتا کہ خلافت کے سوال کا کوئی مناسب حل نکالنا وائسرائے کی طاقت سے باہر ہے‘‘۔
حکومت ہند کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ نےہندوستان کے دیگر اخباروں کے ساتھ ساتھ 23 جولائی 1919 کو گاندھی کے ’ینگ انڈیا‘ کو ایک خفیہ نوٹس بھیجا، جس میں گاندھی سے کہا گیا کہ حکومت ہند چاہتی ہے کہ ترکی کے ساتھ صلح کی شرطوں کو یا اس سے متعلق کسی بھی خبر کو ہندوستان کے اخباروں میں، حکومت ہند کی پیشگی اجازت کے بغیر شائع نہ کیا جائے، جس سے ہندوستان کے عوام میں جوش وخروش پیدا ہونے کی گنجائش ہو۔ اس بات کی جانکاری خود گاندھی کے جیمس کریرر کو 7 اگست 1919 کو لکھے گئے خط سے ملتی ہے۔
7 ستمبر 1919 کو گاندھی جی گجراتی نوجیون میں ترکی پر ایک مضمون بھی لکھا جس میں وہ رقم طراز ہیں ’’ترکی کے مسئلہ کا تعلق ہندوستان کے آٹھ کروڑ مسلمانوں سے ہے اور جو سوال عوام کے چوتھائی حصہ پر لاگو ہوتا ہے، وہ پورے ہندوستان کا ہی ہے۔ عوام کے چوتھائی حصے کو چوٹ پہونچے اور ساری عوام پر اس کا اثر نہ ہو، یہ ناممکن ہے۔ اگر ایسی چوٹ کا اثر نہ ہو تو ہم ایک قوم نہیں کہے جاسکتے، ہم ایک جسم نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ہندو اور مسلمان سب کا فرض ہے کہ وہ ترکی کے مسئلہ کی اہم باتوں کو جان لیں۔ اگست 1914 میں جب لڑائی شروع ہوئی، اس وقت ترکی کی جو صورتحال تھی، وہی آج بھی ہونی چاہیے، یہ ترکی کی مانگ ہے، ہندوستان میں آباد مسلمان بھائیوں کی مانگ ہے۔‘‘
گاندھی جی اپنے اس طویل مضمون کے آخر میں یہ بھی لکھتے ہیں، جیسے مسلمانوں کا فرض ہے، ویسے ہی ہندو اور دیگر ذاتوں کا بھی ہے۔ اگر وہ مسلمانوں کو اپنا قابل احترام پڑوسی اور بھائی مانتے ہوں تو انہیں ان کی مذہبی مطالبے کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔ ہند میں پیدا ہونے والے تمام لوگوں کو ساتھ ہی جینا اور ساتھ ہی مرنا ہے۔ ایک کو پامال کر کے دوسرا کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ایک کے حقوق کو چھینتے دیکھ کر اگر دوسرا خاموش بیٹھا رہے گا تو وہ اپنے حقوق کا تحفظ بھی نہیں کر پائے گا۔
خلافت کمیٹی کی جانب سے پورے ہندوستان میں 17 اکتوبر، 1919 کو ترکی کے خلیفہ کے لیے ’یوم دعا‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس موقع پر گاندھی جی نے پریس کو اپنا بیان جاری کیا۔ اس بیان میں گاندھی جی کہتے ہیں، ایک سچا مسلمان ترکی کو تقسیم ہوتا دیکھ کر خاموش رہ سکے، یہ اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ کسی عیسائی کے لیے اس جگہ کو برباد ہوتے دیکھ کر خاموش رہنا جو اسے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے اور اس کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندو کیا کرے؟ مجھے لگتا ہے کہ انہیں اپنے مسلمان بھائیوں سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ ہندوؤں کے ذریعہ اپواس اور پرارتھنا کیا جانا دوستی اور بھائی چارے کی سب سے سچی کسوٹی ہوگی۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہر ہندو عورت ومرد 17 اکتوبر کو اسی انداز سے منائیں گے، اور اس طرح ہندو مسلم تعلقات پر ایک مقدس مہر لگا دے گا۔ گاندھی جی کا یہ بیان بمبئی کرانیکل میں 13 اکتوبر 1919 کو شائع ہوا تھا۔
اس طرح مہاتما گاندھی نہ صرف ہندوستان میں چل رہی خلافت تحریک میں سرگرم رہے، بلکہ مرتے دم تک وہ ترکی کے حق میں بولتے اور لکھتے رہے۔ وہاں کے اہم رہنماوں سے ملتے بھی رہے۔ زیادہ تر مورخین اس بات کو مانتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی میں خلافت تحریک اور اس کے نتیجے میں شروع ہوئی عدم تعاون تحریک کا سب سے اہم رول رہا ہے۔
ہندوستان وترکی کا رشتہ تاریخی، ثقافتی اور سیاسی تعامل پر مبنی ہیں جو صدیوں سے جاری ہے۔ آزادی کے بعد بھی ترکی کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات ہمیشہ بہتر رہے ہیں۔ لیکن اب یہ کہنے میں مبالغہ آرائی نہیں کی جاسکتی ہے کہ موجودہ دور میں ترکی کے ساتھ رشتے میں ہندوستان کی جانب سے تھوڑی سی تلخی ضرور نظر آئی ہے۔ وجہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کا بیان ہے۔ گزشتہ دنوں جب طیب اردگان نے ہندوستانی حکومت پر مسلمانوں کے قتل عام کا الزام عائد کرتے ہوئے دہلی تشدد پر ایک بیان دیا تو ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اردگان کے بیان کو ’’حقیقی طور پر غلط‘‘ ٹھہراتے ہوئے اسے ان کے ’’سیاسی ایجنڈے‘‘ سے متاثر قرار دیا۔ اتنا ہی نہیں، ہندوستان نے دہلی میں ترک سفیر کے سامنے اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے سخت اعتراض درج کرایا ہے۔
اس سے قبل اردگان نے کشمیرکے مسئلہ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیریوں کے ایک محفوظ مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کو ٹکراؤ سے نہیں بلکہ انصاف اور مساوات کی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس معاملے میں بھی حکومت ہند نے اپنا ردعمل دیا اور کہا کہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ دونوں ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات ہیں لیکن ہندوستان کے خلاف ترکی کی جانب سے دیا گیا بیان حقیقت میں غلط ہے۔ ہم ترک حکومت سے کوئی بیان دینے سے پہلے زمینی حقیقت کو سمجھنے کے لیے کہیں گے۔ اتنا ہی نہیں، اس بیان کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا مجوزہ ترکی دورہ منسوخ کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ مسئلہ کشمیر پر ترکی کے موقف کے پیش نظر لیا گیا۔
ابھی پوری دنیا کورونا بحران سے گذر رہی ہے۔ امید ہے جب ہم اس بحران سے باہر آئیں گے تو ضرور یہ رشتے پھر سے بہتر ہوں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب ترکی خاص طور پر ہندوستان میں برپا خلافت تحریک کا صد سالہ جشن منانے کے بارے میں سوچ رہا ہے، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس بہانے ہندوستان اس رشتے کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں۔
زیادہ تر مورخین اس بات کو مانتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی میں خلافت تحریک اور اس کے نتیجے میں شروع ہوئے عدم تعاون تحریک کا سب سے اہم رول رہا ہے۔