فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں بھارت کو مسلسل تیسرے سال ’’جزوی طور پر آزاد‘‘ ملک کا درجہ دیا گیا

نئی دہلی، مارچ 11: واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک اور واچ ڈاگ فریڈم ہاؤس کی سالانہ رپورٹ میں مسلسل تیسرے سال بھارت کو ’’جزوی طور پر آزاد‘‘ ملک قرار دیا گیا ہے۔

اس تھنک ٹینک نے سیاسی حقوق اور شہری آزادی جیسے معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی ہے 195 ممالک کی درجہ بندی کی ہے۔ مجموعی اسکور کی بنیاد پر یہ تنظیم ’’آزاد‘‘، ’’جزوی طور پر آزاد‘‘ یا ’’آزاد نہیں‘‘ کے طور پر ممالک کی درجہ بندی کرتی ہے۔

2023 کی رپورٹ میں ہندوستان نے 100 میں سے 66 اسکور کیا، جو کہ پچھلے سال کی رپورٹ کے اسکور کے برابر ہے۔

9 مارچ کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں ہندوستان کو ’’جزوی طور پر آزاد‘‘ ملک قرار دینے کی وجہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی ’’امتیازی پالیسیوں‘‘ اور ملک کی ’’مسلم آبادی پر ظلم و ستم’’ میں اضافے کو قرار دیا گیا ہے۔

فریڈم ہاؤس کی یہ رپورٹ سویڈن میں قائم ورائٹیز آف ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے جاری کردہ اس رپورٹ کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان گذشتہ 10 سالوں کے ’’بدترین آمریت پسند‘‘ ممالک میں سے ایک ہے۔ V-Dem نامی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان سیاسی پولرائزیشن میں ’’سب سے زیادہ ڈرامائی اضافہ دیکھنے‘‘ میں افغانستان، برازیل اور میانمار کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔

مکمل رپورٹ یہاں پڑھیں: https://freedomhouse.org/country/india/freedom-world/2023#CL

فریڈم ہاؤس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے ’’آئین آزادی اظہار اور مذہب کی آزادی سمیت شہری آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے، لیکن مودی کے دور میں صحافیوں، این جی اوز اور دیگر حکومتی ناقدین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی نے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے سرکاری اداروں کا تیزی سے استعمال کیا ہے۔ وہیں مسلمان، درج فہرست ذاتیں [دلت]، اور درج فہرست قبائل [آدیواسی] اقتصادی اور سماجی طور پر پس ماندہ ہیں۔‘‘

فریڈم ہاؤس کے ذریعے ملک کی جمہوریت کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے جن دیگر چیزوں کا جائزہ لیا گیا ان میں ’’انتخابی عمل‘‘، ’’سیاسی تکثیریت اور شرکت‘‘، ’’اظہار رائے اور عقیدے کی آزادی‘‘، ’’انجمن اور تنظیمی حقوق‘‘، ’’قانون کی حکمرانی‘‘ اور ’’انفرادی حقوق‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ہندوستان نے اپنے انتخابی عمل کے جائزے میں 4 میں سے 4 اسکور حاصل کیے، لیکن دوسرے پیرامیٹرز پر اسکور کم (2 اور 3 کے درمیان) تھا۔

ریاستہائے متحدہ کی غیر سرکاری تنظیم نے نوٹ کیا کہ مودی حکومت کے تحت بی جے پی پر تنقید کرنے والے میڈیا ہاؤسز پر حملوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔

1941 سے کام کرنے والی اس تنظیم نے کہا ’’حکام نے سیکیورٹی، ہتک عزت، بغاوت، اور نفرت انگیز تقریر کے قوانین کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کے الزامات کا استعمال کیا ہے تاکہ میڈیا میں موجود تنقیدی آوازوں کو خاموش کیا جا سکے۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرمانہ الزامات کے علاوہ ہندوستان میں صحافیوں کو اپنے کام میں ہراساں کیے جانے، جان سے مارنے کی دھمکیوں اور جسمانی تشدد کے خطرات کا سامنا ہے۔

اس میں دہلی پولیس کی طرف سے صحافی میر فیصل اور نیوز ویب سائٹ آرٹیکل 14 کے خلاف درج مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے۔

اکتوبر میں نیوز پورٹل دی وائر کے دفتر پر چھاپے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی گرفتاری کا حوالہ بھی رپورٹ میں شامل ہے۔

فریڈم ہاؤس نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ حالیہ برسوں میں ہندوستان میں تعلیمی آزادی نمایاں طور پر کمزور ہوئی ہے اور سیاسی اور مذہبی مسائل کی وجہ سے پروفیسرز، طلباء اور اداروں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ماہرین تعلیم کو دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ بی جے پی حکومت کے لیے حساس سمجھے جانے والے موضوعات پر بات نہ کریں، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات اور کشمیر کے حالات۔ باوقار تعلیمی اداروں کے سربراہان کو حکمران جماعت سے وفاداری کے لیے تیزی سے منتخب کیا جا رہا ہے۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارکنوں، مسلمانوں اور دیگر پسماندہ کمیونٹیز کے ارکان پر مودی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی صورت میں غداری کا الزام لگایا جاتا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مظاہروں کے خلاف ایک واضح کارروائی میں مسلمانوں کے گھروں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔