جموں و کشمیر میں قومی سلامتی کے نام پر مرکز کی غلط پالیسیوں کو بھی جائز قرار دیا جا رہا ہے: محبوبہ مفتی
نئی دہلی، دسمبر 31: پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے ہفتہ کو چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کو لکھے گئے خط میں کہا کہ جموں و کشمیر کے شہریوں کے بنیادی حقوق 2019 سے معطل ہیں اور مرکزی حکومت کی ’’آہنی پالیسیوں‘‘ کو قومی سلامتی کے نام پر جائز قرار دیا جا رہا ہے۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ نے یہ خط مرکز کے زیر انتظام علاقے اور ملک کی موجودہ صورت حال کے بارے میں اپنی ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کرنے کے لیے لکھا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے ’’2019 کے بعد سے جموں و کشمیر کے ہر باشندے کے بنیادی حقوق کو من مانے طور پر معطل کر دیا گیا ہے اور جموں و کشمیر کے الحاق کے وقت دی گئی آئینی ضمانتوں کو اچانک اور غیر آئینی طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔‘‘
5 اگست 2019 کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا تھا، جس سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا، جو اسے 1947 میں اس ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کے وقت دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا۔
پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے 5 اگست کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
اپنے خط میں مفتی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر کے شہریوں کے اندر اعتماد کا فقدان اور بیگانگی 2019 کے بعد سے بڑھی ہے۔ انھوں نے کہا ’’پاسپورٹ ایک بنیادی حق ہونے کے باوجود بغیر استثنیٰ کے ضبط کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور انھیں ملک سے باہر جانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔‘‘
سابق وزیر اعلیٰ نے صحافیوں فہد شاہ اور سجاد گل کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کرنے کا ذکر کیا۔
مفتی نے کہا کہ ان حالات میں عدلیہ ہی واحد ’’امید کا نشان‘‘ ہے۔ انھوں نے کہا ’’تاہم مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ اب تک عدلیہ کے ساتھ ہمارے تجربے نے ہم میں زیادہ اعتماد پیدا نہیں کیا۔‘‘
پی ڈی پی کی سربراہ نے کہا کہ اسٹین سوامی، سدھا بھردواج، صدیق کپن اور عمر خالد جیسے کارکنان اور صحافیوں جیسے معاملات میں ضمانت معمول کے بجائے مستثنیٰ بن گئی ہے۔
انھوں نے کہا ’’بنیادی حقوق جو ہندوستانی آئین میں درج ہیں اور تمام ہندوستانی شہریوں کو جن کی ضمانت دی گئی ہے، ان پر بڑی ڈھٹائی سے پابندی لگائی جا رہی ہے۔‘‘