اجتماعیت سود مند اور انفرادیت پسندی ضرر رساں ہے

اسلامی معاشرے کی بنیادی خصوصیات اور اس کے تکوینی عناصر پر بحث

عبدالعزیز سلفی،علی گڑھ

مسلم معاشرت کے نمایاں خد و خال پرعلامہ یوسف القرضاویؒ کی ایک اہم تصنیف
علامہ یوسف القرضاویؒ ایک جری اور بے باک عالم دین، مربی، فقیہ، مجاہد، شاعر اور ادیب تھے۔ ان کی شخصیت مختلف کمالات کامجموعہ تھی۔ حق گوئی ، مظلومین کی تائید اور ظلم کے خلاف جدو جہد ان کی شخصیت کے بنیادی عناصر ہیں۔ علامہ قرضاوی نے جہاں قرآن و سنت کی خدمت کے لیے خود کو وقف کیا، علم و فکر کے چراغ روشن کیے اور فقہ و اجتہاد کے میدان میں امت کی خدمت کی، وہیں انہوں نے عالم اسلام کے مختلف مسائل میں بے باکی کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔ ان کی کوششوں کا دائرہ بہت وسیع اور مختلف میدانوں میں پھیلا ہواہے۔ ان کے علمی و ملی کاموں کا ایک حصہ امت کے مسائل میں رہنمائی اور عالم اسلام کے متعدد مسائل میں ان کے اجتہادی اور مجاہدانہ کردار سے متعلق ہے۔
پیش نظر رسالہ ”ملامح المجتمع المسلم الذي ننشده“یہ علامہ موصوف کی ایک مستقل تصنیف ہے جس کے کئی ایڈیشن مختلف مطابع سے شائع ہو چکے ہیں۔اب اسےموسوعہ کی چوتھی جلد میں ”التعريف العام بالإسلام“کی سرخی کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ اس میں اسلامی معاشرے کی بنیادی خصوصیات اور اس کے تکوینی عناصر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک مسلمان کا جمعیت و جماعت سے جڑے رہنا کس قدر ضروری ہے اور انفرادیت و عزلت پسندی اس کے لیے کتنی ضرر رساں ہے اس پر کتاب کے اندر جا بجا اشارے کیے گئے ہیں اور دلائل کی روشنی میں اجتماعیت کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کی گئی ہے۔
یہ کتاب ایک جامع مقدمہ اور گیارہ فصول پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں فرد اور معاشرے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اسلام نے جس طرح انسان کی انفرادی زندگی پر توجہ دی ہے اسی طرح اس کے معاشرتی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ دونوں ایک دوسرے کے اندر اثر پذیر ہوتے ہیں اور معاشرہ افراد کے مجموعے ہی کا نام ہے، لہٰذا فرد کی اصلاح معاشرے کی اصلاح ہی میں مضمر ہے۔ معاشرے میں فرد کی وہی حیثیت ہے جو ایک اینٹ کی عمارت کے اندر ہوتی ہے، جب اینٹ ہی کمزور ہو تو عمارت لا محالہ کمزور ہو گی۔
کسی بھی فرد کے لیے معاشرتی زندگی کے بغیر ترقی ممکن نہیں، کیونکہ معاشرہ فرد کے لیے اس مٹی کی مانند ہے جس کے اندر دانے کو ڈالا جاتا ہے پھر وہ دانہ زمین کے اندر پھلتا پھولتا ہے اور نہ صرف ایک مضبوط پھل دار درخت اور پودے کی صورت اختیار کر لیتا ہے بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی نفع کا سامان بنتا ہے‌۔ ہجرت نبوی دراصل ایک ایسے ہی معاشرے کی تشکیل نو کی طرف پہلا قدم تھا جہاں اسلامی عقائد و شرائع کی پوری پاس داری ہو اور مسلمان امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو اس میں ایک مسلمان کو دینی معاملات میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ وہ جس معاشرے کا حصہ ہے، اس کے نزدیک اسلامی شعائر کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ بہت سے مسلم معاشرے میں بھی اسلام مخالف امور انجام دیے جاتے ہیں اور کھلم کھلا شریعت کی مخالفت کی جاتی ہے۔
کہاوت ہے کہ ’انسان معاشرتی حیوان ہے‘ یا ’انسان مدنی الطبع واقع ہوا ہے‘ چنانچہ وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ اس کے لیے کسی معاون یا ساتھی کا ہونا ضروری ہے۔اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی شریعت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر عبادات اور امور و معاملات اجتماعیت کے بغیر نا مکمل ہیں۔ قرآن میں جہاں جہاں مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا وہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جس سے اسلامی اجتماعیت کی واضح عکاسی ہوتی ہے۔
علامہ قرضاوی نے اسلامی معاشرے کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کریں اور اسلامی معاشرہ کی مکمل تصویر پیش کریں۔ یہ نہ ہو کہ وہ عبادات کو اپنائیں اور اخلاقیات کے پہلو کو چھوڑ دیں یا حدود و عقوبات کو نافذ کریں اور معاملات کو نظر انداز کر دیں، بلکہ اسلامی معاشرے کے ہر ہر پہلو کی ان کے نزدیک یکساں اہمیت ہونی چاہیے۔مقدمے کے اختتام پر علامہ قرضاوی کہتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کے اندر اسلام کی ان خصوصیات اور تکوینی عناصر کا تذکرہ کیا ہے جو کسی بھی مسلم معاشرے کی تشکیل یا اصلاح کے لیے نہایت ضروری ہے۔

پہلی فصل کے اندر علامہ قرضاوی نے عقیدے اور ایمان پر بحث کی ہے اور بتلایا ہے کہ مسلم معاشرے کی اساس اسلامی عقیدہ ہی ہے۔یہ ایسا عقیدہ ہے جو نہ کبھی منہدم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی دیواروں میں دراڑیں پیدا ہوسکتی ہیں، کیونکہ اس کی بنیاد الٰہی پیغامات پر رکھی گئی ہے۔یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو خالق و مخلوق، دنیا و آخرت اور عالم غیب و شہود کے تئیں مسلمانوں کے نظریے کی ترجمانی کرتاہے۔پھر موصوف نے کتاب و سنت کی روشنی میں اسلامی عقیدے کی تفصیل سے وضاحت کی ہے۔
دوسری فصل کے اندر شرائع و عبادات کا بیان ہے۔ کیونکہ عقیدے کے بعد اسلامی معاشرے کا دوسرا رکن وہ شرائع ہی ہیں جن کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے اوپر فرض قرار دیا ہے اور جن کی ادائیگی کا انہیں مکلف بنایا ہے۔ وہ شرائع چار ہیں جن کو شہادتین کے ساتھ ملا کر ارکان اسلام کہا جاتا ہے اور فقہاء کے یہاں جو ‘عبادات’ کے نام سے مشہور ہیں ، لیکن ان چار کے ساتھ دو اہم فرائض امر بالمعروف والنہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کو ملانا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ اب اگر دیکھا جائے تو اسلام کے چھ اہم بنیادی شرائع بن جاتے ہیں۔
١-نماز قائم کرنا
-۲ زکوٰۃ ادا کرنا
-۳رمضان کے روزے رکھنا
-۴حج‌ کرنا
-۵بھلائی کا حکم دینا، برائی سے روکنا
-۶ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا
یہ فصل انہی چھ چیزوں کی وضاحت پر مشتمل ہے۔
تیسری فصل اسلامی افکار و مفاہیم پر مشتمل ہے یعنی ایک مسلم معاشرے کاامور و معاملات کو دیکھنے کا کیا زاویہ ہونا چاہیے یہ اسلام نے طے کر دیا ہے۔اسلام کا زاوی نظر اسلام کے صاف و شفاف مصادر سے ماخوذ ہے جو ہر طرح کے شائبہ اور حش و زوائد سے پاک ہے۔جس میں غلو کرنے والوں کا غلو ، کوتاہ کنوں کی کوتاہی ، باطل پرستوں کی ملمع سازی اور کج فہموں کی تاویل کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ضرورت ہے کہ ہم چیزوں کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھیں جو اسلام نے ہمیں بتایا ہے۔ فوز و فلاح اور خسارہ و نقصان کا جو تصور دیگر معاشروں کے اندر ہے اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے بلکہ اسلام نے کامیابی و کامرانی اور ناکامی و نامرادی کا جو تصور پیش کیا ہے اسی کو اپنایا جائے۔ اگرچہ اس میں مادی طور پر ہمارا ظاہری طور پر نقصان ہی کیوں نہ ہورہا ہو۔
چوتھی فصل کے اندر احساس و جذبات کا تذکرہ ہے۔مسلم معاشرے کو کن کن احساسات و جذبات کا حامل ہونا چاہیے؛ یہ طے ہونا ضروری ہے ورنہ معاشرہ غلط راہ پر نکل سکتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں اخوت و بھائی چارگی اور باہمی الفت و محبت کا جو جذبہ پایا جاتا ہے اس کی مثال کسی دوسرے معاشرے میں ملنی مشکل ہے۔ مختلف شہروں و مختلف ملکوں میں رنگ و نسل کی تفریق کے ساتھ بود و باش اختیار کرنے کے باوجود جذبہ ایمانی ان کے دلوں کو جوڑے رکھتا ہے۔
پانچویں فصل کے اندر علامہ قرضاوی نے اخلاق و فضائل پر گفتگو کی ہے اور بتلایا ہے کہ اخلاق و فضائل اسلامی معاشرے کے لیے کس طرح بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام کے اندر اخلاقیات کا ایک مفصل اور مکمل باب ہے جس کا مکمل احاطہ مشکل ہے۔ ساتھ ہی اسلام نے ہر طرح کی بری خصلت اور بداخلاقی پر مُہر تحریم ثبت کر دی ہے، چنانچہ ہر وہ بری خصلت جو فطرت سلیمہ پر شاق گزرتی ہو اسلام نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور ہر وہ اخلاق جس کو فطرت سلیمہ نے قبولیت کا درجہ دیا ہے اسلام نے اس پر ابھارا ہے اور اسے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
چھٹی فصل میں آداب و تقالید کا تذکرہ ہے۔ کھانے پینے، زیب و زینت، سونے جاگنے، سفر و حضر، رہن سہن، کام کاج، دوستی و دشمنی اور نکاح و طلاق کے کیا آداب ہوتے ہیں ان کو بیان کیا ہے نیز، میاں بیوی، باپ بیٹے، رشتہ دار، پڑوسی، چھوٹے بڑے، امیر و غریب، بائع و مشتری اور حاکم و محکوم کا آپس میں کیسا تعلق ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں کن آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہے ،اس پر مفصل گفتگو کی ہے۔
ساتویں فصل کے اندر انسانی اقدار پر بحث کی گئی ہے اور بتلایا گیا ہے کہ انسانی اقدار کی چھ بنیادیں ہیں:علم، عمل، حریت، شوریٰ، عدل، بھائی چارہ۔ان چھ چیزوں کو مدلل انداز میں بیان کرنے کے ساتھ یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس معاشرے میں ان چھ چیزوں کا فقدان ہو وہ معاشرہ انسانی اقدار کا پاس دار نہیں ہو سکتا ہے۔
آٹھویں فصل میں علامہ موصوف نے قانون شریعت کو بیان کیا ہے۔موصوف فرماتے ہیں کہ شریعت وہ دستور ہے جس کو اللہ تعالی نے کتاب و سنت کی روشنی میں اسلامی طرز زندگی کو منظم کرنے کے لیے وضع کیا ہے۔ کوئی معاشرہ اسلامی معاشرہ تب ہی کہلا سکتا ہے جب وہ اس شریعت کو اپنی زندگی کے ہر ہر پہلو میں منطبق کرے اور اسی کی طرف رجوع کرے، یہ نہ ہو کہ مسلمان نماز کی فرضیت والی آیتوں کو لے لیں اور سود کی حرمت کو نظر انداز کر دیں۔ موصوف نے مختلف نکات کو سامنے رکھ کر اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ہے۔
نویں فصل اقتصادیات پر مشتمل ہے۔ ہر معاشرے کا اپنا ایک اقتصادی نظام ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرہ بھی اقتصاد کے تعلق سے خود مختار ہے۔اسلامی اقتصادیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اس کے اصول و ضوابط مقرر کیے گئے ہیں موصوف نے ان میں سے چند اہم ضوابط کا تذکرہ مفصل انداز میں دلائل کے ساتھ کیا ہے۔
دسویں فصل کے اندر موصوف نے لہو لعب اور فنون پر بحث کی ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان جو افراط و تفریط پائی جاتی ہے اس کا تذکرہ کیا ہے۔مثلاً غنا اور موسیقی کے تعلق سے وہ کہتے ہیں اس کی حلت و حرمت کے تعلق سے لوگ بہت ہی زیادہ تساہل کا شکار ہیں۔ کچھ تو اسے حرام قرار دیتے ہیں اور کچھ لوگ ہر طرح کی موسیقی پر کان دھرنے کو بالکل جائز اور روا سمجھتے ہیں۔ اس فصل میں تصویر سازی، نقش نگاری ، فکاہت و ظرافت اور کھیل کود جیسے فنون پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔
گیارہویں اور آخری فصل کے اندر علامہ مرحوم نے اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام و مرتبے پر گفتگو کی ہے۔ اسلام سے قبل عورت کی کیا حیثیت تھی اور اسلام نے اسے کون کون سے حقوق عطا کیے ہیں اس کا تذکرہ کیا ہے، نیز عورت کا ایک ماں ہونے کی حیثیت سے کیا مقام ہے، بیوی ہونے کی حیثیت سے کیا مقام ہے، بہن ہونے کی حیثیت سے کیا مقام ہے، بیٹی ہونے کی حیثیت سے کیا مقام ہے، ان سب باتوں کی بھی الگ الگ عنوان قائم کر کے وضاحت کی ہے۔
غرض یہ کتاب بہت ہی جامع اور مفید ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ کوئی بھی بحث قرآن و حدیث کے دلائل سے خالی نہیں ہے اور اس کا اسلوب بھی انتہائی سلیس و رواں ہے۔ مبتدی و منتہی دونوں کے لیے یکساں طور پر مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مصنف مرحوم کی اس علمی کاوش کو توشہ آخرت بنائے، آمین۔
***

 

***

 علامہ مرحوم نے اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام و مرتبے پر گفتگو کی ہے۔ اسلام سے قبل عورت کی کیا حیثیت تھی اور اسلام نے اسے کون کون سے حقوق عطا کیے ہیں اس کا تذکرہ کیا ہے، نیز عورت کا ایک ماں ہونے کی حیثیت سے کیا مقام ہے، بیوی ہونے کی حیثیت سے کیا مقام ہے، بہن ہونے کی حیثیت سے کیا مقام ہے، بیٹی ہونے کی حیثیت سے کیا مقام ہے، ان سب باتوں کی بھی الگ الگ عنوان قائم کر کے وضاحت کی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024