ابن صفی: جاسوسی ادب کا بے تاج بادشاہ ۔ ایک بامقصد ادیب
ناول نگار کا آئیڈیل کردار ’کرنل فریدی‘ پر ایک نظر
محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی)
ناقدین اردو ادب نے ابن صفی کے ادبی کارنامے کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ ’اردو ادب‘ سے ہی ان کا نام خارج کرنے کی کوشش کی۔
ابن صفی نے ’جاسوسی ادب‘ کی ابتدا فریدی-حمید کے کرداروں پر مشتمل ناول ’دلیر مجرم‘ (مارچ 1952) سے کی تھی۔ یہ سلسلہ پاکستان ہجرت (اکتوبر 1952) کے بعد بھی جاری رہا۔ ہندوستان میں ان کے آٹھ ناول شائع ہوئے۔ اس طرح اگست 1955 تک فریدی- حمید کے کرداروں پر 43 ناول شائع ہوچکے تھے۔ اگست 1955 میں ’تاریک سائے‘ (فریدی-حمید سیریز) کے ساتھ ہی ابن صفی نے اگست 1955 ہی میں ایک نئے کردار ’عمران‘ سے متعارف کرایا اور عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ کے نام سے شائع ہوا۔ لیکن اس سے قبل ہی ابن صفی نے فروری 1953 میں دو نئے کردار انور- رشیدہ پر ’ہیرے کی کان‘ کے نام سے ناول لکھا۔ اس کے بعد مزید تین ناول تجوری کا گیت (مارچ 1953) آتشی پرندہ (اپریل 1953) خونی پتھر (مئی 1953) شائع ہوئے۔ یہ کرداروں کی جوڑی تفتیشی صحافت (Investigative Journalism) سے وابستہ تھی۔ ابن صفی نے اس کے بعد باضابطہ طور پر ان کرداروں پر ناول نہیں لکھے۔ البتہ یہ کردار کرنل فریدی کے بعض کیسیز میں وقتاً فوقتاً تعاون کرتے رہے۔ ’انور‘ کا کردار ذہنی اور فکری اعتبار سے بڑا ہی پیچیدہ ہے۔ اسی طرح ’رشیدہ‘ کی پُراسرار شخصیت کے بارے میں ابن صفی نے اپنے ناول ’بھیانک جزیرہ‘ (جون 1953) میں پردہ اٹھایا ہے۔ فریدی- حمید سیریز کے اس ناول کا اختتام ایک ایسے پُراسرار سفر پر ہوتا ہے جس میں پے درپے دل دہلا دینے والے واقعات مسلسل رونما ہوتے ہیں۔
معروف فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید (شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) اپنے مضمون ’ابن صفی کا عمران ایک جائزہ‘ میں لکھتے ہیں
’’… وہ کردارجس کی تخلیق نے ابن صفی کی تحریروں کو بالکل نئی اور بےحد بامعنی جہت بخشی اور جس نے ابن صفی کے مقام کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا وہ ’عمران‘ کا کردار ہے…‘‘
پروفیسر خالد جاوید اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں
’’مکمل عمران ایک گلیشیئر ہے، سطح آب پر تیرتا ہوا، جو جتنا دکھائی دیتا ہے اس سے بہت زیادہ پانی کی تہہ میں چھپا ہوتا ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، عمران ایک وجودی کردار ہے جو بیسویں صدی کے انتشار زدہ ذہن اور سیاسی اور اخلاقی زوال کے تئیں ایک زبردست احتجاج کا استعارہ ہے۔‘‘
(ابن صفی شخصیت اور فن کے آئینے میں، اردو اکادمی، دہلی)
ابن صفی کے قارئین فریدی-حمید کے ناولوں کی اشاعت کے بعد ہی ’جاسوسی ادب‘ کے تخلیق کار کے گرویدہ ہوگئے تھے۔ لیکن چند برسوں کے بعد جب عمران سیریز کا آغاز ہوا تو اس سیریز کا بھی کھلے دل سے خیر مقدم کیا گیا۔ ’عمران‘ بہت سے قارئین کے پسندیدہ ہوگئے تاہم اکثر قارئین دونوں طرح کے کرداروں کو پسند کرتے تھے۔ لیکن یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ابن صفی کے کردار ’عمران‘ پر کئی بڑے اردو کے لکھاریوں (ایچ اقبال وغیرہ) نے تجربے کیے۔ ’عمران‘ کے کردار پر درجنوں ناول لکھے گئے لیکن کوئی بھی ناول ابن صفی کے قارئین کے ذوق پر کھرا نہیں اترا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ابن صفی کے قارئین نے دیگر لکھاریوں کے ناول کو پڑھ کر طبیعت میں سخت گرانی محسوس کی۔ البتہ فریدی-حمید کے کرداروں کو چھونے کی ان لکھاریوں نے ہمت نہیں کی۔ یہ الگ بات ہے کہ جعلی مصنفوں (Ghost writers) کے ذریعے ابن صفی کے نام پر دونوں طرح کے کرداروں پر لاتعداد ناول لکھوائے گئے اور ناشرین نے خوب کمائی کی۔ اس موضوع پر خاکسار کا مضمون ’اردو میں سرقہ کی بدترین مثال‘ (مطبوعہ ابن صفی کا ادبی نصب العین تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، مصنف محمد عارف اقبال، اشاعت 2018) ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات باعث حیرت ہے کہ اردو ادب کے بعض نقادوں اور ادیبوں نے ابن صفی کے ادبی کارنامے کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ ’اردو ادب‘ سے ہی ان کا نام خارج کرنے کی کوشش کی۔ معروف ادیب اور نقاد پروفیسر علی احمد فاطمی اپنے مضمون ’عوامی ادب کی شعریات ابن صفی کے حوالے سے‘ (مطبوعہ ابن صفی شخصیت اور فن کے آئینے میں، اردو اکادمی دہلی، اشاعت 2014) میں زیادہ تر مجنوں گورکھپوری کا حوالہ دیتے ہیں جن کی مثبت یا تنقیدی رائے ابن صفی کے بارے میں برائے نام ہے۔ پروفیسر علی احمد فاطمی ’عوامی ادیب‘ کو تسلیم تو کرنے لگے ہیں لیکن ادب میں ان کے مقام اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالنے سے اب بھی گریزاں ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں
’’… فریدی بے حد پڑھا لکھا، کئی مضامین پر قدرت رکھتا ہے لیکن پھر بھی اس کی امیج ایک اسمارٹ اور ذہین جاسوس داں کی بنتی ہے۔ اسی طرح حمید جو ذہین ہونے کے ساتھ کھلنڈرا ہے، مسخرہ ہے، خوب ہنساتا ہے لیکن اس کی حیثیت ’فسانہ آزاد‘ کے خوجی کی نہیں بنتی۔ اس لیے کہ خوجی کا کردار صرف ایک کردار نہیں بلکہ تاریخ و تہذیب کی علامت ہے اورسرشار کی ایک ایسے مصنف کی جو اس تہذیبی زوال کو اپنی نم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے…‘‘ (صفحہ 50)
کاش ہمارے ادیب و نقاد 1947 کے خونیں معرکے کے بعد ابن صفی کی نم آنکھوں کو بھی دیکھتے جنہوں نے ایک نئی تہذیب اور ثقافت سے اپنے ناولوں کے ذریعے نئی نسلوں کو متعارف کرایا۔ سرشار نے تو اپنے زمانے اور عہد کی تہذیب کو اپنی تحریروں سے روشناس کرایا تھا لیکن بیسویں صدی کی تہذیب و ثقافت اور بدلتی ہوئی قدروں سے انسانیت جس درجے متاثر ہو رہی تھی، ابن صفی نے اپنے ناولوں میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ کاش ہمارے نقاد اس نکتے پر غور و فکر کرتے!
فریدی، ابن صفی کا تخلیق کردہ ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں ہمارے بعض نقاد غلط فہمی کا شکار ہوکر اسے مافوق الفطرت کردار تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ فریدی ایک گوشت پوست کا ایسا انسانی کردار ہے جس کے پاس جذبات، احساسات اور درد مند دل ہے۔ اگر اسے کسی نے ’ہارڈ اسٹون‘ (Hard Stone) کہا ہے تو اس کی وجہ اس کا اصول پسند ہونا ہے جس کی وہ سختی سے پابندی کرتا ہے۔ فریدی پر ’مافوق الفطرت‘ کی پھبتی کسی طور فِٹ نہیں ہوتی۔ وہ تو نوجوانوں کے لیے ایسا کردار ہے جس کی تقلید کرکے ہر نوجوان مایوسی کی دلدل سے باہر نکل سکتا ہے۔ وہ ایک ایمان دار اور اصول پسند آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن سکتا ہے۔ بالخصوص آج کے ماحول میں جبکہ پوری دنیا میں نوجوان نسل اپنی ذہنی اور فکری کمزوری کے سبب تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ماہر نفسیات بھی اس نسل کی گتھی سلجھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ’عمران‘ اگرچہ ایک طلسمی کردار ہے جو بعض اوقات ’الف لیلوی‘ محسوس ہوتا ہے لیکن ابن صفی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کے اس دور میں ’عمران‘ کی شخصیت کی تخلیق اس انداز سے کی ہے کہ وہ زندگی کے ہر رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔ کبھی وہ ’دانشور‘ نظر آتا ہے تو کبھی انتہائی ’احمق‘۔ اس کے بالمقابل کرنل فریدی موجودہ سماج کا وہ نمائندہ کردار ہے جس کی ضرورت آج ہر تعلیم یافتہ نوجوان کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن صفی نے اسے اپنا آئیڈیل کردار کہا ہے۔ اپنے ایک ناول ’زمین کے بادل‘ (اپریل 1958) میں جہاں عمران اور فریدی کو ایک بین الاقوامی کانفرنس میں یکجا دکھایا گیا ہے، ابن صفی نے فریدی کو عمران پر فوقیت دی ہے۔
عظیم اور لاثانی ناول نگار ابن صفی کو شاید یہ گمان بھی نہ ہوگا کہ فریدی- حمید کے لازوال کرداروں پر مشتمل ناول ’صحرائی دیوانہ‘ ان کا آخری ناول ثابت ہوگا۔ فریدی جو اُن کا آئیڈل کردار ہے اور جس کے بارے میں ابن صفی نے خاص طور سے کہا تھا
’’… فریدی میرا آئیڈل ہے جو خود بھی قانون کا احترام کرتا ہے اور دوسروں سے بھی قانون کا احترام کرانے کے لیے اپنی زندگی تک داو پر لگا دیتا ہے۔‘‘
(میں نے لکھنا کیسے شروع کیا، مرتب محمد عارف اقبال، جلد 60)
نومبر 1968 کے ایک ناول ’مہلک شناسائی‘ کے پیش رس میں ابن صفی، فریدی کے حوالے سے لکھتے ہیں
’’مستقبل سے مایوسی غلط فہمی کی پیداوار ہے اور آدمی کو جرائم کی طرف لے جاتی ہے۔ مستقبل سے مایوس ہوکر یا تو آدمی جرائم کرتا ہے یا پھر کسی ایسے کرنل فریدی کی تلاش میں ذہنی سفر کرتا ہے جو قانون اور انصاف کے لیے بڑے سے بڑے چہرے پر مُکّا رسید کرسکے…‘‘
فی الحال اس بحث سے قطع نظر کہ ابن صفی نے پاکستان سے ’عمران‘ کے کردار پر ناول لکھنے کا سلسلہ کیوں شروع کیا، یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ وہ ’فریدی‘ کو اپنا آئیڈیل کردار کیوں سمجھتے تھے؟ یہ بحث تحقیق طلب ہے۔ اس ضمن میں ابن صفی کے مذکورہ بالا اقوال سے رہنمائی حاصل تو کی جاسکتی ہے لیکن اس وقت کے سماجی، سیاسی اور معاشی صورت حال کے بغور مطالعے کے بعد ہی ہم اصل نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ کوئی بھی ناول نگار جو ’مقصدی ادب‘ تخلیق کرتا ہے، اپنے سماج کو وسیع تر کینویس میں دیکھتا ہے۔ وہ سماج کا مشاہدہ اپنے عصر کے مسائل کے تناظر میں کرتا ہے تاکہ اس کی تحریروں میں سماج کے مسائل منعکس ہوں اور وہ اس سے سماج کے افراد کو نبرد آزما ہونے کا سلیقہ بتائے۔ اردو ادب میں ابن صفی کا ادبی رجحان دیگر مقصدی ادیبوں سے کہیں آگے اور منفرد زاویے کا حامل ہے — وہ معاشرے کی اس نفسیاتی گِرہ کی عقدہ کشائی کرتے ہیں جس کا شکار ابتدائے آفرینش سے پوری انسانیت رہی ہے۔ ابن صفی کا نکتہ نظر ریت پر قلعہ تعمیر کرنا نہیں ہے بلکہ وہ ادب کی ایسی عمارت کھڑی کرتے ہیں جس کی بنیاد ٹھوس اور مستحکم ہوتی ہے۔ وہ خواب ضرور دیکھتے ہیں لیکن ایسے خوابوں سے ہمیشہ دور رہے جو معدہ کی گرانی کے سبب ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ وہ ان خوابوں سے بھی دور رہے جس کے چکر میں انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ ایسے خوابوں کو دیکھنے والا آیا خبط (Mania) کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے یا مایوسی کی تاریکی (depression) میں چلا جاتا ہے۔ فریدی- حمید سیریز کا ناول ’ستاروں کی موت‘ (اکتوبر 1964) شائع ہوا تو ایک صاحب نے انتہائی غصے کے عالم میں لکھا کہ ’’آپ ہی جیسے لکھنےوالے فلمی دنیا کے متعلق غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریف گھرانوں کی لڑکیاں اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں۔‘‘
ابن صفی ایک منفرد مقصدی ادیب تھے۔ ان کا وِژن عام اردو ادیبوں اورناول نگاروں سے جُدا تھا۔ انہوں نے اپنے دوسرے ناول ’ستاروں کی چیخیں‘ (دسمبر 1964) جس کا موضوع فلم انڈسٹری تھا، اس کے ’پیش رس‘ میں ایک قاری کے مذکورہ بالا اعتراض کو نقل کرنے کے بعد جو جواب تحریر کیا، ابن صفی کی گہری بصیرت اور فکر و تدبر کی انوکھی مثال ہے۔ ان کی یہ بات پیشین گوئی کی طرح حرف بہ حرف آج بھی سماج کو آئینہ دکھا رہی ہے۔ ابن صفی لکھتے ہیں
’’…بھائی آپ کیوں خفا ہو رہے ہیں۔ شاید آپ کو اس کی اطلاع نہیں کہ سماجی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے شرافت کا جو معیار تھا اُسے آج فلاکت زدگی اور جہالت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پردہ کو لے لیجیے۔ پہلے یہ شرافت اور عالی نسبی کی پہچان تھی۔ آج پردہ نشین خواتین کو یا تو نچلے طبقے سے متعلق سمجھا جاتا ہے یا جاہل۔ بہرحال آپ کی مراد بَر آنے میں بہ مشکل دس سال اور لگیں گے کیوں کہ ابھی ہمارے یہاں کے شریف آدمی آزادانہ صنفی اختلاط کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کسی قدر ہچکچاتے ہیں… صرف دس سال اور صبر کیجیے… یہ خلیج بھی حائل نہ رہے گی… پھر ہوں گے آپ کے پوبارہ… لائیے ہاتھ اسی پر…‘‘ (22 دسمبر 1964)
ابن صفی نے اپنے لافانی کردار کرنل فریدی کے حوالے سے سماج کو ایسا وژن دیا جو اردو ادب میں نہ صرف یہ کہ روایت سے انحراف تھا بلکہ اسے ’بغاوت‘ کے مترادف سمجھا گیا۔ اس مقام پر رسول اللہ (ﷺ) کا یہ قول یاد آتا ہے کہ ’’علم اٹھالیا جائے گا، کثرت سے زلزلے آئیں گے، زمانے قریب ہو جائیں گے، فتنے ظاہر ہوں گے، ہرج یعنی قتل بڑھ جائے گا، مال کی تمہارے پاس اتنی کثرت ہوجائے گی کہ مال والے کو فکر ہوگی کہ میرا صدقہ کون قبول کرے گا؟ وہ کسی کو مال دے گا تو دوسرا کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے یہاں تک کہ لوگ فلک بوس عمارتوں پر فخر کریں گے۔ لوگ قبر کے پاس سے گزریں گے تو کہیں گے کہ کاش! میں اس جگہ ہوتا۔‘‘ (مشکوٰۃ، جلد سوم)
یہ خبر ساری انسانیت کو اُس نبی نے دی ہے جو تمام عالمین کے لیے رحمت بناکر مبعوث کیے گئے۔ اس خبر میں حقیقی علم، زمین کی جغرافیائی صورتِ حال، فریب و دجل، مال کی کثرت اور زندگی کی محرومی و مظلومی کی سینکڑوں تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کیا اردو ادیبوں اور نقادوں نے کبھی اس خبر کی روشنی میں اور وسیع تناظر میں اپنے معاشرے کے حالات، زمینی معاملات، واقعات اور ادبی رویے کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ اقبال نے ایک عرصہ قبل کہا تھا
اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
قبضے سے امت بے چاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی
اردو زبان و ادب کو عصر سے ہم آہنگ کرنے والے اور بامحاورہ رواں اردو بولنے اور لکھنے کی طرف رہنمائی کرنے والے عظیم ناول نگار ابن صفی نے ’ادب میں ہوس پرستی‘ کے رجحان پر طنز کرتے ہوئے فریدی- حمید سیریز کے ایک ناول ’جنگل کی آگ‘ (1955) میں فریدی کی زبان سے یہ بات کہلوائی کہ
’’میں جنسیت کو ایک سیدھا سادہ مسئلہ سمجھتا ہوں جسے آدمی جیسے سمجھ دار جانور کے لیے اتنا پیچیدہ نہ ہونا چاہیے کہ وہ شاعری کرنے لگے۔‘‘
’صحرائی دیوانہ‘ ابن صفی کا وہ شاہ کار ناول ہے جو سب سے پہلے روزنامہ ’جسارت‘ کراچی میں 15 دسمبر 1978 سے 18 مئی 1979 تک قسط وار شائع ہوتا رہا۔ ہندوستان میں یہ ناول اکتوبر اور نومبر 1979 میں دو حصوں میں شائع کیا گیا جبکہ کراچی سے مکمل ناول جولائی 1979 میں شائع ہوا تھا۔
اس ناول کے ’پیش رس‘ میں ابن صفی نے زندگی کے جملہ امور پر بڑی فنی چابک دستی کے ساتھ اس طرح گفتگو کی ہے کہ قاری کے ذہن پر انمٹ نقوش ثبت ہوجاتے ہیں۔ زبان و ادب، طنز و مزاح، عشق کی آگ، زندگی کے تلخ حقائق، مثالی زندگی کے اوصاف، سائنسی سوچ، سائنسی ترقی، قانون شکنی، جرائم اور قوانین، انسانی جبلت، مذہبی خیال، اصل دین داری وغیرہ ایسے عنوانات ہیں جو ’صحرائی دیوانہ‘ میں جگہ جگہ موضوع بحث بنے ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ کریں
’’آدمی بسا اوقات درندہ کیوں ہوجاتا ہے؟‘‘
’’اس لیے کہ درندگی ہی سے وہ تہذیب کی طرف آیا ہے۔‘‘
٭٭٭
’’کیا تم بھی کوئی نشہ استعمال کرتے ہو؟‘‘
’’اپنے وجود ہی کی مستی کیا کم ہے کہ کسی نشے کا سہارا لیا جائے۔‘‘
٭٭٭
’’آدمی نے بے حد ترقی کی ہے۔ اپنے وجود سے خلا تک کو کھنگال ڈالا ہے لیکن اس معاملے میں بچہ ہی بنا رہنا چاہتا ہے۔ ایک احمقانہ تگ و دَو کو عشق کا نام دے کر اس سے لذت اندوز ہوتے رہنا چاہتا ہے حالانکہ فطرت کا مقصد صرف اتنا ہے کہ دو سے تین ہوجائے۔‘‘
٭٭٭
فریدی کا ایک درویش سے مکالمہ
’’میرا خیال ہے کہ ہم دونوں کبھی نہیں ملے، لیکن تم مجھے پہچانتے ہو!‘‘ فریدی نے کہا۔
’’تم ظاہری حکومت کے افسر ہو۔ ہم باطنی حکومت کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ہم سے کیا پوشیدہ رہ سکتا ہے۔ بس کھلتے نہیں کسی پر۔‘‘
’’کھل جاو تو پھر باطن کہاں رہا!‘‘ فریدی سر ہلا کر بولا۔
’’تم پر ولیوں کا سایہ ہے، کرنل سائیں!‘‘
’’اللہ کا سایہ!‘‘
’’بہت گہرے ہو کرنل سائیں… اپنے مرشد کا نام بتاو!‘‘
’’کملی والے کے علاوہ اور کسی کی طرف نہیں دیکھا، جس کے سب غلام ہیں!‘‘
٭٭٭
اس طرح کے درجنوں مکالمے اور ادبی شہ پارے اس شاہ کار ناول میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اس ناول میں کرنل فریدی اور اس کے تربیت یافتہ کیپٹن حمید کی جدا جدا شخصیتیں ایک ہی نصب العین کے گرد گھومتی ہیں۔ ابن صفی نے جس ’کرنل فریدی‘ کو اپنا آئیڈیل کردار تسلیم کیا ہے، اس کی نمایاں جھلک اس کہانی میں دکھائی دیتی ہے … اور گویا ابن صفی کے انتقال (26 جولائی 1980) کے بعد کرنل فریدی کا باب اس کہانی کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
***
ابن صفی نے زندگی کے جملہ امور پر بڑی فنی چابک دستی کے ساتھ اس طرح گفتگو کی ہے کہ قاری کے ذہن پر انمٹ نقوش ثبت ہوجاتے ہیں۔ زبان و ادب، طنز و مزاح، عشق کی آگ، زندگی کے تلخ حقائق، مثالی زندگی کے اوصاف، سائنسی سوچ، سائنسی ترقی، قانون شکنی، جرائم اور قوانین، انسانی جبلت، مذہبی خیال، اصل دین داری وغیرہ ایسے عنوانات ہیں جو ’صحرائی دیوانہ‘ میں جگہ جگہ موضوع بحث بنے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023