انسانی حقوق کی تشریح او ر عالمی برادری کا روّیہ

کیا تمام انسان آزاد پیدا نہیں ہوئے؟حقوق کی پاسداری کے لیے بنیادی تصوّر ات کی اصلاح ضروری

رحمت النساء

دس دسمبرکا دن 1950 سے ہر سال انسانی حقوق کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن کی یاد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948 میں انسانی حقوق کا عالمی منشور (UDHR) منظور کیا تھا۔ اس دستاویز میں نسل، رنگ، مذہب، جنس، زبان، سیاسی یا دیگر رائے، قومی یا سماجی تعلق، جائیداد، پیدائش یا دوسری کسی بھی حیثیت سے قطع نظر ہر انسان کے لیے تیس حقوق اور آزادیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ سب سے زیادہ ترجمہ شدہ دستاویز ہے جو پانچ سو سے زیادہ زبانوں میں دستیاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک اچھی طرح سے سوچی سمجھی اور تیار کی گئی دستاویز ہے اور اگر ان سفارشات پر عمل کیا جائے تو ہمارا کرہ ارض سب کے لیے پرامن ٹھکانہ بن جائے گا۔ اگرچہ اسے ’تمام انسانوں اور قوموں کی کامیابی کے مشترکہ معیار کے طور پر قبول‘ کیا جاتا ہے اور تقریباً تمام ہی ممالک نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ضابطے بنائے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کم کرنے کے قابل ہوئے ہیں؟ کچھ لوگ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہاں، ہم غلامی کو ختم کرنے کے قابل ہیں، ہم خواتین کو ان کے گھروں سے نکالنے کے قابل ہیں، ہم مزید تعلیمی ادارے بنانے کے قابل ہیں، ہمارے پاس بہتر طبی سہولتیں ہیں وغیرہ۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قدیم زمانے میں غلامی کی جو نوعیت تھی نئے زمانے میں وہ نئی شکلوں میں رائج ہے جیسے جبری مزدوری، بندھوا مزدوری یا قرض کی غلامی، خواتین یا بچوں کی اسمگلنگ وغیرہ۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں (ہر جگہ نہیں) خواتین نے ترقی کی ہے۔ تعلیم کے شعبے اور گھروں سے نکل کر تقریباً تمام شعبوں میں مردوں کی طرح کام کرنا شروع کر دیا لیکن اس کے باوجود کام کی جگہوں اور دیگر عوامی شعبوں میں گھریلو تشدد اور خواتین کے خلاف مظالم بڑھ رہے ہیں۔ مذہب، علاقے، رنگ اور زبان کے نام پر نسلی تطہیر اب بھی جاری ہے اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اور میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز مہمات کی وجہ سے ماضی کی بہ نسبت آج زیادہ لوگ جانیں گنوا رہے ہیں اور مختلف طریقوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ سنی ہوئی کہانیاں بری ہوتی ہیں لیکن ان کہی کہانیاں ان سے بھی بدتر اور خوفناک ہوتی ہیں جو شاذ و نادر ہی سامنے آتی ہیں۔ گوانتانا موبے جیسے عقوبت خانے دنیا کے بہت سے حصوں میں ان لوگوں کو اذیت دینے کے لیے بنائے گئے ہیں جو ’غیر‘ ہیں اور ان سب کے درمیان اقوام متحدہ محض ایک بے بس تماشائی ہے۔
تاریخ: 1215ء میں برطانیہ کے رنیمیڈ میں جان دوم کے دستخط کردہ میگنا کارٹا کو تاریخ کا قدیم ترین انسانی حقوق کا اعلامیہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے انسانی حقوق کے دیگر تمام ضوابط کے لیے محرک قوت کے طور پر سراہا گیا ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ میگنا کارٹا کے بعد ہی ہندوستان سمیت دنیا بھر کے پسماندہ ممالک میں انگریزوں کی طرف سے بہت سے سامراجی، نوآبادیاتی مظالم اور مارشل لا نافذ کیے گئے۔ اس کے بعد بہت سے ممالک نے اپنے یہاں لوگوں کے لیے انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ضابطے بنائے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے مظالم تھے جنہوں نے انسانی حقوق کی اہمیت کو بین الاقوامی ترجیح بنا دیا۔ یہ 1947ء کا زمانہ تھا جب انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ایلینور روزویلٹ کی سربراہی میں انسانی حقوق کمیشن نے تیار کیا تھا۔ اس کی تدوین کے دوران گاندھی جی سمیت دنیا بھر کے عظیم مفکرین اور فلسفیوں سے مشورہ کیا گیا۔ ہندوستان سے ہنسا مہتا نے بھی مسودے کی تدوین میں اہم کردار ادا کیا۔ اعلان کا پہلا جملہ شروع میں تھا ’’تمام مرد آزاد پیدا ہوتے ہیں…‘‘ لیکن یہ ہنسا مہتا تھے جنہوں نے اسے زبان پر مردانہ تسلط سے بچنے کے لیے ’’ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں…‘‘کے طور پر تبدیل کرنے کو کہا۔ چنانچہ تمہید میں لکھا گیا ہے ’’…انسانی خاندان کے تمام افراد کے موروثی وقار اور مساوی اور ناقابل تنسیخ حقوق کی پہچان دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔‘‘
لیکن مسودہ تیار کرتے وقت تمام بڑی حکومتوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پوری کوشش کی کہ اس اعلامیے کا صرف بین الاقوامی اطلاق ہو اور مقامی طور پر اسے نافذ کرنے کی کوئی قانونی ذمہ داری ان پر عائد نہ ہو کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اقلیتوں کے خلاف وہ خود امتیازی سلوک کے مرتکب ہیں لہٰذا ان وسیع حقوق کے نفاذ کا دعویٰ دباؤ پیدا کرے گا۔ لیکن جیسا کہ ایلینور روزویلٹ نے اجاگر کیا ہے یہ ایک بین الاقوامی میگنا کارٹا بن گیا جو بین الاقوامی سطح پر بہت سے معاہدوں اور مختلف ممالک میں انسانی حقوق کے ضابطوں کے مرتب کرنے کا سبب بنا۔ بھارتی آئین کی دفعہ 12 سے 35 کو بھارت کا میگنا کارٹا سمجھا جاتا ہے۔ یہ 1993 میں تھا جب ہندوستان میں انسانی حقوق کاضابطہ وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد پر قومی انسانی حقوق کمیشن اور ریاستی انسانی حقوق کے ادارے جیسے قانونی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ اس قاعدے میں 2006 اور 2019 میں ترمیم کی گئی تھی۔ قانونی ادارے میں کم از کم ایک ممبر خاتون ہونی چاہیے۔ قومی انسانی حقوق کونسل کو بھارت میں انسانی حقوق کا نگران کار ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح تقریباً تمام ہی ممالک میں ضابطے اور ادارے موجود ہیں۔ لیکن کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جو صد فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی؟ یا یہ کہہ سکے کہ ہم بغیر کسی امتیاز کے بغیر سب کو فوری انصاف دیتے ہیں؟ جدید دنیا کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مزید دہشت گرد پیدا کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بیس سالہ جنگ کے بعد دنیا نے گواہی دی ہے کہ بعض برادریوں اور ممالک کے خلاف تمام پروپیگنڈہ غلط تھا اور نجات دہندہ خود بکریوں کے بھیس میں بھیڑیے تھے۔ سب کے لیے امن قائم کرنے کے جھوٹے پروپیگنڈے میں نہ جانے کتنی جانیں، خاندان اور کتنی دولت تباہ ہو گئی۔ ایک اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے ہتھیار استعمال کر کے ظلم وستم کرتے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے بعد ہٹلر کا شاندار اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنا اور گجرات کے قتل عام کے بعد نریندر مودی کو اپنے حق میں عوامی خط اعتماد کا ملنا اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ بلی کے بکرے بنائے جاتے ہیں اور پروپیگنڈے کے ذریعے ان کی منفی شبیہ بنا کر انہیں الگ تھلگ کیا جاتا ہے۔ پھر ان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تمام اقدامات جائز ہو جاتے ہیں۔چنانچہ اسلامو فوبیا کو اسی مقصد کے لیے پھیلایا گیا ہے۔
2020 کا تھیم ’’بہتر صحت پائیں،انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوجائیں‘‘(Recover Better- Stand up for Human Rights) کووڈ۔۱۹ وبائی امراض سے متعلق تھا۔ اس سال اقوام متحدہ کی طرف سے دیا گیا تھیم ’’مساوات – نابرابریوں کو کم کرنا، انسانی حقوق کو آگے بڑھانا‘‘ بہت اچھا لگتا ہے لیکن اہداف سال بہ سال محض خواب ہی رہ جاتے ہیں۔
مقصد حاصل نہ ہونے کی وجوہات: انسانی حقوق کو ہم کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ بہت اہم ہے۔ اگر آپ مرد ہیں تو کیا آپ کو عورت کے حقوق کی فکر ہے؟ اگر آپ عورت ہیں تو کیا آپ کو مرد کے حقوق کی فکر ہے؟ اگر آپ والدین ہیں تو کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کے حقوق کے بارے میں سوچا ہے؟ اگر آپ اولاد ہیں تو کیا آپ نے کبھی اپنے والدین کے حقوق کے بارے میں سوچا ہے؟ اگر آپ حکمراں ہیں تو آپ کو اپنے شہریوں کی کتنی فکر ہے؟ اگر آپ مینیجر ہیں تو کیا آپ اپنے دفتر میں صفائی کرنے والے کو پورے حقوق دینے کے لیے تیار ہیں؟ ہمیشہ ان لوگوں کے بارے میں سوچیں جو کسی نہ کسی وجہ سے آپ سے کم مراعات یافتہ ہیں اور غور کریں کہ ہم میں سے کتنے اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ انصاف کرنے کے قابل ہیں؟ لوگ مختلف نظریات اور اصلیتوں (Origins) کے حامل انسانوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے اپنے ذہنوں میں بستیاں بساتے ہیں۔ تقریباً تمام جمہوری ممالک کے سیاسی رہنما جب اس چیز کو دیکھتے ہیں کہ یہ بستیاں برقرار ہیں تو وہ اپنے قول اور عمل سے اس خلیج کو وسیع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ بینک محفوظ رہیں۔ ہم عام طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے معاملہ میں ہمیں عالمی رہنماؤں کا دُہرا موقف ہی نظر آتا ہے۔ جب ان کے اپنے لوگ متاثر ہوتے ہیں تو وہ اپنا غم ظاہر کرتے ہیں اور فوری طور پر اور جتنا ممکن ہو بلند آواز میں احتجاج کرتے ہیں۔ اگر نہیں تو وہ خاموش ہوجاتے ہیں یا اپنے ردعمل کے اظہار میں تاخیر کرتے ہیں۔ اگر انہیں جواب دینا ہی پڑے تو وہ اپنی قوم کے لوگوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے نہایت سفارتی انداز میں جواب دیتے ہیں اور ایسے مظالم کی وجوہات تلاش کرکے الزام متاثرین کے سر پر ڈال کر توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن بھی یہ دُہرا موقف اپناتے ہیں۔ عوام اور قومی و بین الاقوامی انسانی حقوق کے نگران اداروں کی جانب سے مظلوموں کو ملنے والی حمایت کو بھی مذہب، علاقہ، ذات پات، نظریہ، نسل، زبان اور جنس جیسے عناصر متاثر کرتے ہیں۔ لہٰذا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زیادہ تر مقدمات پر توجہ نہیں دی جاتی اور مظلوم عدالتی کارروائی میں تاخیر اور رسمی کارروائیوں، اس کے لیے درکار رقم ، عدم تعاون اور مزید اذیتوں کے خوف سے درخواستیں دائر کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ جو لوگ انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی آواز اٹھاتے ہیں انہیں دہشت گرد یا ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے اور ان ممالک میں بھی سزا دی جاتی ہے جہاں کا آئین خود اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی حق تسلیم کرتا ہے۔ صرف وہی لوگ جو حقیقت میں ایماندار اور حوصلہ مند ہوتے ہیں انصاف کے لیے کھڑے ہونے اور سچائی کو سامنے لانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ جب ایسے کارکنان منظر پر آتے ہیں تو آپ لوگوں کو ان کی پیروی کرتے، سوشل میڈیا پر ان کے بیانات کو لائک کرتے اور ان کی ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن جب وہ حکام کے شکنجے میں آجاتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے اکثر حامی دستبردار اور خاموش ہو جاتے ہیں۔
یہ امر بھی مساوی طور پر اہم ہے کہ ہر شخص کو ان حقوق کے بارے میں علم ہو جو اسے بطور انسان حاصل ہیں۔ دنیا بھر میں لوگوں کی اکثریت اس بات سے واقف نہیں ہوتی کہ اس موضوع پر ہر سال کوئی دن بھی منایا جاتا ہے۔ وہ بنیادی انسانی حقوق سے لطف اندوز ہونے میں خود کو برابر نہیں سمجھتے۔ سب سے بڑا چیلنج ان کو تعلیم دینا اور آگہی فراہم کر نا ہے۔ انہیں پوری تاریخ میں یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ وہ پیدائشی طور پر کمتر ہیں۔ ہندوستان میں ذات پات کا نظام اور نام نہاد ترقی پسند قوموں میں رنگین شعور اس کی مثالیں ہیں۔ وائٹ کالر ملازمتوں اور دستی مزدوری کے درمیان تفاوت اور کم تعلیم اور قابلیت کے ساتھ ایسے شعبوں میں کام کرنے والوں کو حقیر نظر سے دیکھنا استحصال اور غیر انسانی سلوک کو راستہ فراہم کرتا ہے۔ صنفی تفاوت اور عورتوں کو کم پیداواری تصور کرنے والی سرمایہ دارانہ دنیا جو ہر چیز کو نفع و نقصان کے لحاظ سے دیکھتی ہے، عورتوں پر بہت زیادہ ظلم وجبر کا نتیجہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ شادی، خاندان اور بچے کی پیدائش کے حق سے بھی محروم ہیں۔ توہم پرستانہ عقائد جیسے پہلی خاتون حوّا اصل گناہ کی وجہ تھی، بدسلوکی کا شکار خواتین میں اگر وہ قصوروار نہ ہوں تب بھی اس طرح کا ایک احساس پیدا کرتے ہیں اور یہاں وہ تمام روشن خیالی والے بیانات عملی سطح پر محض زبانی جمع وخرچ ثابت ہوتے ہیں۔
بھارت کی صورتحال: ملک کی حالیہ پیش رفت ثابت کرتی ہے کہ پوری قوم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں صدیوں پیچھے وحشیوں کے دور میں جی رہی ہے۔ بڑے شہر اور اعلیٰ تعلیمی ادارے وحشی فطرت کے مظالم کے گواہ ہیں جو انسانیت کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر پسماندہ اور پچھڑے طبقوں کو نہ صرف بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ برسر عام ان پر وحشیانہ حملے کیے جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو شدت پسند بنانے کا کام تیز رفتاری سے ہو رہا ہے۔ اکثر حکومتی مشینریز اور طاقتیں خاموش ساجھے دار بن کر سڑکوں کو غنڈوں کے حوالے کر دیتی ہیں۔ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ ملک میں بعض طبقات کے مقابلے میں جانوروں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔ خواتین کا کوئی نڈر وجود نہیں ہے جبکہ دارالحکومت دلی دنیا میں عصمت دری کے واقعات کی راجدھانی ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان ان ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے اقوام متحدہ انسانی حقوق کے اعلامیہ پر دستخط کیے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ان غنڈوں کی حوصلہ افزائی اور حمایت کرنے میں کوئی خوف یا شرم محسوس نہیں ہوتی جنہیں آزاد کر دیا جاتا ہے اور متاثرین دوبارہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ مخالفانہ آواز کو جڑ سے دبا دیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام سرکاری دفاتر میں بدعنوانی اور جانبداری نظر آتی ہے۔ آخر بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا؟
آگے کا راستہ: تمام سطحوں پر انصاف کا سخت اور غیر جانبدارانہ نفاذ ہی ایک حل ہے۔ سیاست اور مذہب کو عدالتوں میں کبھی زیر غور نہیں لانا چاہیے۔ یو ڈی ایچ آر کی بنیاد پر ہندوستان سمیت دنیا بھر کے ممالک نے بہت سے ضابطے بنائے ہیں جو غیر جانبداری سے لاگو ہونے پر کار گر ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان اصولوں کا استعمال سب کو بنیادی حقوق دینے کے بجائے اپنے لوگوں کو اضافی حقوق دینے کے لیے کیا جاتا ہے اور مراعات سے محروم طبقے کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ جمہوری نظام کا بنیادی مسئلہ ہے۔ حکومتیں صرف ان لوگوں کی ممنون ہوتی ہیں جو انہیں ووٹ دیتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ انتقامی سلوک کیا جاتا ہے۔ عوام کو تعلیم دے کر اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو بااختیار بنا کر کوئی بھی اس پر قابو پا سکتا ہے اور اچھی حکمرانی کو یقینی بنا سکتا ہے جو مظالم کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بولنے کا حق استعمال کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کو ذہنوں کو کھلا رکھنے، متعلقہ حکام کی توجہ مبذول کرانے اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے کی بجائے عوام کو آگاہ کرنے کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن سب سے اہم یہ عقیدہ ہے کہ ایک سپر پاور ہستی دیکھ رہی ہے: تمام انسانوں کا خالق جس نے زمین پر انصاف قائم کرنے کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ یہ عقیدہ کہ تمام انسان اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ اگر لوگوں کے ذہنوں میں اچھی طرح بیٹھ جائے تو عالمگیر بھائی چارے کا احساس بآسانی پیدا ہو سکتا ہے۔ گاندھی جی اور ان جیسے عظیم مفکرین نے جبر کے مسائل کے حل کے طور پر رواداری کی وکالت کی۔ انہوں نے کہا: ’’سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت اسی وقت آتی ہے جب ہم دوسرے کے نقطہ نظر کے تئیں بہت روادار ہوں۔‘‘ لیکن کسی کو برداشت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ انہیں پسند نہیں کرتے، لیکن پھر بھی آپ انسانیت کے نام پر ان کے ساتھ روادار ہیں۔ یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ اصل حل یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے سے بھائی بہن کی طرح محبت کرنے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے کی تعلیم دی جائے۔ اس پر قرآن نے چودہ سو برس پہلے ہی بتا دیا تھا:
’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے..‘‘ (سورہ حجرات آیت ۱۳)
اس آیت کے ذریعے قرآن نسل، قومیت، رنگ اور زبان کی بنیاد پر برتری کے تمام جھوٹے معیارات کو رد کرتا ہے اور راستبازی وحسن سلوک کو خالقِ کائنات کی نظر میں برتری کا واحد نشان بنا دیتا ہے۔ قرآنی تعلیمات کا نچوڑ سوائے انسانی حقوق اور وقار کو برقرار رکھنے کے اور کچھ نہیں ہے اور ان کے حصول کے لیے بہت سے واضح احکام وہدایات موجود ہیں۔ حیرت انگیز پہلو جسے مسلم دنیا سے باہر کے بہت سے مفکرین نے بھی محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے وہ شعبے جن کی نشاندہی جدید ترین اور غیر جانبدار حکمران اور فلسفی بھی نہیں کرسکے قرآن نے ان کی طرف نشاندہی کی ہے۔
مثال کے طور پر:عزت اور رازداری کے تحفظ کا حق: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے جو لوگ اس رَوش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے‘‘ (سورہ حجرات آیت ۱۱۔۱۲)
ظلم کے خلاف احتجاج کا حق: ’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔(سورہ نساء آیت ۱۴۸)
زندگی کے بنیادی معیار کا حق: ’’اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔(سورہ ذاریات آیت ۱۹)
تعاون کرنے یا نہ کرنے کا حق:
’’نیکی اور پرہیزگاری کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔‘‘ (سورہ مائدہ آیت ۲)
پیدائش کا حق: ’’ اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے‘‘(سورہ انعام جز آیت ۱۵۱)
ہم جانتے ہیں کہ نام نہاد مہذب معاشرے بھی صرف قومیت، رنگ یا نسل کی بنیاد پر پیدا ہونے کا حق سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم بعض لوگوں کی آبادی میں اضافے کے بارے میں خدشات سنتے ہیں۔
زمین پر امن قائم کرنے کی نیت سے اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کے لیے بہت زیادہ ہمدردی اور لیڈر کی قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آٹھویں صدی ہجری کو مکہ مکرمہ میں دنیا نے یہی دیکھا۔ فسطائی قوتوں کے ہاتھوں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت پر مجبور ہونے کے بعد جب نبی ﷺ اور آپ کے پیروکار مکہ واپس آئے اور ان پر فتح حاصل کی تو آپ نے پوچھا: ’’اے قریش! آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘‘ سوال انہی لوگوں سے تھا جنہوں نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ انہوں نے جواب دیا، ’’آپ ایک شریف اور سخی بھائی ہیں اور ایک شریف اور سخی بھائی کے بیٹے ہیں، حکم دینا آپ کا حق ہے۔’’ پھر آپ نے ان سے معافی کے کلمات کہے جیسا کہ قرآن کی درج ذیل آیت میں ہے۔ آپ نے جواب دیا: ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (سورہ یوسف آیت ۱۲)
اس آیت کا حوالہ اسی طرح کا طرز عمل اختیار کرنے کی طرف ہے جو حضرت یوسفؑ نے انہیں قتل کرنے کے ارادے سے کنویں میں دھکیل دینے والے اپنے بھائیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ حضرت یوسفؑ کی زندگی کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے قرآن کی بارہویں سورۃ پڑھیں ۔ان لوگوں کے لیے جو بعض برادریوں اور گروہوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اور ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کے آبا واجداد نے ان پر ظلم کیا تھا، رسول اللہ ﷺ کے اس عمل میں ایک اچھا سبق ہے جنہوں نے برسوں پرانے اپنے جانی دشمنوں کے لیے جو معاہدہ حدیبیہ کو توڑنے والے اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کو نقصان پہنچانے تھے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔
انسانی حقوق کے زیادہ تر ضوابط اور اعلانات ناکام ہونے کی وجہ وہ لوگ یا حکام ہیں جو ان کا اعلان کرتے ہیں یا ان کو مرتب کرتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے۔ اس کے بجائے وہ انہیں اپنے مخالفین پر ظلم کرنے اور اپنے ہی لوگوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا آخری خطبہ تاریخ میں لفظ بہ لفظ کندہ ہے اور اسے انسانی حقوق کے اعلامیہ کی سب سے قدیم اور جامع دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ یہ محض ایک بیان نہیں تھا بلکہ نبوت کے 23 سال کے اندر انصاف کا ایک آزمودہ اور ثابت شدہ فارمولا تھا جس میں نسل، جنس، دولت اور زبان کی بنیاد پر امتیاز جیسے بنیادی اسباب کو دور کیا گیا تھا۔ آپ نے اعلان کیا: ’’… اللہ نے تم پر سود لینا حرام کیا ہے، اس لیے اب سے تمام سود کی ذمہ داریاں ساقط ہو جائیں گی۔ تاہم، تمہارا سرمایہ تمہارے پاس ہے۔ تم نہ تو کسی قسم کی ناانصافی کرو گے اور نہ ہی برداشت کرو گے۔ اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی سود نہیں ہوگا اور عباس بن عبدالمطلب کا تمام سود اب معاف کر دیا جائے گا‘‘۔
’’اے لوگو، یہ درست ہے کہ تمہاری عورتوں کے بارے میں تمہارے کچھ حقوق ہیں لیکن ان کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ یاد رکھو کہ تم نے انہیں صرف اللہ کی امانت اور اس کی اجازت سے اپنی بیویوں کے طور پر لیا ہے۔ اگر وہ تمہارے حق کی پابندی کریں تو ان کا حق ہے کہ انہیں اچھا کھلایا جائے اور حسن سلوک کا لباس پہنایا جائے۔ اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاو کرو اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو کیونکہ وہ تمہاری شراکت دار اور پرعزم مددگار ہیں۔ اور یہ تمہارا حق ہے کہ وہ کسی ایسے شخص سے دوستی نہ کریں جسے تم پسند نہیں کرتے اور نہ ہی وہ بدکاری کریں۔۔۔‘‘
’’تمام بنی نوع انسان آدم و حوا سے ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی برتری حاصل نہیں سوائے تقویٰ اور نیک عمل کے۔‘‘
اسی طرح ’’صحیح ہو یا غلط میری قوم‘‘ کے نعرہ کو نبی ﷺ نے کبھی پسند نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ظالم اور مظلوم دونوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر وہ مظلوم ہے تو اس کی مدد کرنا ٹھیک ہے لیکن اگر وہ ظالم ہے تو ہم اس کی مدد کیسے کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے دوسروں پر ظلم کرنے سے روکو۔‘‘ (صحیح البخاری 2444)
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ محبت اور ہمدردی کے ان اسباق کی پیروی کرے اور پھیلائے تاکہ زمین کو سب کے رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنایا جا سکے، یہ جانتے ہوئے کہ دنیا اس سے زیادہ منصفانہ قوانین پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جو قرآن وسنت کے ذریعے ہمیں صدیوں پہلے مکمل طور پر دے دیے گئے تھے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ حقوق جو اللہ کی طرف سے منظور کیے گئے ہیں اور اس کے نبی ﷺ نے قائم کیے ہیں وہ دائمی اور ابدی ہیں۔ وہ ہمارے تعصبات اور خود غرضانہ مقاصد کے تابع نہیں ہیں۔ یہ انسانوں کے وضع کردہ ضابطوں کے برعکس ہیں جنہیں ان کی مرضی کے مطابق واپس لیا جا سکتا ہے، خلاف ورزی کی جا سکتی ہے یا نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ زبانی جمع وخرچ یہاں کافی نہیں چلے گا۔
حاصل بحث: دس دسمبر انسانی حقوق کی اہمیت، عالمی یکجہتی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہمارے باہمی ربط اور مشترکہ جذبہ انسانیت کو دنیا میں امن اور ترقی کو یقینی بنانے کا ایک موقع ہے۔ ہر قوم اور اس کے قائدین کو تنگ نظری اور خود غرضی سے بالاتر ہو کر انسانی حقوق کے اپنے وژن کو وسعت دینا چاہیے۔ گھر، بازار، عبادت گاہ وغیرہ میں چھوٹے چھوٹے اہم قدم ہیں۔ جیسا کہ ایلینور روزویلٹ نے کہا: ’’آخر، عالمی انسانی حقوق کہاں سے شروع ہوتے ہیں؟ چھوٹی جگہوں پر، گھر کے قریب – اتنے قریب اور اتنے چھوٹے کہ وہ دنیا کے نقشے پر نظر نہیں آتے… جب تک ان حقوق کا وہاں کوئی مطلب نہ ہو، ان کا کہیں بھی کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہیں گھر کے قریب رکھنے کے لیے شہریوں کے ٹھوس اقدام کے بغیر، ہم وسیع تر دنیا میں ترقی کے لیے بیکار محض نظر آئیں گے۔‘‘
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کی معاون قومی سکریٹری ہیں)
***

 

***

 ملک کی حالیہ پیش رفت ثابت کرتی ہے کہ پوری قوم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں صدیوں پیچھے وحشیوں کے دور میں جی رہی ہے۔ بڑے شہر اور اعلیٰ تعلیمی ادارے وحشی فطرت کے مظالم کے گواہ ہیں جو انسانیت کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر پسماندہ اور پچھڑے طبقوں کو نہ صرف بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ برسر عام ان پر وحشیانہ حملے کیے جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو شدت پسند بنانے کا کام تیز رفتاری سے ہو رہا ہے۔ اکثر حکومتی مشینریز اور طاقتیں خاموش ساجھے دار بن کر سڑکوں کو غنڈوں کے حوالے کر دیتی ہیں۔ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ ملک میں بعض طبقات کے مقابلے میں جانوروں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔ خواتین کا کوئی نڈر وجود نہیں ہے جبکہ دارالحکومت دلی دنیا میں عصمت دری کے واقعات کی راجدھانی ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان ان ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے اقوام متحدہ انسانی حقوق کے اعلامیہ پر دستخط کیے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ان غنڈوں کی حوصلہ افزائی اور حمایت کرنے میں کوئی خوف یا شرم محسوس نہیں ہوتی جنہیں آزاد کر دیا جاتا ہے اور متاثرین دوبارہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ مخالفانہ آواز کو جڑ سے دبا دیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام سرکاری دفاتر میں بدعنوانی اور جانبداری نظر آتی ہے۔ آخر بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021